مولانا محمد شاہد حسنی مظاہریؒ اپنے اسلاف کے بہترین خلف تھے

ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ

چھ اکتوبر کو یہ خبر ملی کہ حضرت مولانا محمد شاہد حسنی جنہیں ہم مد ظلہٗ العالی لکھتے تھے وہ دارفانی سے دار ابدی کی جانب روانہ ہوگئے ہیں ،جہاں ہر کسی کو جانا ہے ۔کل نفس ذائقۃ الموت ۔’’ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔‘‘موت ایسی حقیقت ہے جس سے اسے بھی دوچار ہونا جو آخرت کا انکار کرتا ہے ۔موت کا شکنجہ ہر چھوٹے ،بڑے ،امیر و غریب ،فقیر اور بادشاہ سب کو اپنے اندر جکڑ لیتا ہے ۔مولانا کی شخصیت اور ان کی یادیں یہ خبر سن کرذہن کے پردہ پر بہت دیر تک ابھرتی رہیں ۔مولانا کے وہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں اور مجھے سکون عطا کرتے ہیں جو انھوںنے میرے دو بچوں کی حادثاتی موت پر کہے تھے ۔وہ بہت دیرتک فون پر مجھے تسلی دیتے رہے ۔انھوں نے کہا :۔’’ آپ کے دونوں بچے اللہ کے راستہ میں شہید ہوئے ہیں ،ان کی وفات پر آپ کا صبر آپ کو بہشت میں ان کی رفاقت عطا کرے گا ۔‘‘مولانا سے ایک ماہ قبل ہی فون پر گفتگو ہوئی تھی ۔میں نے جلد ہی حاضر خدمت ہوکر شرف لقا حاصل کرنے کا اظہار کیا تھا۔۴ اور ۵ ؍ نومبر کو عالمی رابطہ ادب اسلامی کی جانب سے جامعۃ الفیصل تاج پور میں مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ؒ پر ایک سمینار منعقد ہورہا ہے ۔اس کا کنوینر راقم کو بنایا گیا ہے ۔مجھے اس میں مولانا کو شرکت کی دعوت دینے کے لیے مظاہر علوم سہارن پور جانا تھا ۔ابھی میں نے سفر کی تاریخیں متعین نہیں کی تھیں کہ مولانا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سفر پر چلے گئے ۔اس سے قبل جب میں اپنے بعض دوستوں کے ساتھ مظاہر علوم حاضرہوا تھا تو مولانا کا اصرار تھا کہ مجھے عشائیہ ان کے ساتھ کرنا ہے ۔میں نے بہت معذرت چاہی ،لیکن مولانا نے اصرار کیا کہ جب آپ بعد مغرب ملاقات کے لیے آرہے ہیں تو عشائیہ میرے ساتھ ہی تناول کرنا ہے ۔مولانا نے متنوع کھانے تیار کرائے ، دستر خوان پرمظاہر علوم کے مطبخ کے علاوہ ان کے اپنے گھر پر تیار کیا ہوا کھانا بھی تھا ،عام طور پور مہمانوں کو مظاہر علوم کے کھانوں پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے ۔یہ میری خوش نصیبی اور مولانا کی مجھ سے محبت کا ثبوت تھا کہ مولانا نے میرے لیے اپنے گھر سے بھی کھانا منگوایا تھا ۔یہ واقعہ 2019کا ہے ۔یہ ہماری آخری ملاقات ثابت ہوئی ۔اس لیے کہ گوناگوں مصروفیت کے باعث دوبارہ ابھی تک سہارن پور جانا ممکن نہ سکا ۔ 
مولانا مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے ،لیکن وہ ایک عملی انسان تھے ۔وہ بہترین عالم دین ،معتدل قلم کار ،قابل تقلید منتظم تھے ۔انھوں نے مظاہر علوم جدید کو جس طرح اونچائیوں پر پہنچایا ہے وہ ان کا عظیم الشان کارنامہ ہے جسے آسانی سے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ان کے اندر بلا کی سادگی ،انکساری اور تواضع پائی جاتی تھی ۔وہ ’’من تواضع للہ فقد رفع اللہ‘‘ (حدیث ) ’’جو تواضع اختیار کرتا ہے اللہ اس کے مرتبے بلند فرماتا ہے ۔‘‘کی جیتی جاگتی تصویر تھے ۔
مولانا ایک اچھے قلم کار تھے ۔ان کی تصانیف کی تعداد پچاس سے زائد ہے ۔ انھیں بچپن ہی سے لکھنے پڑھنے کا ذوق تھا، شیخ الحدیث محمد زکریا کاندھلویؒ نے اپنی اولین تالیف ’’تاریخ مظاہر علوم‘‘ کا ناتمام اور غیر مکمل مسودہ انھیں یہ کہ کر عنایت کیا تھا کہ:۔’’میں نے 1335ھ میں مظاہر علوم سے فراغت کے بعد تاریخ مظاہر اور تاریخ مشائخ چشت لکھنی شروع کی تھی، لیکن پھر بعد میں اوجز المسالک اور لامع الدراری وغیرہ کی وجہ سے یہ دونوں کتابیں ناقص رہ گئیں۔ اب تو ان کی تکمیل کر دے۔‘‘
مولانا کا تعلق ایک علمی خانوادے سے تھا اور انھوں نے اپنے وقت کے اکابر علماء کی صحبت میں پرورش پائی تھی ۔ان کی صحبت اور تربیت سے اپنی صلاحیتوں کو نکھارا تھا ۔وہ اپنے اسلاف کے بہترین خلف تھے ۔جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کو اپنے اساتذہ ،اپنے مشائخ اور اپنے اسلاف کی کس طرح تقلید و پیروی کرنی چاہئے اور ان کی تعلیمات سے فائدہ اٹھا کر کس طرح اپنی شخصیت کو اوپر اٹھانا چاہے ۔اپنے چھوٹوں سے محبت کرنا اور اپنے بڑوں کی عزت کرنا بہت سے لوگوں نے ان سے سیکھا ہے ۔یہ ان کا خاص وصف تھا ۔
مولانا مشہور عالم دین ،اپنے وقت کے ولی کامل ،مظاہر علوم کے شیخ الحدیث مولا نا محمد زکریا ؒ کے نواسہ تھے ۔مرحوم نے اپنے نانا سے کتابی علم بھی حاصل کیا تھا اور روحانی فیض بھی ۔مولانا زکریاؒ سے میں نے بھی ’مسلسلاۃ الحدیث‘ پڑھی اور اس کی سند بھی ان سے حاصل کی ۔گویا کہ مرحوم سے میرا ایک رشتہ یہ تھا کہ ہم دونوں ایک استاذ کے شاگرد تھے ۔شیخ سے یہاں کون ناواقف ہے ۔ان کی لکھی ہوئی کتاب تبلیغی نصاب سارے عالم میں مشہور ہے ۔لاکھوں مساجد میں پڑھی جاتی ہے ۔انسان پر اپنے نانا کا اثر زیادہ ہوتا ہے اس لیے کہ خواتین اپنے بچوں کے سامنے اپنے مائکے والوں کو آئیڈیل بنا کر پیش کرتی ہیں ۔مولانا کے نانا شیخ الحدیث محمد زکریا ؒ توسب کے لیے ہی آئیڈیل تھے ۔مولانا مرحوم نے اپنے نانا کے جملہ آثار علمیہ مکاتیب، اور دوسری کتابوں کو منظر عام پر لانے کے  اور ان کے ترجمے و تعارف  کے لیے زندگی وقف کردی، اور جس طرح  شیخ کی زندگی کے نقوش اور تاریخ کو تحریری شکل میں مدون کیا،وہ تشنگان علم اور راہ سلوک کے مسافروں کے لیے ایک سرمایہ بے بہا ہے ، یہ مولانا کا بڑا کارنامہ ہے ۔
مولاناسید محمد شاہد الحسنی سہارنپوری کی ولادت 26 ربیع الاول 1370ھ مطابق 5 جنوری 1951ء کو شہر سہارنپور میں اپنے نانا شیخ محمد زکریا کاندھلوی ؒکے دولت کدے پر ہوئی۔ ان کے والد سید محمد الیاس ؒ(متوفی: 1438ھ م 2017ء) حافظ قرآن اور دو واسطوں سے سید احمد شہید بریلوی ؒکے خلیفہ و مجاز سید احمد حسین ؒکے فرزند تھے۔ نیز ان کی والدہ شاہدہ خاتون (متوفی: 1430ھ م 2009ء) شیخ محمد زکریا کاندھلویؒ مہاجر مدنی کی پہلی زوجہ سے پانچویں اور آخری بیٹی تھیں۔
ان کے ناظرہ پارہ عم کا آغاز 19 ذی الحجہ 1375ھ مطابق 28 جولائی 1956ء کو خانقاہ قادریہ رائے پور میں شاہ عبد القادر رائے پوریؒ کے پاس ہوا، ان کے لیے حفظ و ناظرہ کے ایک مستقل استاذ مقرر تھے، آپ ؒ نے محض دس سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا تھا۔آپ نے ہدایۃ النحو اور کافیہ تک کی عربی و فارسی کی کتابیں مدرسے سے الگ گھر ہی پر مدرسہ مظاہر علوم کے ایک قدیم استاذ محمد یامین سہارنپوریؒ سے پڑھیں، اس کے بعد 15 شوال 1385ھ مطابق 6 فروری 1966ء کو مظاہر علوم میں باضابطہ داخلہ لے کر قطبی تصدیقات، اصول الشاشی، شرح وقایہ وغیرہ سے تعلیم کا آغاز کیا اور شوال 1389ھ مطابق دسمبر 1969ء میں دورہ حدیث میں داخل ہو کر شعبان 1390ھ مطابق اکتوبر 1970ء میں درس نظامی سے فارغ التحصیل ہوئے۔مولانا مرحوم نے بخاری و مسلم محمد یونس جونپوری ؒسے، ابو داؤد و نسائی محمد عاقل سہارنپوری ؒسے، ترمذی مظفر حسین اجراڑویؒ سے اور طحاوی اسعد اللہ رامپوریؒ و مظفر حسین اجراڑوی ؒسے پڑھی۔دورہ حدیث کی تکمیل کے بعد انھوں نے شوال 1390 ھ تا شعبان 1391ھ مطابق دسمبر 1970 تا اکتوبر 1971ء مظاہر علوم ہی میں رہ کر شعبہ تکمیل علوم و فنون میں داخلہ لے کر بیضاوی شریف، تفسیر مدارک، در مختار، ملاحسن، دیوان متنبی جیسی کتابیں پڑھیں۔تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے اپنے ناناشیخ محمد زکریا کاندھلویؒ ہی کے ہاتھوں پر بیعت کرکے ان ہی کے دامنِ ارادت سے وابستہ ہو گئے اور انھیں کے خلیفہ و مُجازِ بیعت بھی ہوئے۔
مولانا مرحوم اپنی صفات و کمالات کی بنا پر مرجع خلائق تھے ۔مولانا کی خوبیوں کا ذکراستاذ محترم مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی ؒنے آج سے چالیس سال قبل یعنی 1982ء میںان الفاظ میں کیا تھا۔
’’مولانامحمد شاہدمظاہری ممتاز ہیں۔ وہ جید عالم، رواں قلم مصنف اور علمی و تحقیقی ذوق رکھنے والے نوجوان فاضل ہیں۔ مکتوبات علمیہ اور علمائے مظاہر علوم اور ان کی علمی و تصنیفی خدمات اور ’’تاریخ مظاہر العلوم‘‘ (جلد دوم) وغیرہ ان کے تصنیفی ذوق اور قلم کی روانی کے شاہد ہیں۔ حضرت شیخ (محمد زکریا کاندھلویؒ) کی ان پر خاص شفقت تھی، اور انھیں کی توجہ اور محنت سے شیخ کے کئی قلمی مسودات اور خطوط کے مجموعے منظر عام پر آئے۔‘‘مولانا محمد شاہد حسنی  ؒ مظاہری جیسی شخصیات مدتوں میں پیدا ہوتی ہیں۔تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں ۔اس وقت ملک میں مسلمانوں کے جو حالات ہیں ان حالات میں ولی اللٰہی صفات کے حامل فرد کا دنیا سے رخصت ہوجانا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے ۔مگر اللہ بڑا کارساز ہے ۔اس کے فیصلہ حکمت پر مبنی ہیں ۔ہم اسی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں مولانا کا نعم البدل عطا فرمائے اور مولانا کی مغفرت فرمائے ۔آمین

«
»

ہندوتوا‘کی سیاست کا سماجی مساوات کے نعرے کے ذریعہ مقابلہ

جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے