(مولانا عبدالباری ندوی بھٹکلی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات)
از: مولاناعبدالنورابن عبدالباری فکردے ندوی استاذ علی پبلک اسکول بھٹکل
تاریخ گواہ ہے کہ اشخاص کی قدروقیمت ان کے کارناموں،خدمات اور اوصاف سے طئے کی جاتی ہے،یوں تو دنیا میں روزانہ ہزاروں انسان پیدا ہوتے ہیں اور اپنی عمر تمام کرکے چلے جاتے ہیں،لیکن ان میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی یادوں کے نقوش ہمیشہ کے لئے دلوں پر ثبت کرتے ہیں انہی چنیدہ اشخاص میں ایک روشن نام مولانا عبدالباری ندوی بھٹکلیؒکابھی ہے،واقعہ یہ ہے کہ مولانا مرحوم کی شخصیت میں جتنے صفات پنہاں تھے اس کی مثال مادیت کے اس دور میں ملنی مشکل ہے،ذیل کی سطور میں انہی چند صفات ستودہ کا ذکر کرنا مقصود ہے مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ مٹتے نہیں ہیں دیر سے جن کے نشاں کہیں اخلاص وللہیت:۔ کسی بھی شخصیت کے عنداللہ وعند الناس مقبولیت ومحبوبیت کے لئے اخلاص وللہیت لازمی عنصرہے،مولانا کوقریب سے دیکھنے والے اس کی شہادت دئے بغیر نہیں رہیں گے کہ یہ وصف مولانامیں بدرجہ ئ ا تم موجود تھا،اس کاسب سے بڑاثبوت یہ ہے کہ مرحوم کے انتقال کے بعدسے اب تک کئی ایسی چیزیں سامنے آرہی ہیں جس کا ان کے قریبی لوگوں کو بھی اندازہ نہیں تھا،آپؒ میں تعلق مع اللہ کی جوکیفیت تھی اس کا ہلکا سا اندازہ مولانا کی نمازوں اور تہجد کی دعاؤں میں ہوتاتھا،مرحوم بار بار یہ فرماتے تھے کہ اخلاص کے ساتھ کئے ہوئے کاموں کی اللہ کے یہاں بڑی قدر ہے۔ تواضع وانکساری:۔ تواضع وانکساری اس حد تک کہ ایک بڑے دینی مدرسے کے مہتمم اور شہر کی جامع مسجد کے معروف امام وخطیب ہونے کے باوجودچھوٹے سے چھوٹے آدمی کے لئے اس درجہ محبت واپنائیت کا اظہا ر کرتے کہ ہر آدمی یہ سمجھتا کہ مولانا کی نظر خاص اور اپنائیت اسی کو حاصل ہے اور یہ وہ صفت ہے جس کا چرچا لوگوں کی زبانی آپ کی وفات کے بعد سب سے زیادہ سنا گیا۔ لوگوں سے اپنے کو ممتاز سمجھنا گویا ان کا شیوہ ہی نہ تھا، کسی بھی جلسے میں یہ خواہش نہ ہوتی کہ کسی اونچی جگہ پر ان کو بٹھایا جائے،طلبہ کو جامعہ میں باربار صفائی کی ترغیب دیتے اور خود بھی طلباء کے ساتھ صفائی میں شریک ہوتے،کبھی صبح کے وقت جامعہ کے مکاتب میں جانا ہوتا اورواپسی پرچند بچوں کو مکتب پیدل چلتے دیکھتے تو خود اپنی گاڑی پر ان کو مدرسہ تک پہونچانا ان پر بار نہ ہوتا،جامعہ اسلامیہ میں کوئی بھی مہمان آتے توخود بڑھ کر اس کی ضیافت کرتے،جامعہ کا تعارف کراتے،اور ان کے لئے اپنے آرام کی بھی پرواہ نہ کرتے۔ دوسروں کی محبت، ہمدردی اورخدمت کا جذبہ اس حد تک کہ دسیوں لوگ آپ کے پاس اپنے نجی مسائل لے کرآتے لیکن دسیوں کاموں میں مشغول یہ بندہئ خدا ہر ایک سے خندہ پیشانی سے مل کر ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا،عیادت اور تعزیت زندگی بھر کا معمول رہا چاہے تعلقات قریبی ہو ں یا نہ ہوں، حتی کہ سخت بیماری کے ایام میں بھی اس کی کوشش کی،بیماری کے سخت ترین ایام میں بھی کوئی ملاقات کے لئے آتا تو بغیر ملاقات کے واپس جانا ان کو پسند نہیں تھا۔ ابناء جامعہ کا خیال اس حد تک رکھتے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں،ان کے علمی ودعوتی کاموں پربہت خوش ہوتے،اور حد سے زیادہ ان کی ہمت افزائی فرماتے تاکہ وہ اور زیادہ ترقی کی منزلیں طے کریں،بالکل یہی سلوک ان کا طلبائے جامعہ سے بھی رہا، معمولی چیزوں پر بھی حد درجہ ان کی ہمت افزائی کرنا،انعامات سے نوازتے رہنا،ان کے گھر والوں کو اس کی اطلاع دے کر بلانا یا پھر فون پر مبارکبادی کے الفاظ کہنا مولانا کی ان خوبیوں میں شمار ہوتا ہے، جس نے بے شمار طلباء کی زندگی کے دھارے کو موڑا،جس کے دسیوں واقعات ان کی وفات کے بعد لوگوں کے زبانی معلوم ہوئے،طلباء سے محبت اس حد تک تھی کہ بار بار ان کو تنہائی میں بلاکر سمجھانا،ان کی غلطیوں کو نظر انداز کرنا اور غریب طلباء کا ہر طرح سے خفیہ تعاون کرنا مولانا کی زندگی کی عادت بن چکی تھی۔ بڑوں کا ادب:۔ جو شخصیت تمام اہلِ علم،معاصرین بلکہ اپنے شاگردوں اور چھوٹوں تک سے بڑے ادب واحترام کے ساتھ پیش آتی ہو انھوں نے اپنے اساتذہ اور بڑوں کا ادب وخیال کس درجہ رکھا ہوگااس کو سمجھنے کے لئے یہ کا فی ہے کہ جب بیماری کے اس مرحلے میں پہونچے جب دو منٹ بھی سیدھا بیٹھنا دشوار تھا اور کسی بڑے سے بڑے مالداروں،تاجروں اور تعلق والوں کو بھی آپ کے پاس دو منٹ سے زیادہ بیٹھنے کی گنجائش نہ ہوتی تھی، ایسی شدید تکلیف میں بھی(جس کا صحیح اندازہ ان کے قریب رہنے والے ہی لگاسکتے ہیں)اگر ان کے اساتذہ میں سے کوئی ملاقات کے لئے حاضر ہوتے تو پندرہ بیس منٹ تک بھی استاد کے ادب میں اپنی تکلیف کا اظہا ر کئے بغیر سیدھے بیٹھے رہتے،علاوہ ازیں اس سلسلے کے مزید واقعات اور اس کی تصدیق خود مرحوم کے اساتذہ اور بڑوں نے بھی کی۔ حکمت اور حلم وبردباری:۔ حلم وبردباری اور عفو و درگذر کا یہ عالم تھا کہ اگر ان کے چھوٹے یا ملازمین میں سے بھی کوئی سخت بات کہتا تو ذرابرابر اس کا برا نہ مانتے اور اس سے تعلق بھی منقطع نہ فرماتے بلکہ ہنس مکھ چہر ے کے ساتھ سمجھاتے، اسی لئے ان کے سانحہئ ارتحال پر خدام وملازمین بھی بڑے غمگین نظر آئے، بلاشبہ مولانا کا ہنس مکھ اور ہشاش بشاش چہرہ کے ساتھ دوسروں سے ملنا،ان سے دلجمعی کی گفتگو کرنا،اور آگے بڑھ کر ان کی خدمت کرنا، ان جیسے اوصاف نے سینکڑوں کو ان کا گرویدہ بنالیا، اسی کے ساتھ مولانا مرحوم کا ایک اہم وصف یہ تھا کہ ان کے ہر قول وفعل میں حکمت کا عنصر غالب رہتا لیکن یہ حکمت آپ کی ایمانی غیرت پر اثر انداز نہ ہوسکی، جہاں حق ببانگ دہل کہنا ہو وہاں مولانا نے پوری دلسوزی کے ساتھ کھل کرحق بات کا اظہار کیا جس کا خاطر خواہ فائدہ بھی نظر آیا۔ وسعت ِقلبی:۔ مولانا کے مطب میں بڑے سے بڑے بدحال مریض کے لئے بھی وسعت تھی،یہ نہ تھا کہ اس دربار میں صرف ابرار و اتقیاء آئیں یا فقط شب بیدار اور تہجد گذار حاضر ہوں، یہاں گنجائش اسی وسعت قلب کے ساتھ عوام الناس کی بھی تھی، غرض کہ اخلاق وکردار کی بلندی مولانا کے تمام اوصاف میں سب سے نمایاں اور قابل تقلید وصف تھا،جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ان کے سانحہ ئ ارتحال کے بعد سے اب تک سینکڑوں لوگوں نے آپ سے پیش آئے اپنے ذاتی واقعات بیان کئے،ہر ایک یہی محسوس کر رہا تھا کہ گویا ا ن کا عزیر نہیں رہا۔ درس وتدریس:۔ مولانا کی ساری زندگی تعلیم وتعلم سے منسلک رہی،تدریس کومعاش کانہیں مغفرت کا ذریعہ سمجھا جوکسی بھی کامیاب استاد کے لئے اولین شرط ہے،درس کے دوران اکثر طلباء کو مخاطب کرکے فرماتے:عزیز بچو!اللہ نے ہمیں علم والے راستے کے لئے منتخب فرمایا ہے،اللہ نے ہمارے لئے خیر کومقدر فرمایا ہے،یہ جنت میں داخل کرانے کا اللہ کی طرف سے ہمارے لئے بہانہ ہے،آپ کو پڑھانے کے سلسلے میں ہم سے جو کچھ ٹوٹی پھوٹی خدمت ہورہی ہے ہمیں امید ہے کہ آپ اپنی مستقبل کی زندگی میں اللہ کے دین کی خدمت کریں گے اور اسی چیز سے ہم کو آخرت میں امید ہے،مولانا کا درس بڑا البیلا اور اچھوتا ہوتا، درجہ میں جب بھی داخل ہوتے اپنے نورانی اورمسکراتے چہرے سے بچوں کا دل جیت لیتے،ہرا یک کو اپنی طرف متوجہ کرتے،مثالوں سے،کبھی ہاتھوں کے اشاروں سے، کبھی کسی مخصوص انداز کا طرزاپنا کر سبق کے خلاصے کو دلنشیں انداز میں طلباء کے سامنے پیش کرتے، بقول شخصے موجودہ دور میں تعلیم کے جو جدید طریقے متعارف کئے جار ہے ہیں، مولانا کی شخصیت ان تمام چیزوں میں اپنی مثال آپ تھے(خاص طور پر انتظامیہ اور اساتذہ کو کن صفات کا حامل ہونا چاہئے،کس طرح اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہئے اور طلباء کے ساتھ معاملہ کیا ہونا چاہئے)۔ ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم۔ خطابت:۔ مولانا کی خطابت پر اگر غور کیا جائے تو جوش سے زیادہ ہوش تھا،بات کو مخاطب کے ذہن کا لحاظ رکھتے ہوئے اس طرح سمجھانا جیسے کو ئی استاد اپنے بچوں کو سبق سمجھا رہا ہو، زبان آسان لیکن آدبی چاشنی سے بھرپور،بیچ بیچ میں واقعات کو سامنے رکھ کر کہ سننے والا اکتا نہ جائے، پوری دردمندی اور کڑھن کے ساتھ مولانا اپنے دل کی تر جمانی کر تے تھے، محض اللہ کا فضل کہ بعض حضرات کی کوششوں سے مولانا کے کئی سالوں کے خطبات، تقاریر اور دروس قرآن محفوظ ہیں فجزاھم اللہ خیراً۔ وقت کی پابندی:۔ کسی بھی انسان کی کامیابی کے لئے وقت کی قدر اور پابندی بڑی اہمیت کی حامل ہے،مرحوم بھی ہر کام میں وقت کی بڑی پابندی فرماتے، جامعہ جاتے وقت اگر ناشتہ تیار نہ ہوتو انتظارنہیں کرتے بلکہ ناشتہ کئے بغیرجامعہ چلے جاتے،جامعہ کے ہر پروگرا م میں کوشش یہ ہوتی کہ جلسہ وقت مقررہ پر ہی شروع ہو اور جہاں طلبہ سے اکثر صبح یا بعد نماز عصر علمی، تربیتی اور اصلاحی گفتگو فرماتے وقت کی پابندی کی بھی بڑی تاکید کرتے اور یہ فرماتے کہ زمانہئ طالب علمی میں وقت کی پابندی نہ ہو تو بعد میں وقت کی پابندی بڑی مشکل ہے۔ استقامت:۔ نبوی اصول کے مطابق ”خیر العمل ما دیم علیہ“ (سب سے اچھا عمل وہ ہے جو پابندی کے ساتھ ہو)نیز عربی زبان میں یہ مثل بھی مشہو ر ہے کہ”الاستقامہ فوق الکرامۃ“ (ا ستقامت کرامت سے بھی بڑھ کر ہے)مولانا زندگی کے ہر میدان میں بڑی ثابت قدمی کے ساتھ لگے رہے حتی کہ دن
بھر کی شدید مصروفیت کے باوجو داپنے کسی کام کا ناغہ نہیں کیا،ہمیشہ فجر کی نماز کے لئے ٹووِھیلر پر تین کلومیڑ دورجامع مسجد جاتے،چاہے موسم ناموافق ہو یا حالات کشیدہ ہوں۔ اس کے علاوہ اپنی تمام ذمہ داریوں کو بھی پابندی سے انجام دیتے بلکہ آخر ی بیماری تک جب تک جان میں جان رہی،اپنے تمام فرائض بحسن وخوبی انجام دیتے رہے، اس کے علاوہ مولانا کی زندگی کا ایک روشن باب یہ ہے کہ مولانا ہمیشہ صبر کے کوہ گراں بن کر رہے،بیماری کے شدید عالم میں بھی حرف شکایت زبان پر نہیں لایا،اسی طرح اوصاف کے تذکرے میں جہاں تک استغناء کی بات ہے تو اس کی نظیر مادیت کے اس دور میں (جب کہ مال کی محبت میں انسان انسانیت کے حدود کو بھی پامال کرچکا ہے) ملنا ناممکن نہیں تو محال ضرور ہے،جس پر ان کے کئی ذاتی واقعات شاہد ہیں۔ خدمات:۔ مولانانے جہاں ایک کامیاب استاد، معاون مہتمم، نائب مہتمم اورمہتمم کے عہدے پر فائز رہ کر ہزاروں طلبا ء کو تیار کیا،وہیں جامع مسجد کی امامت وخطابت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد عصری درسگاہوں میں پڑھنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو دین سے قریب کرنے کا ذریعہ بنے۔شعبہئ تبلیغ کے ذریعہ دین کے فروغ اوراصلاح معاشرہ میں حصہ لیا، جس کا فیض برابر جاری ہے، جومولانا کے لئے ان شاء اللہ ثوابِ جاریہ ثابت ہوگا۔غرض کہ انفرادی طریقے سے لے کر اجتماعی زندگی تک ایسی ذہن سازی کا کام کیا جس کی وجہ سے کئی لوگوں نے اپنی زندگی کے دھارے کو تبدیل کیا،ان سب کے ساتھ بھٹکل کے مختلف اداروں میں بھی آپ کی حیثیت مرکزی شخصیت کی رہی، خاص طور پر مولانا ابوالحسن علی اسلامک اکیڈمی اور اس کے زیر اہتمام قائم علی پبلک اسکول(جس کی پورے ملک میں ایک سو پچیس سے زائد شاخیں قائم ہوچکی ہیں)کے لئے آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں،اسلام کے محبت بھرے تحفے کو پوری انسانیت تک پہونچانے کے بنیادی مقصد کو سامنے رکھ کر عزم وحوصلہ کے ساتھ قائم کئے گئے ادارہئ فکر وخبر کے آپ پہلے صدر نشیں تھے، خلاصہ کے طور پر کہا جائے تو صحیح معنوں میں قوم وملت کی خدمت آپ کا اوڑھنااور بچھونا بن گیا تھا۔ بیماری ووفات:۔ مولانا کسرتی جسم کے آدمی تھے،توانا وتنومند،صحت قابل رشک،کھلتا ہوا رنگ،اور عمر بھی ابھی پچپن سال کے اندر،ان سب کے ساتھ شرافت چہرے مہرے سے ٹپکتی تھی،چہرہ نورانی لیکن شخصیت وجیہ وبارعب،لیکن قدرت کے انتظامات بھی عجیب سے عجیب تر ہوتے ہیں،نادان انسان کو دنگ وحیران بنادینے کے لئے کافی، مشیت کی بھی کارفرمائی دیکھئے کہ مینگلورمیں والد صاحب کے ساتھ لگے ہاتھوں خود کا بھی علاج کرایا لیکن ماجرا عجب پیش آیا کہ ایک جانچ کے بعدہی مولانا کے کئی مسلسل طبی جانچ کئے گئے اور حیران کن رپورٹ نے سب کے ہوش اڑادئیے،چند دنوں میں ہی جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر پھیل گئی کہ وہ شخص جس پر شہر بھٹکل کو ناز ہے، جو قوم کے لئے باعث افتخار ہے، ایک مہلک بیماری میں گرفتا ر ہوچکاہے،جس نے بھی سنا سکتے میں آگیا،سب نے جان لڑادی،چاہنے والوں نے نہ دن کو دن سمجھا،نہ رات کو رات،سب کو بس ایک ہی لگن وکڑہن تھی کہ اس فاتح قلوب، قوم وملت کی امانت کو اس بیماری سے چھٹکارا مل جائے،لوگ پروانوں کی طرح ٹوٹ پڑے،مشوروں کے انبار لگ گئے،بعض چاہنے والے ”نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے “کی کہاوت کے بھی مصداق بنے، پہلے مینگلور وبینگلور کے سفر طئے کئے گئے،مولانا کی بیماری کے تین مہینوں میں عجیب وغریب سماں بن گیا،خاص طور پر بھٹکل کی فضا مایوس کن بن گئی کہ سب کا محبوب وچہیتا زندگی وموت کی کشمکش سے دوچارتھا، ہر ایک اپنے پروردگار کے سامنے ہاتھ اٹھائے ہوئے،دوست کیا دشمن کی بھی دل کی حالت ابتر،دعائیں اس قدر کہ کہنے والے کو کہنا پڑا کہ بھٹکل کی تاریخ میں پچھلے سو سال میں اس قدر دعائیں کسی شخصیت کے لئے نہیں ہوئی، یہ وہ محبت تھی جو ہر ایک کے دل میں نقش تھی،صدقات، روزے، اذکا ر،اور دعاؤوں وغیرہ کا سلسلہ چل پڑا کہ مولیٰ کسی ایک کی بھی سن لے اور بیڑا پار ہو جائے، لیکن اس حکیم وشفیق پروردگا ر کے فیصلے بھی انسان کی عقل وفرزانگی سے باہر ہیں،بہرحال آغاز کا انجام شروع ہوگیا تھا،ہر پیدائش کے لئے موت،ہر بچپن کے لئے بڑھاپا،اس دار ناپائیدار کا دستور ہی یہ رکھ دیا گیا ہے،علاج کرکے کچھ امیدیں بندھ جاتی تھیں لیکن آہ انسان کی فریب خور دگی کہ طبیعت ان ہی عارضی اور وقتی افاقوں کا سہارا ڈھونڈلیتی ہے،نامور اطباء سے رجوع کیا گیا،بعض خیر خواہوں نے حد بھی کردی لیکن طبیب کے بس میں موت کا علاج ہے کب؟مقابلہ وہ مرض کا کرسکتا ہے، وہ بھی اذن الٰہی سے، نہ کہ خود قضائے الٰہی کا،آخر تقدیر سے مفر ہے بھی کس کو،دیکھتے دیکھتے دسمبر کامہینہ گذر گیا،کمزوری بڑھتی گئی اور کیمو کے علاج نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کردی کہ نقاہت اورضعف میں اور اضافہ کردیا، لیکن ان سب کے باوجود صبر اور رضا بالقدر کے دامن کو تھامے رکھنا مولانا ہی کا حصہ تھا۔ ہر ر نگ میں راضی بہ رضا ہو تو مزا دیکھ دنیا ہی میں بیٹھے ہوئے جنت کی فضا دیکھ وہ دعوت جو زندگی بھر دیتے رہے، ان ایام میں بھی وہ باتیں دل سے نکلتی رہی،بیماری کے انکشاف سے چنددنوں پہلے کا منظر ابھی ذہنوں میں تازہ ہے کہ مکتب جامعہ اسلامیہ کارگدّے بھٹکل کے افتتاحی جلسہ میں جامعہ کی خدمات اور مقاصد کو بڑے دردبھرے انداز میں عوام کے گوش گذار کیا،وہی عین بیماری کی حالت میں جامع مسجد کے منبر سے توبہ واستغفار کی وصیت کرتے ہوئے قوم سے آخری خطاب کیا،تواپنے ہر دلعزیز ادارہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے درودیوار پر آخری نظر ڈالتے ہوئے اساتذہئ جامعہ سے جامعہ کے دفتر اہتمام میں دردانگیز گفتگو کی،کون جانتاتھا کہ شمع اب بالکل بجھنے کو ہے اور یہ جامعہ کی آخری حاضری ثابت ہوگی،سمجھنے والے گفتگو سن کر سمجھ چکے تھے کہ حالات کے تیور بہتر نہیں ہیں،بینگلور تقریباًڈیڑھ مہینے اپنی بہن کے گھر قیام رہا،بینگلور قیام کے دوران سب کو شدّت سے انتظار تھا کہ مولانا بھٹکل کب تشریف لائیں گے؟ اور چمنستان کب لہلہانے لگے گا؟ اچانک ایک دن بھٹکل واپسی کا پروگرام اس وقت بنا جب ڈاکٹر نے دوسرے کیمو کے سلسلے میں تشویش کا اظہار کیا، جس سے بعض احباب کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ ڈاکٹر کا انکا ر صحت کی بہتری کی بنیا د پر ہے،راقم اس وقت بھٹکل میں تھا کہ واپسی کی خبر سے دل خوشی سے اچھل گیا،آہ!وہ کیا دن تھا!وہ کیا خوشی، آج اپنی تحریر میں کس طرح اس کا اظہار کرسکتا ہوں؟ دوسری طرف خیالات اور و ساوس کا انبار بھی تھاکہ آخر ماجراکیا ہے؟بھٹکل واپسی کیا ہوئی پورا شہر امنڈپڑا، مجبوراً ملاقات کے لئے وقت مقرر کرنا پڑا کہ یہ کمزور اور گھلا ہوا جسم آخر کس طرح اس بھیڑکو برداشت کرسکتا تھا؟ابھی شہر لوٹے ہفتہ بھی پورا نہ ہوا تھا کہ ہاتف غیبی کی طرف سے مینگلور کے لئے دوبارہ بلاواآگیا،سینے میں بار بار پانی جمع ہونے کی وجہ سے سخت تکلیف دوبارہ شروع ہوگئی،لیکن یہ سفرِ روانگی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا،مینگلور پہونچ کر پہلے دن پانی نکالنے پر طبیعت ذرا سنبھل گئی،دوسرے دن راقم السطور مینگلور حاضر ہوا،مولانا حد سے زیادہ مطمئن اور پر سکون نظر آئے اور کل تک جو دو منٹ عیادت کرنے والوں سے بات نہیں کرسکتے تھے آج وہ تقریباًآدھ پون گھنٹہ گفتگو کرتے نظر آئے،کسے معلوم تھا کہ اس بہار کایہ آخری جھونکا ہے اور یہ چراغ چراغِ سحر ثابت ہوگا،ماضی کی کئی باتیں بتاتے رہے،دو تین دن ہی گذرے تھے کہ شدید بے چینی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس میں دن بدن اضافہ ہوتاہی چلاگیا،مر ض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، تدبیر کے اقدامات تقدیرکی قوت کے آگے بری طرح شکست کھاگئے،اب نقل و حرکت بھی نا ممکن تھی مگر اس شدید بے چینی کی حالت میں بھی زبان سے برابر ذکرجاری تھا،انتقال سے تین دن قبل اپنے جمیع اہل خانہ کے ساتھ دس منٹ ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر پراثر اور رلادینے والی دعا کی،جب کہ حال یہ تھا کہ ہاتھ کھانے پینے کے لئے بھی منھ تک نہیں اٹھ رہاتھا اور صاف محسوس ہورہا تھا کہ کوئی باطنی اورروحانی طاقت ہے جو زبان سے ظاہرہو رہی ہے۔ ان ہی دنوں اپنے بھائی کو بلا کر کہا کہ ان شاء اللہ اللہ ضرور میری مغفرت کرے گا،کبھی خطبے کے الفاظ بھی زبان سے جاری ہوتے، کبھی اپنے مرحوم رشتے داروں کے ناموں کاتذکرہ کرتے،سمجھنے والے سمجھ رہے تھے کہ شاید اب حرف ِشکایت زبان پر آئے؟، لیکن جس کو اللہ قبول فرمائے اس کو ہمت وطاقت بھی اللہ ہی عطا کرتا ہے۔ بدھ کا دن وفات کا دن تھا، آج بے چینی کی کیفیت میں تھوڑی سی کمی محسوس ہورہی تھی، لیکن زبان سے الفاظ صاف ادا نہیں ہوپارہے تھے مگر جس چیزکی دعوت وہ زندگی بھر دوسروں کو دیتے رہے آج بھی وہی الفاظ یعنی کلمہ طیبہ کا ورد جاری تھا، کسے معلوم تھا کہ آفتاب علم وعرفاں کی آخری کرنیں روپوش ہونے کو ہیں،اللہ کی رحمت نا قدروں اور نااہلوں سے واپس لی جارہی تھی،رسولِ اسلام کا ایک سچا جانشین اپنے مالک ومولیٰ کے دربار میں حضوری کے لئے بے قرار ہورہا تھا،لشکرِ اسلام کا جرنیل اپنے جسم کا پور پور دین کی راہ میں چور کئے قلبِ خاشع ونفسِ مطمئنہ کے ساتھ بالکل آخری منزلوں سے گذرنے لگا،اور”من أحب لقاء اللہ أحب اللہ لقاء ہ“ کی خلعت سے سرفراز ہوگیا، شام تقریباًساڑھے چار بجے مولانا کی آواز بالکل رک گئی آنکھیں پورے کمرے میں گھومنے لگیں، مولانا نے اس عالم ناسوت میں آخری سانس لی اور برسوں کا تھکا ہارا مسافر اپنے پروردگار کے دربار میں ملاقات کے لئے حاضر ہوگیا،آہ! تاریخ امت کے کتنے صفحات ایسی ہی حسرتوں سے رنگین ہیں، إناللہ وإناإلیہ راجعون۔ چمن سے کون چلا ہے خموشیاں لے کر کلی کلی تڑپ اٹھی ہے سسکیاں لے کر مولانا میرے والدبھی تھے،استاد بھی،مقتدا بھی تھے اور سب سے بڑھ کر میرے محبوب بھی، یہ عقیدت، عظمت اورمحبت ایک ہی وقت میں کچل کر رہ گئی۔ کیا لوگ تھے جو راہ ِوفا سے گذرگئے جی چاہتا ہے نقش ِقدم چومتے چلیں حسرت اس بات کی بھی تھی کہ اس دنیائے فانی میں یہ آخری دیدار تھا،اب یہ پیا را پیارا چہرہ کب دیکھنا نصیب ہوگا؟یہ محبت واخلاص سے منور اور اسلامیت کے نور سے دمکتا ہوا مکھڑا اب کبھی زندگی بھر دیکھنے میں نہ آئے گا،ہائے اس چہرہ کی محبوبیت اور نورانیت کا ایک ہلکا سا عکس بھی کس کاغذ کے صفحہ پر نقل کیا جاسکے۔ اب ہم ہیں اور یہاں تماشہ ہے حشر تک آنکھیں ہوئی ہیں بند رخِ یار دیکھ کر انتقال کی خبر جس نے بھی سنی دم بخود رہ گیا، تلملا اٹھا جیسے کوئی نو گرفتار پرندہ قفس کے اندر تڑپ رہا ہو، ہر ایک کی زبان پر”إناللہ“ کے الفاظ آئے، ایسا معلوم ہورہا تھاایک ہنگامہ بپا ہے،انتقال کی خبر پر تھوڑی ہی دیر میں ہسپتال لوگوں سے بھر گیا، اُدھر مولانا کے گھربھٹکل میں آخری دیدار کرنے ایک خلقت امنڈ پڑی،بھٹکل کے اہم تعلیمی و سماجی ادارے اور دکانیں اپنے محسن کی جدائی پر بند ہوگئے،مولانا کے ہزاروں چاہنے والوں کے دل ٹوٹ چکے تھے، معلوم ہوتا تھا کہ ایک ذات سے سارا شہر پرُرونق تھا لیکن آج ہر چہار طرف اداسی ہی اداسی ہے۔ تیرے فراق سے میری آنکھیں ہیں اشکبار پائیں گے آہ! تجھ سا کہا ں کوئی غمگسار ہم ہوگئے یتیم ترے انتقال سے منھ کو کلیجہ آئے ہے فکر مآل سے دعا ہے کہ اللہ قوم وملت کے اس خادم کو اپنے شایانِ شان بدلہ نصیب فرمائے اور ملت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے” اللھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ واغفرلنا ولہ آمین یا رب العالمین۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں