از: مولانا عبدالسلام خطیب ندوی استاد دارالعلوم ندوةالعلماء لکھنؤ6/اکتوبر 2023/بروز جمعہ شام کے وقت سوشل میڈیا کے ذریعے یہ دکھ بھری اطلاع ملی کہ جامعہ مظاھر علوم کے امین عام نواسہ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ بہت سی تحقیقی علمی دعوتی کتابوں کے مصنف ومرتب اور مشہور عالم […]
جامعہ مظاھر العلوم سہارنپور کے امین عام مولانا شاہد حسینی سہارنپوری رحمةالله عليه
از: مولانا عبدالسلام خطیب ندوی استاد دارالعلوم ندوةالعلماء لکھنؤ 6/اکتوبر 2023/بروز جمعہ شام کے وقت سوشل میڈیا کے ذریعے یہ دکھ بھری اطلاع ملی کہ جامعہ مظاھر علوم کے امین عام نواسہ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ بہت سی تحقیقی علمی دعوتی کتابوں کے مصنف ومرتب اور مشہور عالم دین حضرت مولانا سید شاہد صاحب سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا ہے خبر کی تصدیق کے لئے جامعہ مظاھر علوم کے استاد اور عربی ادب کے ذمہ دار مولانا شاہد صاحب سہارنپوری رحمہ اللہ کے قریبی عزیز اور ہمارے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے طالب علمی کے زمانے کے محترم دوست ورفیق جناب مولانا معاذ احمد صاحب کاندھلوی ندوی زیدت مکارمہ سے فون پر گفتگو کی تو انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ کیسے بالکل آسانی سے روح پرواز کرگئی حضرت مولانا شاہد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو پہلی مرتبہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ایک تبلیغی اجتماع کے موقع پر دیکھا تھا جو حضرت جی مولانا انعام الحسن کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے چند ماہ بعد منعقد ہوا تھا جس میں بنگلہ والی مسجد مرکز نظام الدین سے اکثر ذمہ دار حضرات تشریف لائے تھے مولانا رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے خالہ زاد بھائی و بہنوئی حضرت مولانا زبیر الحسن صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ ندوۃ کے مہمان خانے میں تشریف فرما تھے مجھے دیکھتے ہی پوچھا کہ بھٹکل کے ہو ؟میں نے اثبات میں جواب دیا تو پھر غالباً یہ معلوم کیا کہ کس درجے میں پڑھتے ہو میں نے بتایا کہ فضیلت دوم میں ہوں یہ یہاں کے تعلیمی نظام کا آخری سال ہے تو فوراً فرمایا کہ سھارن پور آئیے گا خیر اس وقت تو کوئی خاص ارادہ نہیں تھا لیکن مولانا مرحوم کی مخلصانہ دعوت اور اپنائیت کے ساتھ دیا ہوا محبت بھرا حکم کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب جونپوری رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات اور آپ رحمتہ اللہ علیہ سے استفادے کے لیے شروع کئے گئے عنوان سے مل گئی ، اس عنوان سے بار بار سھارن پور حاضری ہوتی رہی اور حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی مجالس میں خوب بیٹھنے کا موقع ملتا رہا، مظاھر علوم حاضری کے موقع پر اگر مولانا شاہد صاحب رحمۃ اللہ علیہ وہاں تشریف فرما ہوتے اور ملاقات ہو جاتی تو آپ بڑی خوشی کا اظہار فرماتے قیام کا نظام معلوم کرتے جب یہ بتایا جاتا کہ شیخ یونس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مہمان ہیں تو خوشی و اطمینان کا اظہار کرتے مولانا شاہد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑے ذھین و سمجھدار اور ذی علم مستقل مزاج اور محنتی عالم دین تھے ہر وقت لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے مدرسہ میں شیخ یونس صاحب کی قیام گاہ کے نچلے حصے میں آپ کا ایک کمرہ و دارالمطالعہ یا دار التصنیف تھا جس میں آپ مستقل کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے آپ کو اپنے نانا اور قریبی دور کے ممتاز ومعروف علمی روحانی تربیتی و دعوتی شخصیت شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ سے بڑی عقیدت و محبت اور آپ کے علمی کاموں سے بڑی مناسبت تھی آپ نے اپنے آپ کو ایک طرح سے اپنے نانا جان کے علمی ورثے کی نشر واشاعت کے لئے وقف کیا تھا ،نوعمری ہی سے نانا جان کے ساتھ لگے رہے، نانا جان کی خدمت کرنا اور ان کی کتابوں کو مرتب کرنا ان کے نوٹس اور روزنامچوں کو محفوظ رکھنا ان کا معمول بن گیا، آپ نے اپنے بزرگ و مؤقر نانا جان سے سہارن پور میں بھی استفادہ کیا اور مدینہ منورہ قیام کے دوران بھی حضرت کے علمی معاون بن کر خوب استفادہ کیا، اور ان کی دعاؤں اور توجہات کے مستحق بنتے رہے، اپنے علمی تحقیقی وتصنیفی سفر کو حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد بھی جاری رکھا، اور مستقل مدرسہ کے انتظامی امور کی ذمہ داری کو احسن طریقے سے انجام دیتے ہوئے تدریسی وتصنیفی کام سے اپنے آپ کو مستقل وابستہ رکھا، آپ علمی تاریخی دعوتی ادبی اور تحقیقی ذوق کے حامل تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے علمائے مظاھر علوم پر کئ جلدوں میں کتابیں لکھی، جس میں مظاھر علوم کے فارغین کے حالات ،اساتذہ کرام اور مشائخ کے نام کن سے کیا کیا کتابیں پڑھیں، اصلاحی تعلق کن سے قائم رکھا مدرسہ سے فراغت کے بعد کن امور سے وابستہ رہے پوری تحقیق سے لکھا، مولانا کی یہ کتاب اپنے موضوع پر مکمل مرجع کی حیثیت رکھتی ہے مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وطن سہارنپور کے بھی دانشوران علماء اور مشائخ کے حالات اور ان کی خدمات پر مستقل علمی و تحقیقی کام کیا مولانا شاہد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ تو حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی تھیں جن کے خاندان کا شمار ہندوستان کے چند اھم علمی دینی دعوتی خانوادوں میں ہوتا ہے اور اس خاندان کے علماء و مشائخ پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں
مولانا کا آبائی تعلق مغربی یوپی کے سادات کرام سے تھا آپ کے دادا مولانا حکیم سید ایوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑے حاذق طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے عالم و فاضل اور اپنے زمانے میں مدرسہ مظاہر علوم کے سرپرستوں میں تھے آپ کی اولاد و احفاد میں علماء و حفاظ کی ایک بڑی تعداد موجود ہیں جس میں شیخ الحدیث وشیخ وقت و جامعہ مظاھر علوم کے ناظم اعلیٰ و سربراہ حضرت مولانا سید عاقل صاحب سہارنپوری دامت برکاتہم بھی ہیں مولانا شاہد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اہلیہ مرحومہ حضرت جی ثالث حضرت مولانا انعام الحسن کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کی دختر نیک اختر تھیں حضرت مولانا انعام الحسن کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ مولانا شاہد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خالو بھی تھے اس اعتبار سے آپ کو حضرت جی ثالث رحمۃ اللہ علیہ سے خوب استفادے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نگرانی و تربیت میں رہنے اور آپ کی سرپرستی میں دعوت وتبلیغ کے میدان میں کام کرنے کا بھی خوب موقع ملا اور آپ نے حضرت جی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد آپ کی سیرت اور دعوتی اسلوب و حکمت پر تفصیلی کتاب لکھ کر اپنے استفادے کا حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت جی کے علوم ومعارف کو محفوظ کرکے بعد میں آنے والوں کے لیے علمی و دعوتی بیش قیمت تحفہ سب کے لیے پیش کیا، اسی طرح آپ نے اپنے خالہ زاد بھائی و بہنوئی اور حضرت جی مولانا انعام الحسن کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے اکلوتے فرزند و جانشین حضرت مولانا زبیر الحسن کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد ان کے حالات دعوتی خدمات مختلف امور و معاملات میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی آراء اور اپنے سلف کے منہج ومزاج سے جڑے رہنے وغیرہ صفات کو مرتب کرکے ایک ضخیم کتابی شکل میں شائع کرکے ایک طرح سے دعوت و تبلیغ کی ایک تاریخ مرتب و محفوظ کردی مولانا شاہد صاحب سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ مدرسہ مظاہر علوم کے ایک ذمہ دار تھے اور اپنی نوعمری سے ہی اپنے بڑوں کی مجالس وصحبت سے مدرسہ کے مقاصد اس کی اساس اور اس کے عملی امور سے بھی خوب واقف تھے اس لیے آپ اپنی انتظامی ذمہ داری کو بڑی تندھی کے ساتھ انجام دینے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہے، مدرسہ کو علمی اعتبار سے آگے بڑھانے اور تنظیمی طور منظم کرنے میں آپ نے اپنی پوری صلاحیت لگادی مدرسہ کے لئے مزید جگہ خریدی تعمیرات میں اضافہ کیا ،کئ نئے علمی شعبے شروع کرائے، اردو عربی مجلات شائع کرنے کی طرف توجہ کی، بعض حدیث کی کتابوں کی تخریج و تحقیق پر مدرسہ کے بعض فضلاء کو لگایا اور اس کی نشر و اشاعت کا اھتمام کیا مولانا رحمۃ اللہ علیہ اپنے ان علمی دعوتی اور انتظامی ذمہ داریوں کو اچھے انداز سے انجام دینے کے ساتھ سفر بھی خوب کرتے تھے جب تک آپ کے خالو اور خسر حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ زندہ رہے عام طور پر دعوتی اسفار اور تبلیغی اجتماعات میں حضرت جی کی امارت و قیادت میں قافلہ کے شریک ہوتے تھے اسی طرح بعض علمی و تحقیقی کاموں کے لئے بھی آپ سفر کرتے تھے مدرسہ کے امین عام اور وہاں کے انتظامی امور کے ذمہ دار تھے تو مدرسے کے تعلق سے بھی آپ کو سفر کی ضرورت پڑتی تھی تو اس بناء پر بھی آپ کو جانا آنا پڑتا تھا عام طور پر مختلف سیمیناروں اور جلسوں بھی آپ کو دعوت دی جاتی تھی تو آپ تشریف لے جاتے ہمارے یہاں بھٹکل میں بھی کافی دور ہونے کے باوجود جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی تأسیس پر پچاس سال گزرنے پر منعقدہ تعلیمی کنونشن میں تشریف لائے تھے اور شریک پروگرام ہوکر پنی مفید باتوں اور قیمتی آراء سے نوازا تھا، مرکز نظام الدین اور حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے وابستگی کی بناء پر دعوت و تبلیغ کے کارکنان سے بھی بڑا تعلق تھا ہمارے ماموں مرکز نظام الدین کے مقیم مولانا غزالی صاحب خطیب بھٹکلی ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے بڑی محبت اور بڑا تعلق تھا کئی سال پہلے دارالعلوم ندوۃ العلماء تشریف آوری کے موقع ہمارے چھوٹے بھائی مولانا عبدالعلیم خطیب ندوی (حال استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل و امام و خطیب جامع مسجد بھٹکل)جو اس وقت ندوے میں پڑھ رہے تھے ان کو دور سے دیکھا تو قریب بلا کر پوچھا کہ مولانا غزالی صاحب سے کچھ رشتہ داری ہے بتانے پر کہنے لگے کہ پیشانی بالکل ان سے مل رہی ہے بہرحال مولانا شاہد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بھر پور علمی تصنیفی دعوتی تحقیقی اور انتظامی امور میں مصروف مفید و قابل تقلید زندگی گزار کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے حاضری بھی جیسے مولانا معاذ صاحب کاندھلوی ندوی زیدت مکارمہ کی زبانی معلوم ہوا کہ بڑی آسانی سے روح قفس عنصری نکل گئی کہ قریب کے لوگوں کو پتہ بھی نہ چل سکا اللہ تعالیٰ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی بال بال مغفرت فرمائے اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے خصوصاً آپ کے جانشین وعلمی و نسبی وارث مولانا مفتی محمد صالح صاحب زید مجدہ کو حوصلہ وقوت عطا فرمائے اور مدرسہ کی ذمہ داریوں اور مولانا کے کام کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین یارب العالمین،
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں