علم و تحقیق کے سالار تھے مولانا سید جلال الدین عمری ؒ

ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
چیر مین ملت اکیڈمی بجنور

مولانا سید جلال الدین عمری ؒ  عالم اسلام کے مقبول عام عالم تھے۔وہ جماعت اسلامی ہند کے امیر ہونے کے باوجود تمام مکتبہ ہائے فکر میں قابل احترام تھے۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر تھے،اس کے ذریعے بنائی گئی کمیٹیوں میں بھی آپ رہے بلکہ تفہیم شریعت کمیٹی کے کنوینر تھے۔اس کے علاوہ ملی فورموں میں آپ جماعت اسلامی کی نمائندگی کرتے رہے۔مولانا عمریؒ کی پوری زندگی اسلام کی تفہیم اور تبلیغ و اشاعت میں صرف ہوئی۔
ابتدائی تعلیم سے ہائی اسکول تک کی تعلیم آپ نے اپنے ضلع میں حاصل کی۔اس کے بعد علم دین کے حصول کے لیے جامعہ دارالسلام عمرآباد چلے آئے۔ یہاں سے 1954 ء میں سندِ فضیلت حاصل کی، مدراس یونی ورسٹی سے فارسی میں منشی فاضل اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے انگلش میں بی، اے کیا۔ دوران تعلیم ہی تحریک اسلامی سے متأثر ہوئے۔جامعہ عمر آباد سے فراغت کے فوراً بعد آپ مرکز جماعت اسلامی ہند رام پور آگئے  تھے۔یہاں 1956ء میں جماعت کے شعبہ ئ  تصنیف سے وابستہ ہوگئے۔ یہ شعبہ 1970 میں رام پورسے علی گڑھ منتقل ہوگیا اور کچھ برسوں کے بعد اسے ’ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی‘ کے نام سے ایک آزاد سوسائٹی کی شکل دے دی گئی۔ مولانا اس کے آغاز سے 2001ء تک سکریٹری رہے،  اس کے بعد اب تک اس کے صدر تھے۔اس ادارے میں رہ کر آپ نے خود بھی تحقیقی کام کیے اور ایک ایسی ٹیم بھی تیار کی جو آج تک علمی و فکری میدان میں تحقیق و ریسرچ کے کام کررہی ہے۔مولانا عمریؒ کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔یہ عمل ان کے لیے صدقہ ئ جاریہ بھی ہے۔موجودہ دور میں مسلکی عصبیت سے پاک مصنفین کی بڑی ضرورت ہے اور مولانا مرحوم نے اس ضرورت کی تکمیل میں اپنی ذمہ داری پوری ایمانداری سے ادا کی۔آپ ادارہ کے باوقار ترجمان سہ ماہی مجلہ’تحقیقات اسلامی‘ کے بانی مدیر بھی رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ جماعت اسلامی ہند کے ترجمان ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی کی ادارت کے فرائض بھی آپ نے انجام دیے۔
مولانا مرحوم سے میری غائبانہ ملاقات اس طرح ہوئی کہ میں ندوہ میں زیر تعلیم تھا۔غالباً 1970کی بات ہے۔میں ایک روز جماعت اسلامی حلقہ اترپردیش کے دفتر واقع گولا گنج گیا۔وہاں جاکر معلوم ہوا کہ ابھی ابھی ایک تربیتی اجتماع ختم ہوا ہے۔اس اجتماع میں کرناٹک کے ایک نوجوان بھی شریک تھے۔وہ مجھے لے کر گھومنے نکل گئے۔انھوں نے مجھے بتایا کہ آج کا اجتماع بہت کامیاب رہا۔اس میں ایک مقرر مولانا سید جلال الدین عمری تھے۔جو علی گڑھ سے تشریف لائے تھے۔انھوں نے نبی اکرم ﷺ کی مکی زندگی پر بہت پر مغز اور پر اثر تقریر فرمائی۔وہ خود بھی آب دیدہ ہوگئے اور شرکاء کی آنکھیں بھی تر ہوگئیں۔مجھے اس نوجوان کی زبانی مولانا کی تعریف سن کر ملاقات کا اشتیاق ہوا،مگر مولانا علی گڑھ واپس جاچکے تھے۔
اس کے بعد مولانا سے میری ملاقات ان کی تحریروں اور مقالات کے ذریعے ہوئی۔ان کی تحریرں بہت تحقیقی ہوتی تھیں۔نئے موضوعات پر نئی بحثیں مولانا پیش کرتے اور عصر حاضر میں اس سے کس طرح استفادہ کرنا ہے یہ بتاتے۔میں نے ان کی تحریروں میں فقہی اختلافات کو ہوا دینے والی کوئی بات نہیں دیکھی۔ان کے مضامین اگرچے طویل ہوتے۔لیکن غیر ضروری کوئی بات نہ ہوتی۔آخر میں حوالے بھی ہوتے۔
مولانا سے میری بالمشافہ ملاقات علی گڑھ ان کے دفتر میں ہوئی۔میں جماعت کی طلبہ تنظیم کے ایک پروگرام میں علی گڑھ گیا تھا۔پروگرام کے بعد میں ان سے ملنے گیا۔وہ اپنے دفتر میں تھے۔میز پر موٹی موٹی کتابیں تھیں۔میں نے سلام کیا۔مولانا نے خیر مقدم کیا۔اس کے بعد ادارے کی سرگرمیوں سے واقف کروایا۔دفاتر گھمائے اورچائے سے ضیافت کی۔اس کے بعد آپ سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔
آپ نائب امیر کی حیثیت میں علی گڑھ سے دہلی منتقل ہوگئے۔دہلی آنے کے بعد زیادہ ملاقاتیں ہوئیں۔پھر آپ ہمارے امیر جماعت ہوگئے۔اب ملاقاتوں کی نوعیت بدل گئی۔آپ نے ہمارے ساتھ مزید مشفقانہ برتاؤ اختیار کیا۔آپ سے مل کر ایسا لگتا جیسے ہم اپنے والد سے مل رہے ہیں۔آپ اسی طرح اور اسی انداز میں نصیحت کرتے جس طرح کوئی باپ اپنی اولاد کو کرتا ہے۔آپ نے امیر جماعت بننے کے بعد مجھے اپنے گھر پر مدعو کیا۔میں ایک ساتھی کے ساتھ پہنچا۔آپ نے پر تکلف ناشتہ کرایا۔میں نے اجتماعات اور میٹنگوں میں آپ سے استفادہ کیا۔نمائندگان میں آپ کی موجودگی سے فیض اٹھایا۔ایک مرتبہ حلقہ اترپردیش مغرب کی شوریٰ کا خصوصی اجلاس آپ نے دہلی میں طلب کیا۔دوروز تک آپ کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا۔اترپردیش مغرب کے ارکان کا ایک اجتماع تاجپور ضلع بجنور،یوپی میں منعقد ہوا۔اس وقت مجھے اور جامعۃ الفیصل کو آپ کی تین دن تک میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔
مولانا مجھ سے خصوصی محبت کرتے تھے۔ہوسکتا ہے آپ سب سے کرتے ہوں۔لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ مولانا کی مجھ پر عنایات کچھ زیادہ تھیں۔ مولانا میری خیریت کے لئے فون کرتے،دہلی جانے پر اپنے مصروف اوقات میں سے وقت عنایت کرتے۔میری ایک کتاب قرآنی اسباق پر آپ نے مقدمہ لکھا۔ایک بار بھٹکل کا ایک وفد جامعۃ الفیصل بجنور آرہا تھا۔آنے سے قبل مولانا عمری صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔اراکین وفد نے بتایا کہ ہم مولانا سراج الدین ندوی کے ادارے میں جارہے ہیں۔یہ سن کر مولانا نے کہا:”سراج الدین ندوی صاحب بڑا کام کررہے ہیں،اللہ قبول فرمائے اور ان کی کاموں اور ان کی عمر میں برکت دے“۔مولانا نے ایک بار مجھ سے ذکر کیا کہ ”سراج صاحب مجھے شاہین باغ میں ایک زمین کی ضرورت ہے،بیٹا ایک اسکول بنانا چاہتا ہے“ میرا ایک پلاٹ تھا جو 186گز کا تھا۔میں نے کہا ”مولانا آپ میرا پلاٹ لے لیجیے۔“مولانا نے کہا:”میرے پاس یکمشت رقم نہیں ہے۔“میں نے کہا”آپ قسطوں میں ادا کردیجیے گا“ اور میں نے اپنے لیے یہ سعادت کی بات سمجھی کہ میں مولانا کے کچھکام آجاؤں،چنانچہ بہت کم قیمت پر وہ پلاٹ میں نے مولانا کے نام کردیا۔میرے دوبیٹے جب  ایک کار ایکسیڈینٹ میں شہید ہوئے تو آپ نے مجھے فون کیا۔آپ کے فون نے مجھے بہت تقویت دی۔حالاں کہ اس موقع پر بہت سی جگہوں سے فون آئے،بڑے بڑے علماء و ذمہ داران مدارس کے بھی آئے،لیکن جو اپنائیت مجھے مولانا کے فون سے ملی وہ کہیں نہیں ملی۔ایسا اس لیے ہو اکہ مولانا میرے امیراور مربی تھے۔
مولانا پیدائشی مصنف تھے۔دوران طالب علمی میں ہی آپ نے مضامین لکھنے شروع کردیے تھے۔پھر یہ ذوق جماعت کی ثانوی درسگاہ میں پروان چڑھا۔اس کے بعد تو آپ باقاعدہ تصنیف کے شعبے سے ہی وابستہ ہوگئے۔ مختلف موضوعات پر آپ کی تقریباً چار درجن تصانیف ہیں۔ ان میں تجلیات قرآن، اوراقِ سیرت، معروف و منکر، غیرمسلموں سے تعلقات اوران کے حقوق، خدا اور رسول کا تصور اسلامی تعلیمات میں، احکامِ ہجرت و جہاد، انسان اوراس کے مسائل، صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات، اسلام اور مشکلاتِ حیات، اسلام کی دعوت، اسلام کا شورائی نظام، اسلام میں خدمتِ خلق کا تصور، انفاق فی سبیبل اللہ،  اسلام انسانی حقوق کا پاسباں، کم زور اور مظلوم اسلام کے سایے میں، غیراسلامی ریاست اور مسلمان، تحقیقاتِ اسلامی کے فقہی مباحث جیسی علمی تصانیف آپ کی تراوشِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ اسلام کا معاشرتی نظام مولانا کی دلچسپی کا خاص موضوع رہا ہے۔ عورت اسلامی معاشرے میں، مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ، عورت اوراسلام، مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں اور اسلام کا عائلی نظام جیسی تصانیف اس کا بہترین ثبوت پیش کرتی ہیں۔ آپ کی کئی کتابیں زیرِ ترتیب تھیں۔ ان کے علاوہ مختلف علمی اور فکری موضوعات پر آپ کے بہ کثرت مقالات ملک اوربیرون ملک کے رسائل اور مجلات میں شائع ہوچکے ہیں۔ مولانا کی متعدد تصانیف کے تراجم عربی، انگریزی، ترکی، ہندی، ملیالم، کنڑ، تیلگو، مراٹھی، گجراتی، بنگلہ اور تمل وغیرہ میں شائع ہو چکے ہیں۔
مولانا بہترین مقرر بھی تھے۔آپ تقریر کرتے وقت اپنے موضوع پر رہتے،تقریر کے نکات لکھ کر اپنے ہاتھ میں رکھتے۔پوری وضاحت سے اپنی بات رکھتے۔استدال کی قوت اور جوہر خطابت کے سبب آپ مجمع پر چھاجاتے۔۔مولانا کی تقریر اور گفتگو پر مولانا محمد رابع حسنی ندوی،صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ایک مرتبہ بورڈ کے اجلاس میں فرمایا:”مولانا عمری صاحب!آپ کسی موضوع پر جتنے نکات بیان کردیتے ہیں،ہم بھی نہیں کرپاتے“
آپ قرآن بہت اچھا پڑھتے تھے۔مسجد اشاعت اسلام میں فجر کی نماز کی امامت فرماتے۔آپ کی تلاوت سے ایک سماں بندھ جاتا۔گلے رندھ جاتے۔وہ مقتدی جو عربی سے واقف ہوتے نماز میں کھوجاتے۔یہ آپ کی نیکی،خدا ترسی اور تقویٰ کی علامت بھی ہے۔آپ لوگوں سے بہت خاکساری سے پیش آتے تھے۔آپ کی خدا ترسی پر مولانا محمد سالم قاسمی ؒ  مہتمم دارالعلوم دیوبند کے بیٹے مولانا محمد سفیان قاسمی نے فرمایا کہ ”مولانا کو دیکھ کر خدا یاد آجاتا ہے“
مولانا شاعر بھی تھے۔انصر تخلص تھا۔اپنے نام کے ساتھ لکھتے تھے۔لیکن جماعت کی ذمہ داریوں نے شاعری کا موقع نہیں دیا۔آپ نے اپنا ذوق تحریک کے لیے قربان کردیا۔اس کے بعد انصر لکھنابھی چھوڑ دیا۔
مولانا بحیثیت امیر جماعت ہمارے مربی تھے۔وہ آزادی کے بعد تحریک کے ہراول دستے کے سپاہی تھے۔وہ کئی اداروں جامعۃ الفلاح،سراج العلوم نسواں کالج وغیرہ کے سرپرست اور شیخ بھی تھے۔آپ کم گو تھے۔لیکن جب بولتے تو بہت قیمتی بات زبان سے نکالتے۔مولانا اپنی عمر کے 88برس پورے کرکے،طویل علالت کے بعد ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ان کی اہلیہ کا انتقال گزشتہ سال ہوچکا تھا۔اس وقت وہ اپنی بیوہ بیٹی کے گھر پر مقیم تھے۔ان کی بیٹی پروفیسر محمد رفعت سابق امیر حلقہ دہلی کی زوجہ ہیں۔رفعت صاحب کا انتقال کرونا وبا کے دوران ہوگیا تھا۔یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ 26اگست (1941)جماعت اسلامی کا یوم تاسیس بھی ہے اور26اگست(2022)آپ کا یوم وفات ہے۔آپ کی وفات سے دلی صدمہ ہوا۔میں خود کو یتیم محسوس کرنے لگا ہوں۔اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے اور ملک و ملت کو ان کا نعم البدل دے۔آمین

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

27 اگست ۲۰۲۲

«
»

مولانا سیّد محمود حسنی رحمة الله عليه

یوم عاشوراء کی اہمیت و فضیلت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے