محمد عاکف ندوی کورونا کی اس مہاماری نے نہ جانے امت کے کتنے قیمتی اور جلیل القدر علماء کو اس دنیا سے رخصت کردیا اور اسکا سلسلہ برابر جاری ہے۔ اپنے عزیزوں رشتہ داروں، علماء کرام اور اساتذہ کی مسلسل اموات نے ہمیں اس قدر شکستہ حال اور کمزور بنادیا ہے کہ اس طرح کی […]
مولانا نذر الحفیظ صاحب ندوی ازہری علم و ادب و صحافت کا ایک درخشاں ستارہ
محمد عاکف ندوی
کورونا کی اس مہاماری نے نہ جانے امت کے کتنے قیمتی اور جلیل القدر علماء کو اس دنیا سے رخصت کردیا اور اسکا سلسلہ برابر جاری ہے۔ اپنے عزیزوں رشتہ داروں، علماء کرام اور اساتذہ کی مسلسل اموات نے ہمیں اس قدر شکستہ حال اور کمزور بنادیا ہے کہ اس طرح کی مزید اور خبریں سننے کی سکت نہیں رہی۔ ولکن امر اللہ قدراً مقدوراً اسی دوران اچانک یہ روح فرسا خبر کانوں سے ٹکرائی کہ ہمارے بہت ہی مشفق محبوب اور ہردلعزیز استاد مولانا نذر الحفیظ صاحب ندوی ثم ازہری صاحب آج بروز جمعہ نماز سے قبل سورہ یسین کی تلاوت کرتے ہوئے ایک قابل رشک موت کے ساتھ دار فانی سے دار البقاء کی طرف کوچ کرگئے۔ استاد محترم کی وفات سے آنکھیں پرنم قلب پریشاں اور جسم پر سکتہ کی کیفیت طاری ہے۔ مگر خدا کی تعالی کی مشیت پر یقین اور اسکے ہر فیصلہ پر راضی برضا رہنا ہمارا شیوہ ہے۔ إنّ لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده باجل مسمي فلتصبر ولتحتسب. یہ حادثہ علم دوست حضرات کے لئے عموماً اور اہل ندوہ کے لیے یقیناً ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ مولانا ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ ایک طرف مولانا دار العلوم میں کلیۃ اللغۃ و آدابھا میں عمید(HOD) کے عہدے پر فائز تھے تو دوسری طرف ندوة العلماء کے انتظامی امور میں ایک فعال شرکت رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو گوناگوں خصوصیات اور بے شمار صفات سے نوازا تھا۔ آپ کا قلب حفظ قرآن کی دولت سے مالامال تھا۔ حفظ قرآن کی پختگی میں مولانا کو نمایاں مقام حاصل تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا نے مصر میں منعقد ہونے والے عالمی حفظ مقابلہ میں اول پوزیشن حاصل کی تھی جہاں انعام کے طور پر مولانا کو عمرہ کے ٹکٹ سے نوازا گیا پھر مولانا نے حرمین شریفین کی حاضری کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے۔ دار العلوم میں مجھے مولانا سے تین سال تک زانوئے تلمذ تہ کرنے کا موقع ملا۔ مولانا ایک کامیاب معلم اور باصلاحیت استاد تھے۔ میں نے تعلیم کے دوران ہمیشہ اس بات کو محسوس کیا کہ مولانا اپنے عزیز شاگردوں میں تعلیمی قابلیت سے متصف اور حسن اخلاق کا پیکر دیکھنا چاہتے تھے۔ علمی لیاقت پیدا کرنے کے لیے تدریسی اور خارجی دونوں طریقوں سے رہنمائی فرماتے اور حسن اخلاق اور صلاح پیدا کرنے کے لیے حضرت ناظم صاحب (حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی اطال اللہ بقاۂ) کی مجلس میں شرکت کرنے کی تاکید کرتے۔۔۔ علیا اولی میں مولانا کے ذمہ الارکان الاربعة تھی جس میں ہم نے مولانا سے دین کی چار بنیادوں اور اسکے خصائص اور حکمتوں کے متعلق تفصیل سے پڑھا جبکہ علیا ثانیہ میں ہم نے مولانا سے "مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش "اور مولانا علی میاں کی مشہور کتاب "ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین" پڑھی جس میں مولانا کی وسعت فکری، مطالعہ کی گہرائی، اور عالم عربی کے وسیع پس منظر میں امت مسلمہ کی قیادت کی ضرورت اور اہمیت پر مولانا کا بے لاگ جائزہ اور تبصرہ سننے کو ملتا۔ مولانا کے محاضرے کے دوران ہم نے عالم اسلام اور ہندوستان کے سیاسی حالات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ادھر چند سالوں سے مولانا عالم عربی میں پائی جانے والی اسلام دشمن پالیسیوں اور مذھب بیزار حکمران طبقہ کی طرف سے تبدیلی اور تشویشناک صورتحال پر اپنے گہرے تاسف کا اظہار فرماتے اور یہ فرماتے کہ عرب حکمران طبقہ نے تمام وسائل کی موجودگی کے باوجود امت مسلمہ کی قیادت میں جسطرح کوتاہی کی ہے اس نے دنیا والوں کی نظر میں سخت مجرم اور اللہ کے نزدیک بدترین گنہگار بنادیا ہے۔۔ آپ ہمیشہ عہدہ و منصب سے دور بھاگتے۔ ندوۃ العلمائکے انتظامی امور میں قریبی دور میں ایسے کئی مواقع آئے جب کئی بڑے عہدوں کے لیے مولانا کا نام سامنے آیا لیکن مولانا ہمیشہ انکار فرماتے رہے۔ مولانا کو اہل بھٹکل سے خاص لگاؤ تھا۔اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ مولانا کے شیخ حضرت مولانا علی میاں بھٹکل کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ درجہ میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے طلباء پر خصوصی نظر رکھتے اور ہم طلبہ کی تعلیمی رہنمائی کے لیے ہمیشہ کوشاں نظر آتے۔ تدریسی کتابوں کے علاوہ خارجی کتابوں کے مطالعے میں مولانا ہمیشہ ہماری رہنمائی فرماتے۔ بسا اوقات درجہ میں شکایةً یہ بات کہتے کہ ادھر چند سالوں سے ہم نے محسوس کیا کہ بھٹکل سے اب ایسے طلباء نہیں آرہے ہیں جو صلاحیت اور صالحیت دونوں میں ممتاز ہوں۔ مولانا فرماتے: کہ ایک زمانہ وہ تھا جب ندوہ میں بھٹکل سے اگرچہ کم طلباء آتے لیکن وہ صالحیت اور صلاحیت میں ممتاز رہتے۔ انکی صالحیت کا یہ عالم تھا کہ مسجد کی پہلی صف میں اکثر بھٹکلی طلبہ نظر آتے لیکن اب وہ بات نہیں رہی۔ اس سلسلے میں مولانا ہم طلباء کو دردمندانہ نصیحت فرماتے اور ندوہ کے مختصر تعلیمی دورانیہ سے صحیح معنوں میں مستفید ہونے کی گزارش کرتے۔ بھٹکل کے محسنین اور بڑوں کو اکثر یاد کرتے اور بانی وسابق صدر جامعہ اسلامیہ بھٹکل ڈاکٹر علی ملپا صاحب اور بانی جامعة الصالحات و سابق ناظم جامعہ اسلامیہ جناب الحاج محی الدین منیری صاحب کا ذکر خیر فرماتے اور جامعہ اور بھٹکل کے لیے دونوں کی انتھک محنت اور بے شمار قربانیوں کا تذکرہ فرماتے۔ اسی طرح بھٹکل کے مشہور تاجر جناب سائب سکری صاحب سے خصوصی تعلق رکھتے۔ اداروں کی بات کی جائے آئے تو مولانا کو جامعہ اسلامیہ بھٹکل،مولانا ابو الحسن علی ندوی اکیڈمی،علی پبلک اسکول، ادارہ لرن قرآن اور ادارہ ادب اطفال سے خصوصی تعلق تھا ان تمام اداروں کی مختلف سرگرمیوں سے واقفیت حاصل کرتے اور اس کی مختلف کاوشوں پر خوشی اور ہمت افزائی کا اظہار فرماتے۔ مرحوم نانا صاحب کے تعلق کی بنا پر مجھ سے بھی محبت اور اپنائیت کا معاملہ فرماتے اور تعلیمی طور بھی میری رہنمائی فرماتے۔ ملاقات کے دوران مجھے اپنی استعداد کو مضبوط بنانے اورایک باصلاحیت اورمؤثرعالم بننے کی ترغیب دیتے۔ اور اکثر یہ نصیحت فرماتے کہ بیٹا!! تمہیں صالحیت میں اپنے نانا کا نمونہ بننا ہیاور روحانیت میں اعلی مقام حاصل کرنے اور انکے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے ۔۔
انہوں نے متعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں سے اہم یہ ہیں:
1) ترتیب کشکول مولاناعبدالحفیظ حافظ 2) الزمخشري كاتبا وشاعرا عربيا 3) أبو الحسن علي الحسنی الندوی کاتبا و مفکرا (4) مغربی میڈیا اور اس کے اثرات: اس کتاب کے متعدد زبانوں جیسےعربی، انگریزی، ملیالم، بنگلہ وغیرہ میں ترجمے ہوئے۔ عربی میں یہ کتاب الإعلام الغربي وتأثيره في المجتمع اور انگریزی میں Weste Media and its impact on society کے عنوان سے شائع ہوئی۔ مجالس عرفان و محبت(مجموعہ مجالس مولانا علی میاں) ان کے علاوہ ایک بڑا علمی سرمایہان کے مقالات و مضامین کی شکلمیں ہے جو مختلف رسائل وجرائد کی شکل میں شائع ہوئے۔ قحط الرجال کے اس دور میں جبکہ ہم ایسے مؤقر علماء کے وجود کو ترس رہے ہیں اچانک مولانا کی وفات علمی دنیا کے لیے ایک ایسا نقصان ہے جو بظاہر پر ہوتا نظر نہیں آتا لیکن خدا کی ذات غیور ہے۔ وہ کسی سے بھی اپنے دین کا کام لے سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے۔امت کو انکا بدل نصیب فرمائے اور اعلی علیین میں مقام نصیب فرمائے اور آپکے متعلین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں