مولانا ابوالکلام آزاد ان ہی روشن ستاروں میں سے ایک تھے جن کی شخصیت کا ہر پہلو خواہ مذہبی ہو یا ادبی، سیاسی ہو یا سماجی عمیق مطالعہ کا متقاضی ہے۔ آزاد۱۸۸۸ء میں مولانا خیر الدین کے گھر پیدا ہوئے جو اپنے عہد کے مشہور و معروف عالم دین، مبلغ ، مفکر ،مقرر، مفسر اور پیرو مرشد تھے۔ ان کا دائرۂ اثر برصغیر کی سرحدوں تک محدود نہ رہ کر جزیرۃ العرب تک بسیط تھا۔ ان کا علمی وقار، دینی فضیلت اور اصلاحی فکر بے مثل تھی۔ ان کے مریدوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں تھی لہٰذا مولانا آزاد کو مداحوں اور ثنا خواہوں کا ایک وسیع طبقہ ارض ِ موروثہ کے طور پر ملا۔ ان کے والد محترم انھیں اپنے سانچے میں ہی ڈھالنا چاہتے تھے کیوں کہ ان کی نظر میں اُسی دینی علم واحد کے ذریعے اُخروی اور دنیوی کامیابیوں سے ہم کنار ہوا جا سکتا ہے۔ لہٰذا آزاد کو عربی اور فارسی کی تعلیم دلوائی گئی اور انگریزی تعلیم جو ۱۸۳۷ءکے فرمانِ حکومت کے بعد فارسی کے بجائے سکہ رائج الوقت کی حیثیت اختیار کر رہی تھی، سے انھیں دور رکھا گیا۔ وجہ ان کے والد کی، انگریزی قوم اور اس کی زبان کے تئیں ناپسندیدگی تھی کیو ں کہ۱۸۵۷ءکے غدر یا ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی میں انگریزوں کے ہاتھوں انہیں زک اٹھانی پڑی تھی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فطرت مولانا آزاد کے معاملے میں بڑی فیاض تھی۔ ان کی طبیعت میںجو فطری صلاحیتیں ودیعت کی گئی تھیں ان کی نمود ان کے زمانہ طالب علمی سے ہی ہونے لگا تھا۔موروثی عقائد کے جمود اور تقلیدی روِش انہیں راس نہ آئی بلکہ انھوں نے اپنی ڈگر کا انتخاب از خود کیا جو عام ر وش سے ہٹ کے تھی۔ بقول آزاد’ جو عقیدہ کھویا تھا وہ تقلیدی تھا اور جو عقیدہ اب پایا وہ تحقیقی تھا۔‘ آزاد ۱۵؍برس کی عمر میں درس نظامی جو اس دور کا تعلیمی نصاب تھا، سے فارغ ہو گئے اور اس کے بعد خود سے تعلیم و تعلم کے سلسلے کو جاری رکھا۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ان کے اندر بے پناہ استعداد پوشیدہ تھی لہٰذا ان کا ظہور جستہ جستہ ہونے لگا۔ ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کی ادارت، ’ترجمان القرآن‘، ’تذکرہ‘ اور ’غبار خاطر‘ کی اشاعت ان کے مختلف النوع ذہن کی غمازہیں۔یوںتو افتاد طبع کے اعتبار سے گوشہ نشینی اور علم و فن کی آبیاری اُنہیں زیادہ راس آتی مگر عالمی اور ملکی سیاست، مذہبی اور ثقافتی منظر نامے سے خود کو باخبر رکھنا بھی اُنہیں بے چین رکھتا تھا۔ ان حالات سے خود کو الگ کرنا ان کے فطری مزاج کے خلاف تھا۔ لہٰذا انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے جہاں ایک طرف بالخصوص مسلم عوام کو سیاسی طور پر بیدار کرنے کی کوشش کی وہیں دوسری طرف اسلام کی صحیح روح کو ان میں منتقل کرنے کی سعی بھی کی۔ مسلم قوم کو امت واحدہ سے متعارف کرانے اور اس کا جز وِ لاینفک بننے کی پر زور وکالت کی۔مولانا نے عالم اسلام کے اُس وقت کے منظر نامے کو عوام کے سامنے پیش کیا تاکہ وہ اس سے واقف ہوکر اس کے احیاء کے لئے جدوجہد کر سکیں۔ درحقیقت عملی طور پر از خود وہ اس کے لئے کچھ کر سکے نہ ہی مسلم قوم۔ اِس کے برعکس انہوں نے خود کو ملکی سیاست میں جھونک دیا اور سرسید احمد خاں کی انگریزوں سے مفاہمت کی روش کے برعکس انگریزی نظام حکومت سے آزادی کے لئے جدو جہد کرنے لگے۔یہ تاریخ کا وہ دور تھا جب مسلم خواص سرسید کے زیر اثر ملک کی سیاسی جدو جہد سے گریزاں اور انگریزی نظام کے قائل نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کی اس روش سے آزاد نے اپنی تحریروں، تقریروں اور عملی تگ و دو کے ذریعہ شدید مخالفت کی اور یہاں تک کہہ گئے کہ ملک کو غلامی سے آزاد کرانا مسلمانوںکا سیاسی ہی نہیں بلکہ مذہبی فریضہ بھی ہے۔ مولانا کی اس آواز پر بہت سے مسلمانوں نے لبیک کہا اور وہ انڈین نیشنل کانگریس کے کارکنان کی حیثیت سے دوسرے فرقوں کے ساتھ شانہ بشانہ جدو جہد کرنے لگے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی جہدِ مسلسل اور خود سپردگی کے باعث۱۹۲۳ء میں انھیں محض ۳۵؍برس کی عمر میں انڈین نیشنل کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا۔ ان کی شب و روزیہ کوشش تھی کہ غیر مسلمانوں کو مسلمانوں کے تئیں ہمدردانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے اور ان کا دل جیتنے کے لیے ہر نوع کا جتن بھی کرنا چاہئے۔ ان کی یہ امید بر آئی۔ اب ہندو قائدین مسلمانوں کے تئیں نرم دل ہوئے اور بنگال کے صف اول کے قائد سی آر داس نے مسلمانوں کو سرکاری ملازمت میں ۵۰؍ فیصد تک کا ریزرویشن دینے کی وکالت کی تاکہ وہ دوسری قوموں کے برابر آسکیں۔آزاد کی جاذب شخصیت، علمی تبحر اور عملی اقدامات کے سبب علما حضرات بھی کانگریس میں شامل ہونے لگے جو اس سے قبل شش و پنج کا شکار تھے۔ ان حضرات نے مولانا آزاد کے ملکی و حدت کے نظریہ کی دلائل و براہین سے پر زور تبلیغ کی جس کے سبب دوقومی نظریے کو دھچکا لگا۔۱۹۳۷ءکا الیکشن ملک کی تاریخ میں کلیدی کردار کا حامل تھا کیوں کہ اس کے نتیجے میں ۷؍ ریاستوں میں کانگریسی حکومت کی تشکیل عمل میں آئی جب کہ مسلم لیگ کو ملکی سطح پر زک اٹھانی پڑی۔ اسلام کے نام پر مسلم ملک کے تصور کو وہ پزیرائی حاصل نہ ہوئی جس کی مسلم قیادت جذبات کے نام پر متمنی تھی۔ کانگریسی حکومتوں کے کچھ اقدامات بشمول زمیندارانہ نظام کا خاتمہ نے مسلم خواص کے اندرشک و شبہات پیدا کئے جس کی مسلم لیگی قیادت نے نمک مرچ لگا کر خوب تشہیر کی۔ مسلم عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ کانگریسی نظام حکومت میںآپ کا اسلامی وتہذیبی تشخص خطرے میں ہے جس سے ان کے جذبات میں اشتعال پیدا ہوا۔ پھر کیا تھا عوام کے رخ کو دیکھ کر مسلم لیگی قیادت کو اپنی احیاء کا موقع ہاتھ آیا اور اس نے از سر نو وہی پرانا راگ الاپنا شروع کیا جو عوام کے عقل و شعور کے بجائے وقتی جذبات کو مشتعل کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ خلافت راشدہ کے احیاء کی باز گشت ملک کے طول و عرض میں مسلم قائدین اور ان کے ہم نوا علمائے کرام کی زبانی سنائی دینے لگی۔ کسی اللہ کے بندے نے عوام کو اس وقت یہ گوش گزار نہیں کیا کہ اس نظام کی تشکیل کے لئے جن لاہوتی صفات کے حامل افراد کی ضرورت ہے وہ کون ہیں؟ کیا محمد علی جناح جو لیاقت علی کے اصرار پر لندن سے ہندوستان آکر پھر مسلم عوام کی قیادت کے لئے تیار ہوئے،ان اوصاف حمیدہ سے متصف تھے جو اسلامی نظام کیلئے لازم و ملزوم ہیں تو اس کا جواب یکسرنہ میں ہے۔ یہی نہیں اس قیادت کے دوسرے قائدین کا بھی کم و بیش یہی حال تھا۔ مولانا آزاد ہندوستانی عوام بالخصوص مسلمانوں کو اِس سے متنبہ کرتے رہے لیکن اس وقت ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی۔
نتیجتاًمسلم عوام جوق در جوق مسلم لیگی قائدین کی طرف جانے لگے۔ ۱۹۴۰ءمیں جب لاہور کے سیشن میں مسلم لیگ نے باقاعدہ پاکستان علاحدہ ملک کا اعلان کیا تو آزاد اور ان کی حامیوں نے اس کی پرزور مخالفت کی کیوں کہ ان کی نظرمیں ملک کی تقسیم حیات معنوی کے لئے مرض الموت کے مانند تھی، جو۱۹۴۷ءمیں ملک کی تقسیم کے بعد سچ ثابت ہوا۔ مولانا نے ذاتی مفاد سے بے نیاز ہوکر اپنے قول و فعل سے قوم کو قوت اور وحدت بخشنے کی کوشش کی مگر انہیں لعن و طعن سے نوازا گیا۔ اُنہیں کانگریس کا’شو بوائے‘(Show Boy)تک کہا گیا۔ مولانا نے قوم کے اس بے حس رویے پر خون کے آنسو بہائے۔ ایسے پیغمبری وقت میں جہاں قوم میں وحدت کی ضرورت تھی، وہاں انتشار ہی انتشار نظر آرہا تھا۔ دو قومی نظریہ کی تشکیل اور اس کی تبلیغ و اشاعت بر صغیر کے مسلم عوام کے لئے مہلک ثابت ہوئی۔ مولانا آزاد، صبح آزادی کے نتیجے میں برپا ہونے والی قیامت صغریٰ سے بے حد پژملول اور رنجیدہ نظر آتے تھے اور اجتماعی زندگی سے بیزار تھے تاہم ضرورت وقت کے تحت خلجانی حالات کو معمول پر لانے کی تگ و دو بھی کرتے رہے۔
شکست خوردہ عوا م کی چیخ پکار جب آسمانوں میں گونج رہی تھی اور ہندوستان کی سر زمین اپنی تمام وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی تھی تو انھوں نے ۲۴؍اکتوبر۱۹۴۷ءکو جامع مسجد دہلی کے پاک صحن سے دل گیر آواز میں قوم سے پھر خطاب کیا۔ انہیں ان کے ماضی کی تابندہ تاریخ کی یاد دلاتے ہوئے موجودہ منظر نامہ سے نا امید نہ ہونے کی تلقین کی۔ اس تقریر کا سامعین کے دل و دماغ پر جو اثر ہوا وہ جگ ظاہر ہے۔ قوم کی اضمحلالی کیفیت میں اطمینان آیا، قنوطیت کی جگہ رجائیت نے لی، اور تاریکی ٔحال میں روشن مستقبل کی امید نظر آئی۔
گویا اس مرد مجاہد کی شخصیت جو علمی تفضل،سیاسی بصیرت اور مستقبل شناسی کا پیکر تھی، آج بھی مینارہ نور ہے جس کی روشنی سے عموماً عوام الناس اور خصوصاً قوم و ملت کے قائدین کو کسب فیض کرنا چاہیے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں