چند خوش گوار یادیں : مولانا شاہد صاحب فیض آبادی رحمۃ اللہ علیہ
طارق اکرمی ندوی
7/ شوال المکرم 1441ھ مطابق 30 مئی 2020ء بروز سنیچر عصر کے وقت اچانک یہ خبر سننے کو ملی کہ راے بریلی کے مولانا شاہد صاحب (قاسمی ندوی فیض آبادی) کا انتقال ہوگیا، اس سے پہلے مولانا کی علالت کی خبر موصول نہیں ہوئی تھی، بعد میں معلوم ہوا کہ مولانا کئی مہینے سے علیل چل رہے تھے، بیماریوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، غم و اندوہ کا کوہ گراں ان پر تھا، موت آئی تو غموں سے نجات پا کر بارگار ایزدی میں حاضر ہوگئے، امید کہ غفور ور حیم رب کی مہمانی میں ہوں گے
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
موت کا تعلق بیماری اور صحت سے نہیں، وہ خالص حکم ربی ہے، ہرشخص کے آنے اور جانے کا وقت اس کے علم محیط میں متعین و مقرر ہے، موت کے اسباب اور ظاہری ذرائع بھی اسی کے حکم کے تابع ہیں۔ ع اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
بقول شاعرے؛
زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے
انتقال کی خبر سنی اور معاً ایک سالہ مستقل رفاقت کے علاوہ قیام راے بریلی کے دوران مولانا سے مختصر و طویل ملاقاتیں ذہن میں آنے لگیں، یاد آیا کہ ہماری پہلی ملاقات کہاں ہوئی اور آخری کہاں؟! لیکن اس وقت کیا معلوم تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہوگی، سال گذشتہ رمضان المبارک ۰۴۴۱ھ کے ۲۱ دن تکیے میں گزار کر جب واپس ہونے لگے تو مولانا سے ملنے کے لیے بنگلے میں گئے لیکن وہاں موجود نہیں تھے، انتظار کرکے جب جانے لگے اور آٹو پر سوار ہو کر نکل پڑے، تو اچانک نظر پڑی کہ مولانا پروے کی طرف سے چہل قدمی کرکے واپس ہو رہے ہیں، وقت بہت کم ہونے کے باوجود آٹو روک کر ملاقات کی، کسے معلوم تھا کہ یہ ملاقات کی نہیں گئی بلکہ کرائی گئی ہے، اور یہی ملاقات آخری ملاقات ثابت ہونی ہے، اللہ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے۔
سیدی و مرشدی حضرت الأستاذ مولانا سید عبداللہ حسنی ندوی رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد پہلی بار جب راے بریلی جانا ہوا، اس وقت مولانا شاہد صاحب سے ہماری پہلی ملاقات ہوئی، اس وقت مختصر بات ہوئی، اور ہمیں یاد بھی نہ رہا کہ کیا بات ہوئی اور کس کیفیت سے ہوئی، دیڑھ دو سال بعد مولانا کی زبانی خود سنا کہ فلاں کیفیت میں ہم آئے تھے، اور فلاں جگہ کھڑے ہو کر بات ہوئی، ہمیں حیرت ہوئی کہ مولانا کو یہ سب یاد کیسے رہا۔
مولانا مرحوم اللہ تعالی نے بڑی صفات سے نوازا تھا،جن شاید سب سے اہم محبت و محبوبیت کی صفت تھی، جو حسن اخلاق کا نمایاں نتیجہ ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (المؤمن یألف و یؤلف، ولا خیر فیمن لا یألف ولا یؤلف)]احمد، حاکم، بیہقی وغیرہ بروایت حضرت جابر و سہل ساعدی رضي اللہ عنہم[ (یہ مومن کی صفت ہے وہ لوگوں کو چاہتا ہے اور لوگ بھی اس سے محبت کرتے ہیں، وہ کیسا مومن جو چاہے اور نہ اس کو چاہا جائے) اس کی مزید وضاحت ایک اور حدیث سے ہوتی ہے (أکمل المؤمنین إیماناً أحسنہم خلقاً، الموطؤن أکنافاً، الذین یألفون و یؤلفون، ولا خیر فیمن لا یألف ولا یؤلف)(ایمان میں سب سے بلند مقام اس کا ہوگا جس کے اخلاق سب سے بلند ہوں گے، جو سب سے زیادہ متواضع اور نرم خو ہوگا، جو لوگوں سے محبت کرتے ہیں اور لوگ بھی ان سے محبت کرتے ہیں، وہ اچھا نہیں جس کے دل میں محبت کا جذبہ نہیں، اور لوگوں کو بھی اس سے تعلق نہیں ہوتا)۔
مولانا شاہد مرحوم کے قریبی اور ان کے ملاقاتی یقینا اس بات کے شاہد ہوں گے کہ یہ صفت مولانا میں بدرجہ تمام موجود تھی، اور بہت خوب تھی، خوش مزاجی، ہنستا چہرہ، پر مزاح انداز تکلم مولانا کے خواص تھے، انہی اوصاف کی وجہ سے آپ مدرسہ ضیاء العلوم کے طلبہ و اساتذہ کے ہر دل عزیز تھے، مزاج میں مزاح اس قدر تھا کہ طلبہ ان کے غصے کو بھی مزاح ہی سمجھتے، شفقت اتنی کہ اکثر طلبہ ومحبین کی ایک تعداد صبح سے تا شام آپ کے ساتھ رہتی۔
مزاج میں محنت و جفا کشی تھی، فجرسے پہلے اٹھنا، ورزش کرنا اور بنگلے کی صفائی کرنا اور بنگلے سے متصل باغیچہ کی دیکھ ریکھ اور اس کی سینچائی کرنا، پھر اپنی سائیکل کی صفائی اور مدرسہ جانے کی مکمل تیاری کرنا اور اس کے بعد اگر وقت رہے تو پھر مطالعے میں مشغول ہونا روزانہ کا معمول تھا، ہم نے دیکھا اور خوب دیکھا کہ مغرب بعد کا وقت دوسری مشغولیتوں میں صرف کرنا ان کو بہت گراں گزرتا تھا، یہ ان کے مطالعے اور دوسرے دن کی تیاری کا وقت ہوتا، کبھی اپنے کمرے کا دروازہ بند کرکے اور کبھی کھلا رکھ کر محو مطالعہ ہوتے۔
ما بعد مغرب مطالعے کے علاوہ دو انوکھی باتیں اور تھیں، ایک مہمانوں کی آمد پر ان کی خاص قسم کی چائے، جس کو سرپت کی چائے کہتے ہیں،(طبی اصطلاح میں اس کا کچھ اور نام ہے البتہ) عام زبان میں سرپتیّا کہتے تھے، اس کو بنانے کا ان اپنا خاص انداز تھا، جو ذائقہ کسی اور کے بنانے پر نہیں آتا تھا، اسی وجہ اس کا اصل مغلوب ہو کر دوسرا اصطلاحی نام (شاہد ٹی) غالب آگیا تھا،یہ چائے سردرد، نزلہ، زکام، کھانسی کے لیے بہت مفید ثابت ہوتی تھی۔
دوسری چیز جو تقریبا ان کے مغرب بعد کے معمولات میں تھی وہ مطالعے دوران لیّا اور چنا، یہ مطالعے کے دوران ان کی خاص غذا تھی، ایک چھوٹی سی تھیلی میں رکھ مطالعے کے ساتھ یہ بھی چلتا رہتا تھا، کبھی اس میں ایک دو افراد مزید اس میں شامل ہوتے تھے۔
مولانا مرحوم میں مہمانوں کی خدمت کا جذبہ بدرجہئ تمام موجود تھا، خدمت کرنا یوں بھی وصول الی اللہ کے لیے سہل ترین اور اقرب طریق ہے، چہ جائے کہ یہ خدمت بزرگوں اور اولیاء اللہ یا طلبہ و متوسلین کی ہو، حضرت مولانا دامت برکاتہم العالیہ، حضرت مولانا سید محمد واضح حسنی ندوی رحمہ اللہ اور دیگر حضرات اکابر کی جی جان سے خدمت کیا کرتے تھے، آپ بڑے منتظم شخص تھے، امانت دار تھے، مولانا نیاز صاحب مرحوم کے کلیتاً بنگلے کا انتظام آپ کے سپرد تھا، سلیقہ مندی طبیعت میں تھی، آپ کی ہر چیز اپنی جگہ پر بالکل مناسب اور سلیقے سے رکھی ہوئی ہوتی، بے ترتیبی سے ان کی طبیعت پر اثر پڑتاتھا۔
مولانا کی باتیں بہت پرلطف ہو کرتی تھیں، فصیح اردو میں اپنی علاقائی زبان شامل کرکے ایک نئی اصطلاح ہی بنا لیتے، ان میں اکثر کلمات ہماری سمجھ سے اگر چہ بالا ہوتے مگر سننے میں لطف ضرور آتا، کبھی ترجمہ معلوم کرلیتے، پھر بھی یاد رکھنا تقریبا ناممکن ہی ہوتا۔
اللہ تعالی مولانا مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے،خطایا سے در گزر فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور پسماندگاان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین
03/ جون 2020(ادارہ فکروخبر بھٹکل)
جواب دیں