مولانا محمود الحسني – رحمة الله عليه – میرے ایک مخلص دوست

مولانا عبیداللہ اسحاقی ندوی

آج سے تقریباً تیس سال قبل جب میں ندوة العلماء میں فضیلت اول کا طالب علم تھا ، مولانا محمود الحسن الحسنی – رحمة الله عليه – سے متعارف ہوا ، مولانا سید سلمان حسینی صاحب سے میرا ایسا تعلق تھا کہ میرا اکثر قیام ندوة العلماء کے ہاسٹل سے زیادہ خاتون منزل ، گولہ گنج میں ہوا کرتا تھا ، میں ان کے گھر کا ایک فرد تھا ، اسی تعلق سے خاندانِ حسنی کا ہر فرد مجھ سے محبت کرتا تھا ، جن ميں مولانا عبد الله حسني صاحب – رحمة الله عليه – ، مولانا حمزه حسني صاحب  – رحمة الله عليه – ، مولانا محمود الحسن – رحمة الله عليه –  کے والد جناب حسن حسنی صاحب – رحمة الله عليه – ، ڈاکٹر احمد حسنی صاحب – رحمة الله عليه – ، اور ان سب کے والد محترم جناب مسلم حسنی صاحب – رحمة الله عليه – قابل ذکر ہیں ، مولانا عبد الله حسني – رحمة الله عليه – کے اہل خانہ جب چھٹیوں میں تکیہ ، رائ بریلی جاتے تھے تو مولانا مرحوم اپنے گھر پر رات کے قیام کے لۓ مجھے اور ندوة العلماء کے کلیة الشريعه کے کتب خانہ کے ملازم بڑے میاں زاہد صاحب کو دعوت دیتے تھے ، اس طرح خاندانِ حسنَین سے بہت ہی زیادہ قرب رہا.

فضیلت اول کے دورِ طالب علمی میں ہی مولانا سید سلمان حسینی صاحب کی رفاقت میں مغربی یوپی کے ایک ایسے پندرہ روزہ تاریخی دعوتی دورہ میں شریک ہونے کا موقعہ ملا ، جس کے رفقاء سفر مولانا محمود الحسن – رحمة الله عليه – اور مولانا اعجاز قطب باره بنكوي – رحمة الله عليه – بھی تھے ، جس سفر میں مولانا مرحوم سے مزید تعلق قائم ہوا ، اور جس کی یادیں آج تک دل ودماغ پر نقش ہیں۔

مولانا محمود الحسن الحسنی – رحمة الله عليه – میرے ایک مخلص ومحبوب دوست تھے ،  اسی طرح میں اور مولانا سید ہاشم ایس ایم ندوی بھٹکلی ان کے سب سے زیادہ محبوب دوست تھے ، میں سمجھتا ہوں  کہ وہ اپنے دوست واحباب میں مجھ سے زیادہ کسی اور کو اپنا عزیز نہیں سمجھتے ہوں گے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ : آج سے چند سال پہلے وہ سعودی حکومت کی شاہی دعوت پر حج بیت الله کے لیۓ مکه مکرمه حاضر ہوئے تھے ، ان کا قیام شاہی ہوٹل میں تھا ، انہوں نے مجھ سے اپنی دوستی اور محبت کی آخری مثال پیش کی کہ : ایک دن ايک رات اپنے شاہی ہوٹل ، اور اپنے شاہی طعام کو خیر باد کیا ، اور میری معمولی قیام گاہ تشریف لائے ، اور کہا : *یہاں وہاں سے زیادہ لُطف ہے۔*

وہ میرے ایک مخلص دوست تھے ، مکہ مکرمہ میں میرے قیام پر انہیں بہت خوشی بلکہ فخر تھا ، میری ہر علمی ترقی انہیں عزیز تھی ، جس پر وہ خوب خوش ہوتے تھے ، منھ بھر بھر کر دعائیں دے تھے ، اور ہمیشہ ہمیش ڈاکٹریٹ کی تکمیل کی تائید وہمت افزائی کرتے تھے۔

مولانا محمود الحسن – رحمة الله عليه – کی فطرت میں ، ان کی طبیعت میں صلاح ، زہد وتقویٰ ، انابت وخشيت تهی ، ان کا دل الله اور رسول الله ﷺ کی محبت سے معمور تھا ، وہ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں مجھ سے کہنے لگے : کسی عبادت کے متعلق قطعی طور سے یہ کہنا مشکل ہے کہ : وہ عند الله مقبول ہوی یا نہیں ، *البتہ درود شریف ایک ایسی مقدس عبادت ہے کہ جس کی قبولیت یقینی ہے ،* اور جس کا وہ بڑا اہتمام کرتے تھے۔

مولانا محمود الحسن – رحمة الله عليه – کے خمیر میں دین تھا ، ان کی دینداری اصلی اور طبیعی تھی ،  ان کی دینداری بناوٹی ، اور خود ساختہ نہیں تھی ، ان کے ہاتھ میں تسبیح نہیں ہوا کرتی تھی ، لیکن ان کا دل حقد وحسد ، بغض وکینہ سے پاک وصاف تھا ، وہ ایک عجيب فرشتہ صفت انسان تھے ، وہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کی ترقی سے خوش ہوتے تھے ، انہیں دل سے دعائیں دیتے تھے ، کسی کی اصلاح اور تنبیہ كا بھی عجیب ولطیف انداز تها ، الله نے انہیں سیرت نگاری کا بڑا ذوق دیا تھا ، انہوں نے اپنی اس کم عمری میں وہ عظیم کارنامہ انجام دیا جو مشکل سے صدی میں پورا ہوتا ہے ، الله رب العزت ان کے اہل خانہ ، اعزّہ واقارب ، جمیع محبّین ومتعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ، اللهم آمين 

قاللهم اغفر له وارحمه ، وارفع درجته في المهديّين ، واجعل كتابه في علّيّين ، ووسّع قبره مدّ بصره ، ونوّر له في قبره ، واجعل قبره روضةً من رياض الجنّة ، واجمعنا وإيّاه في الفردوس الأعلى مع سيّد المرسلين والنّبيّين والصدّيقين والشهداء والصالحين ، برحمتك يا أرحم الراحمين ، اللهم آمين.

«
»

مولانا سیّد محمود حسنی رحمة الله عليه

یوم عاشوراء کی اہمیت و فضیلت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے