شرافت وبردباری اور دانشمندی کا ایک جیتا جاگتا نمونہ

نائب قاضی جماعت المسلمین بھٹکل

           مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ اُن خوش نصیب شخصیات میں سے ایک تھے، جنھیں اپنے عظیم ماموںمفکر اسلام حضرت مولانا سیدابوالحسن علی ندویؒ کی تربیت و سرپرستی میں ایک طویل عرصہ گزارنے کا موقع ملا، لہذا آپ کو اپنے خاندان میں اپنے ماموں جان علیہ الرحمہ سے سب سے زیادہ استفادے کے مواقع حاصل ہوئے، کئی دہائیوں تک شب ورزو آپ کے ساتھ گزرے، سفر و حضر میں مستقل ساتھ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں مولانا عبداللہ عباس ندوی اس مثالی صحبت کا حولہ دیتے ہوئے  یوں شہادت دیتے ہیں کہ’’مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی خود مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی تصویر ہیں اور تصویر مجسم ہیں، صورت شکل بھی مولانا سے مل گئی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بخشش کا نمونہ ہے کہ مولانا کو ایسا جانشین دیا جو بلا نزاع ان کا آئینہ ہے‘‘۔

مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی علیہ الرحمہ حسنی خانوادے  کی حسین وپاکیزہ روایات کے امین وپاسبان تھے ، تعلیمی اداروں، علمی تحریکوں اور اصلاحی تنظیموں کے لیے ان کا وجود خیروبرکت کا جلی عنوان تھا ، ان کی گوناگوں خصوصیات کی وجہ ہی سے انہیں  امتیاز یہ بھی حاصل ہوا  کہ ہر مکتبہ فکر میں عقیدت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ، بلاشبہ آپ اپنے دور کے مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا مرجع تھے، رب ذوالجلال کی جانب سے انھیں فراست وبصیرت اور تحمل وبرداشت کا وافر حصہ عطا ہوا تھا ۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء ہو یا آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ،آپ نے تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو اس خوبی سے جوڑدیا تھا کہ اس کی مثال موجودہ دور میں عنقا نہیں تو کم یاب ضرور ہے ، مولانا میں بلا کی دور اندیشی اور حکمت عملی تھی وہ ہر منصوبے کوبڑی حکمت عملی سے نافذ کرتے تھے ، آپ نےملک میں شریعت کے تحفظ اور مسلم پرسنل لا ء بورڈ کی بقا کے لیے پھونک پھونک کر قدم رکھا، ان کا دورِ صدارت کافی طویل دودہائیوں پر مشتمل رہا، اس دوران آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ میں بارہا بحرانی دور آئے ، یہ مولانا ہی  کی دوراندیشی  تھی کہ بورڈ کوثابت قدم رکھنے میں آپ  کامیاب رہے، بعض مرتبہ مولانا کی صرف خاموشی نے دسیوں فتنوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا ۔

دور ِحاضر میں جب کہ وسائل ابلاغ کی کثرت وبہتات کی وجہ سےدنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر چکی ہے، جدید ٹیکنالوجی جس تیز رفتار کے ساتھ ترقی کررہی ہے، ماضی میں اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا،لیکن اسی کے ساتھ اس کا سب سے بڑا منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اسی ذرائع ابلاغ کے نتیجے میں کتنے ہی فتنے  اور اختلافات  ذراسی زبان کی لغزش اور بے احتیاطی کے نتیجے وجود میں آتے ہیں ،اور آدمی احقاق حق کے زعم میں دعوت وتبلیغ کے اصول کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بجائے نفع اور امت کو مثبت رخ دینے کے وہ مزید امت میں انتشار وافتراق کا ذریعہ بنتا ہے،اور سینکڑوں لوگوں کے گناہوں کا بوجھ اپنے سر لادتا ہے ،اسی مناسبت سے ایک واقعہ بھی سنتے چلیں،برادر مکرم مولانا شاہ اجمل فاروق صاحب ندوی اپنے ایک مضمون میں  تحریر فرماتے ہیں کہ غالبا۲۰۰۴کی بات ہے،مرشد الامت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا صدر بنے ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا،ایک دن اچانک ٹی وی پر یہ خبر چلنے لگی کہ بورڈ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیاہے،شیعہ حضرات، بریلوی حضرات اور مسلم خواتین نے اپنے اپنے الگ پرسنل لا بورڈ بنالیےہیں ،دو لوگوں کی لکھنؤ سے اور ایک صاحب کی بریلی سے تصاویر دکھائی جانے لگیں، گل پوشی کے مناظر اور پریس کانفرنس نشر کی جانے لگی ،ہر طرف رنج و غم اور مایوسی کا ماحول بن گیا،ملت کا ہر مخلص فرد تشویش میں مبتلا تھا،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ایسا ماحول بنا دیا گیا تھا کہ صفِ اول کے علماء وقائدین کے بھی ماتمی مضامین شائع ہونے لگے۔ مرشد الامت کو کبھی منظرِ عام پر رہنے کا ذوق رہا نہ شوق ،لیکن اس موقعے پر انھوں نے صحافیوں سے بات چیت کی، پوچھا گیا: "مسلم پرسنل لا بورڈ ٹوٹ گیا ہے، اس پر آپ کیا کہتے ہیں؟” حسبِ معمول نہایت سکون کے ساتھ جواب ارشاد ہوا:”کوئی ادارہ اس وقت ٹوٹتا ہے جب اس سے کچھ افراد نکل کر کوئی الگ اتحاد بنالیں ،مسلم پرسنل لا بورڈ میں جو شیعہ اور بریلوی حضرات ہیں اور جو خواتین ہیں، وہ سب پہلے ہی کی طرح بورڈ کا حصہ ہیں ،ان میں سے کسی نے بورڈ سے علاحدگی اختیار نہیں کی ہے،ہم نے سنا ہے کہ پرسنل لا کی بنیاد پر تین الگ ادارے قائم ہوئے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے،کام کرنے کے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں ،وہ لوگ بھی کام کرنا چاہتے ہیں تو انھیں کرنے دینا چاہیے،البتہ اگر اپنے اداروں کے ناموں پر دوبارہ غور کرلیں تو بہتر ہوگا،یکساں نام رکھنا مناسب نہیں ہوتا، لوگوں کو غلط فہمی رہتی ہے”اسی روز یہ بیان الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا میں اور آئندہ روز پرنٹ میڈیا میں عام ہوگیا،اس حکیمانہ بیان نے مخفی ہاتھ کی پشت پناہی میں قائم ہونے والے تینوں اداروں کے غباروں کی ایسی ہوا نکالی کہ انھیں آج تک کوئی ہوا بھرنے والا نصیب نہ ہوسکا،اس طرح مسلمانانِ ہند کی مشترکہ امانت محفوظ رہ گئی۔

اسی طرح ایک سفر کے موقعہ پر ایک شہر میں جانا ہوا، مجلس میں شہر کے کئی اصحاب علم وفضل جمع تھے،مجلس میں  بعض ایسے جملے آپ کو سننے ملے جس سے عصبیت کی بو آتی تھی،اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے فرمایا: "اس کا مطلب ہے کہ آپ لوگوں نے یہاں ندوے کا صحیح تعارف نہیں کرایا ہے، ندوہ دوسری عصبیتوں کو مٹانے کے لیے قائم ہوا ہے، ایک الگ عصبیت بننے کے لیے نہیں.”در اصل یہی ان بزرگوں کی میراث ہے کہ یہ حضرات اپنے زبان وقلم کے استعمال سے پہلے دس بار سوچ کر اس کا استعمال کرتے ہیں ،جس سے ان کے نقوش وحروف ہمیشہ کے لیے امت میں راہ ہدایت کا ذریعہ بنتے ہیں۔

مولانا نے پوری زندگی اپنے عمل سے بھی اور زبان وقلم کی طاقت کے ذریعے  یہی پیغام دیا کہ اسلام میں اظہار  رائے کی آزادی  اور احقا ق  حق کی ذمے داری محض انسانی حق ہی نہیں،  بلکہ یہ امت مسلمہ کا ایک دینی اور اخلاقی فرض بھی ہے،ابلاغ و ترسیل اور دعوت الی اللہ کی ذمہ داری اگر سچائی اور حکمت ودانائی پر مبنی ہوگی تو اس سے معاشرے میں اچھے اقدار کو فروغ اور استحکام ملے گا اور معاشرہ ایک مثبت سمت میں آگے بڑھتا جائے گا،لیکن اگر کذب کی ملاوٹ ہوگی یا حکمت ودانائی سے عاری ہو کر اپنے زبان وقلم کا استعمال ہوگا  تو معاشرے میں ہر طرف نفرت، انتشار، بے چینی اور پریشانی کا ماحول پیدا ہوگا،آپ نے مسلم برادری سے میڈیا کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی طرف توجہ دلاتے     ہوئے ۲۰۱۶میں ایک کانفرنس کے دوران کہاتھا”جس دن مسلمان میڈیا پر کمان سنبھالیں گے وہ یقینی طور پر نہ صرف مسلمانوں کے لیےبلکہ پوری دنیا کے لیے ایک بہتر دن ہو گا‘‘۔

آپ کو تصنیف و تالیف سے بڑی دل چسپی رہی ،آپ کی عربی اور اردوزبانوں میں تین درجن سے زائد کتابیں شائع ہوکر مقبول خاص وعام ہوچکی ہیں، اور ان میں بعض کتابیں اسکولوں اور مدارس کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔قدرت کی طرف سے آپ کو جہاں بینی کا موقع بھی اپنے عظیم ماموں کے ساتھ حاصل ہوا ،آپ نے دنیا کے متعدد ممالک کے اسفار کیے جن میں امریکا، جاپان، مراکش، ملائیشیا، مصر، تونس، الجزائر، ازبکستان، ترکی، جنوبی افریقہ اور متعدد عرب، یورپی اور افریقی ممالک شامل ہیں۔

اسی کے ساتھ عظیم انسانوں کی ایک اہم خوبی ہمیشہ چھوٹا بن کر رہنا ہے،مرحوم علیہ الرحمہ میں بھی خالق کائنات کی طرف سےقناعت اور استغناء  کوٹ کوٹ کر بھردی گئی تھی، وہ سادگی ،شرافت اور حسن کردار کے پیکر تھے ، ان سے ان کا ادنیٰ شاگرد بھی ملنے آتا تو اس کے ساتھ ایسے پیش آتے جیسے اپنے کسی بڑے کے ساتھ سلوک کررہے ہو،جب کہ ان کا شمار دنیا کے پانچ سو انتہائی بااثر مسلم شخصیات میں ہوتا تھا،مولانا کی وفات سےپہلے راقم کے سفر رائے بریلی کے موقعہ پر تین چار دن تک مستقل مولانا کے قریب بیٹھ کر استفادے کا موقعہ حاصل ہوا ،لیکن پوری گفتگو میں اپنی کسی بات سےنہ اپنی اور نہ اپنے خاندان کی بڑائی کا احساس تک ہونے نہ دیا،بلکہ مستقل گفتگو کا محور ہی اللہ کی رضا کا حصول اور دین کی تبلیغ واشاعت کا رہا۔

اپنے چھوٹوں کی اصلاح کے سلسلے میں بھی برابر فکر مندرہتے ،لیکن اسی کے ساتھ ان کی عزت نفس کا بھی مکمل خیال رکھتے،ایک مرتبہ ندوے کی مسجد میں راقم مولانا کے ساتھ نماز میں کھڑا تھا ،لیکن دوسری طرف ایک طالب علم نماز میں حرکت کررہا تھا ،نماز کے بعد مولانا نے ان سے فرمایا کہ نماز میں حرکت نہیں کرنی چاہیے ،لیکن یہ اتنی پست آواز میں تھا کہ کسی کو ذرہ برابر احساس تک نہ ہونے دیا ،اسی طرح مولانا کو کفر وشرک کے مظاہر سے بھی سخت نفرت تھی ،مولانا محمود حسنی رحمہ اللہ نے یہ واقعہ بیان کیا تھا کہ جب حضرت کا کنیا کماری کا سفر ہو ا،یہ شہر ہندوستان کے سب سے جنوبی سرےپر واقع ہے، چوں کہ یہاں کا سفرکرنا گویاایک ایسے دائرے میں قدم رکھنے کے مترادف ہے جہاں آسمان سمندروں سے ملتے ہیں اور فطرت کے عجائبات آپ کی آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں، افق پر سحر انگیز طلوع آفتاب سے لے کر زمین کی تزئین کو دوچند کرنے والے متحرک رنگ یہاں آنے والے تمام لوگوں کے دلوں کو موہ لیتا ہے،لیکن وہی دوسری طرف برادران وطن سورج کو معبود کا درجہ دیتے ہوئےاس کی عظمت کے مظاہر شروع کرتے ہیں ،لیکن مولانا کا حساس دل ہی تھا کہ  اسی وجہ سے اس منظر کو دیکھنے میں آپ کو کراہت محسوس ہوئی اور آپ نے وہاں رکنا گوارا نہیں کیا ۔  

کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گذر گئے

جی چاہتا ہے نقشِ قدم چومتے چلیں

آپ کی ذات اس دور ِقحط الرجال میں ہم سب کے لیے ایک نعمت اور باعث رشک تھی ، ان کی وفات پوری ملت کے لیے حادثہ عظیم ہے ،دعا ہے کہ اللہ تعالی حضرت مرحوم کو رحمتوں سے نوازے اور ان کے مراتب بلند فرمائے اور انبیاء و صدیقین کا رفیق بنائے ( آمین یا رب العالمین)

«
»

کرناٹک کے سابق وزیر پرمود مادھواراج پر اشتعال انگریز بیان دینے کا الزام ، معاملہ درج

دہلی کے بعد اب بہار میں وقف ایکٹ 2024 کے خلاف 26 مارچ کو عظیم الشان احتجاج