مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ وارباب حل وعقد کے رکن، دار العلوم وقف دیو بند کے نامور استاذ، بلکہ استاذ الاساتذہ، عربی زبان وادب کے ماہر اور رمز شناس ، الثقافة اور سجاد لائبریری کے ترجمان البیان نیز ماہنامہ طیب […]
امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ وارباب حل وعقد کے رکن، دار العلوم وقف دیو بند کے نامور استاذ، بلکہ استاذ الاساتذہ، عربی زبان وادب کے ماہر اور رمز شناس ، الثقافة اور سجاد لائبریری کے ترجمان البیان نیز ماہنامہ طیب دیو بند کے سابق مدیر محترم ، استاذ حدیث ، سادگی کے پیکر ، گفتگو سے مجلس کو قہقہہ زار بنانے والی عظیم شخصیت حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی نے 16 جون 2023ءمطابق 26 ذیقعدہ بروز جمعہ بوقت ساڑھے آٹھ بجے صبح دیو بند واقع اپنے مکان میں اس دنیا کو الوداع کہہ دیا، وہ عرصہ سے صاحب فراش تھے، چار پانچ بار فالج کا حملہ ہوچکا تھا۔ اپنی قوت ارادی سے وہ ان حملوں کا مقابلہ کرتے رہے، لیکن وقت موعود آچکا تھا اور اس کے سامنے آدمی مجبور وبے بس ہوتا ہے، چنانچہ مولانا بھی چل بسے، جنازہ کی نماز اسی دن بعد نماز عشاءرات کے کوئی دس بجے احاطہ مولسری میں مولانا فرید الدین قاسمی استاذ حدیث دار العلوم وقف نے پڑھائی، مزار قاسمی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں دو لڑکے، دولڑکی اور اہلیہ کو چھوڑا، تمام لڑکے لڑکیوں کی شادی ہو چکی ہے، اور سب صاحب اولاد ہیں، مولانا کے بڑے لڑکا قمر الاسلام انجینئر ہیں اور بنگلور میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہیں، دوسرے صاحب زادہ مولانا بدر الاسلام قاسمی جامعہ محمد انور شاہ میں استاذ حدیث ہیں، سبھی بچے ، بچیاں پابند شرع ہیں، جو مولانا کے لیے صدقہ جاریہ ہیں، ان کے علاوہ ملک وبیرون ملک میں پھیلے ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد درس وتدریس دعوت دین کے کام میں مصروف ہیں، وہ سب بھی مولانا کے نامہ اعمال میں ثواب جاریہ کا سبب بنیں گے۔
مولانا محمد اسلام قاسمی بن محمد صدیق کا آبائی وطن قدیم ضلع دمکاکا ایک گاؤں راجہ بھیٹا ہے، جھارکھنڈ بننے کے بعد اب یہ گاؤں جامتاڑا میں ہے، 16 فروری 1954ءکو مولانا نے اسی گاؤں میں آنکھیں کھولیں، یہیں سے قریب رام پور کے مکتب میں مولوی حواجی لقمان مرحوم سے ابتدائی تعلیم پائی، ناظرہ قرآن کے ساتھ اردو کی پہلی دوسری اور دینی تعلیم کے رسالے کے کئی حصے اسی مکتب میں پڑھ ڈالے، مولانا کی نانی ہال موضع بھِٹرہ موجودہ ضلع جامتاڑہ تھی، عربی کے ابتدائی درجات کی تعلیم جامعہ حسینیہ گریڈیہہ جھارکھنڈ سے حاصل کی، اشرف المدارس کلٹی بردوان میں بھی تعلیم وتربیت کے لیے کچھ دن گذارا 1967ءمیں، شرح جامی کی جماعت میں جامعہ مظاہر علوم سہارنپورمیں داخلہ لیا اور امام النحو علامہ صدیق احمد کشمیری ؒ سے شرح جامی اور مفتی عبد القیوم مظاہری ؒ سے کنز الدقائق سبقاً سبقاً پڑھنے کی سعادت پائی، 1968ءمیں دار العلو م دیوبند کا رخ کیا،1971ءمیں تکمیل ادب عربی، 1973-74میں اردو عربی خطاطی کی تکمیل ، 1975میں دار الافتاءمیں داخلہ لے کر تمرین افتا سے فراغت، 1976ءمیں علی گڈھ سے ادیب کامل اور آگرہ یونیورسیٹی سے 1989-90ءمیں ایم اے اردو کیا اس طرح مولانا علوم شرقیہ کے نامور عالم اور علوم عصریہ سے بھی یک گونہ مناسبت رکھتے تھے ۔ دوران تعلیم ہی آپ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے اور موضع پھُل جھریا ضلع گریڈیہہ کے محمد خلیل انصاری کی دختر نیک اختر آپ کے نکاح میں آئیں۔
1976میں ان کا تقرر الداعی کے معاون کے طور پر ہوا، اس موقع سے ان کی عربی خطاطی کام آئی اور وہ الداعی کی کتابت میں اپنے فن کا بھر پور استعمال کرتے رہے، اس دوران انہون نے عربی میں مضامین ومقالات لکھے، اردو نثر کا بھی صاف ستھرا ذوق تھا، چنانچہ ان کے مضامین الجمعیة، ہفت روزہ ہجوم ، پندرہ روزہ اشاعت حق، ماہنامہ دار العلوم دیو بند میں کثرت سے شائع ہوتے رہے، وہ دار العلوم وقف کے ترجمان پندرہ روزہ ندائے دار العلوم کے شریک ادارت رہے، صد سالہ اجلاس کے انقلاب کے بعد انہوں نے اپنا ایک ذاتی رسالہ 1983ءمیں الثقافة کے نام سے نکالا، دار العلوم وقف دیو بند میں تدریسی خدمات پر مامور ہوئے اور اپنی تدریسی صلاحیتوں کی وجہ سے ان کا شمار دا رالعلوم دیو بند وقف کے نامور اساتذہ میں ہونے لگا، طلبہ ان کے اخلاق اور محبت کے اسیر رہے، انہوں نے خورد نوازی کی جو مثال قائم کی وہ خود اپنے میں ایک نظیر ہے، سادگی اور شاگردوں سے گھل مل جانا ان کا طرۂ امتیاز تھا، وہ مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کے شاگرد تھے، اس لیے ان کے یہاں شاگردوں کو اہمیت دی جاتی تھی، ہٹاؤ ، بچاؤ کا مزاج بھی نہیں تھا، جس سے ملتے، کھل کر ملتے اور لوگ ان سے متاثر ہو کر واپس ہو ا کرتے تھے۔
امارت شرعیہ اور اکابر امارت شرعیہ سے انہیں بے پناہ محبت تھی، بیماری کی حالت میں امارت شرعیہ کا آخری سفر انہوں نے انتخاب امیر کے موقع سے کیا تھا۔
مولانا تقریر بھی اچھی کرتے تھے، میں کئی مدرسوں کے پروگرام میں ان کے ساتھ رہا، نثر بھی بڑی پیاری لکھتے تھے اور تحقیق کا مزاج بھی پایا تھا، ان کی اٹھارہ کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہو ئیں، ان میں ترجمہ مفید الطالبین ، دار العلوم کی ایک صدی کا علمی سفرنامہ ، مقالات حکیم الاسلام، ضمیمہ منجد عربی اردو، ترجمہ القراء الرشیدہ (تین حصے) ازمة الخلیج (عربی) خلیجی بحران اور صدام حسین جدید عربی میں خط لکھے (عربی اردو) جمع الفضائل شرح اردو شمائل ترمذی، منہاج الابرار شرح اردو مشکوٰة الآثار ، دار العلوم دیو بند اور حکیم الاسلام قاری محمد طیب ، میرے اساتذہ ، میری درسگاہیں، درخشاں ستارے، رمضان المبارک فضائل ومسائل ، زکوٰة وصدقات اہمیت وفوائد ، دار العلوم دیو بند اور خانوادہ قاسمی، متعلقات قرآن اور تفسیر مقبول ومشہور ہیں، ان کے علاوہ تین کتابیں اور زیر تالیف تھیں جو یا تو مکمل نہیں ہوپائیں یا طبع نہیں ہو سکیں، ان میں موجز تاریخ الادب العربی، علم حدیث اور علماءہند اور چند مشاہیر عظام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
مولانا سے میرے تعلقات امارت شرعیہ آنے سے قبل سے تھے۔ دار العلوم دیو بند میں ابتلاءوآزمائش کا دور ہم دونوں نے ساتھ ساتھ دیکھا تھا، فرق یہ تھا کہ وہ ان دنوں الداعی کے معاون ایڈیٹر تھے اور یہ بندہ طالب علم، بعد کے دنوں میں کئی جلسوں میں ہمارا ساتھ رہا، دار العلوم وقف میں جب بھی حاضری ہوتی وہ ساتھ ساتھ گھوماتے، علمائ، اساتذہ اور ذمہ داروں سے ملاتے، بے پناہ خوشی کا اظہار کرتے، معقول ضیافت فرماتے، پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ اتنے بڑے عالم ہیں، اور ان کے ساتھ گھومنے والا ان کے وقت میں طالب علم تھا۔
مولانا سے میری آخری ملاقات 25 دسمبر 2022ءکو ان کے مکان پر دیو بند میں ہوئی تھی، میں دہلی ایک سمینار میں شرکت کرکے اپنے دوست مولانا مصطفی قاسمی کی لڑکی کی شادی میں دیو بند گیا تھا، مولانا کو فون کیا تو عصر بعد کا وقت دیا، پھر تھوڑی دیر کے بعد فون آیا کہ اگر ابھی خالی ہوں تو آجائیے، صبح کے دس بج رہے تھے، میں پہونچ گیا کوئی ایک گھنٹہ لیٹے لیٹے گفتگو کرتے رہے، امارت شرعیہ ، دار العلوم ، دیوبند کے احوال ، بہار کا سیاسی اتھل پتھل سارے موضوعات زیر بحث آئے، طبیعت بحال تھی اور بائیں طرف فالج کے اثر کے علاوہ کوئی تکلیف نہیں تھی، فرمایا کہ دیوار پکڑ کر اب قضائے حاجت کے لیے چلا جاتا ہوں، پہلے سے طبیعت اچھی ہے، میں مطمئن ہو کر واپس ہوا، معلوم ہوا کہ میرے وہاں سے اٹھتے ہی ان پر فالج کا پھر حملہ ہو گیا، اور وہ آئی سی او میں ڈال دیے گیے، ان کے صاحب زادہ مولانا بدر الاسلام قاسمی سے خیریت دریافت کیا اور واپس چلا آیا، زبان پر اللہ سے دعاءصحت کی درخواست تھی، اللہ نے افاقہ فرمایا اور پھر وہ کم وبیش چھ ماہ حیات سے رہے، پھر ملک الموت ان کی روح کو قفس عنصری سے لے کر چلتا بنا ۔ اللھم اغفر وارحم وانت خیر الراحمین۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں