آہ ! اب کہاں سے لے آؤں یہ مفکرانہ دروس

محمد رفاعہ منکوی

متعلم دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

   ندوۃ العلماء کی وسیع و عریض مسجد میں بعد نمازِ عشاء ایک عجیب سنسنی پھیل گئی، ہر کوئی کسی خبر کی تصدیق میں مضطرب تھا، مجھے بھی بے چینی لاحق ہوئی کہ آخر کیا ماجرا پیش آیا ہے ، اتنے میں میرا ایک رفیقِ درس  میرے پاس دوڑتے ہوئے آیا اور کہنے لگا کہ سڑک حادثہ کی وجہ سے مولانا جعفر مسعود صاحب کی وفات ہو گئی ہے! اتنا سننا تھا کہ میرے پاؤں تلے زمین کھسک گئی ، کیا وہی استاد مکرم جنہوں نےکل ہی ہمیں فکر اسلامی کا درس دیا ہے ؟ کیا وہی استاد مکرم جو ایک طرف مفکر تو دوسری طرف عبقری قسم کے ادیب تھے ؟ کیا وہی استاد مکرم جو تواضع و انکساری کے اعلیٰ پیکر تھے ؟ کیا وہی استاد مکرم جن کو کسی سے ادنیٰ خدمت لینا بھی گوارا نہیں تھا؟ کیا وہی استاد مکرم جنہوں نے خود کو شہرت سے اس طرح بچایا تھا جیسے آدمی کانٹوں سے خود کو بچاتا ہے ؟ ان سب کا جواب تو مثبت میں تھا لیکن اب بھی ذہن و دماغ اس خبر کی تصدیق کے لئے تیار نہیں تھے کہ کوئی ایسے بھی داغ مفارقت دے جا سکتا ہے ، شاید ہی حسنی خانوادہ کی عظیم شخصیات میں سے کوئی اس طرح اچانک اس دنیا سے چل بسا ہو۔

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

   تعلیمی سال کے ابتدائی مرحلے میں جب میرا داخلہ دارالعلوم ندوة العلماء میں ہو رہا تھا تو یہ باتیں ذہن میں گردش کر رہی تھیں کہ سابقہ فضلاء کی طرح میں بھی ندوہ سے خوشہ چینی کر سکوں گا یا نہیں، لیکن مرورِ ایام کے بعد جب میں اساتذہ کے درس میں خصوصا مولانا مرحوم کے درس میں شرکت کرتا رہا تو معلوم ہوا کہ ندوہ کے سمندر میں اب بھی موتیوں کی کمی نہیں ہے ، کمی ہے تو بس غوطہ زنوں کی !

أَنا البَحرُ في أَحشائِهِ الدُرُّ كامِنٌ

فَهَل سَأَلوا الغَوّاصَ عَن صَدَفاتي

      ندوہ آنے کے بعد اگر کسی چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے تو وہ مولانا مرحوم کے فکرِ اسلامی کے دروس ہیں، مولانا کے ایک درس سے وہ موتی ہاتھ آتے تھے جو بلامبالغہ سینکڑوں صفحات کی ورق گردانی سے حاصل ہونا مشکل ہے۔ مولانا کی ایک طرف تاریخ پر وسیع و عمیق نظر تھی تو دوسری طرف تاریخی واقعات سے عبرت آموز نکات اخذ کرنے کا ملکہ بھی تھا ، نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے حالاتِ حاضرہ پر  گہری نظر بھی تھی اور صحیح تجزیہ کار بھی تھے، ایک طرف کسی اہم مسئلے کی سنگینی کو جانتے تھے تو دوسری طرف اُن مسائل کے اسباب بھی بیان کرتے اور حل  بھی پیش کرتے تھے۔ انہی وجوہات کی بنا پر ان کے قیمتی درس کی اہمیت کو میں الفاظ کا جامہ پہنانے سے قاصر ہوں۔

      ہم رفقائے درس پر یہ بات بہت شاق گذرتی تھی کہ مولانا رحمة الله علیه کا ہفتہ میں صرف ایک درس ہوتا تھا، ہفتہ بھر اس درس کا انتظار رہتا تھا، خصوصًا اس موقع پر جب عالمِ اسلام میں کوئی واقعہ پیش آیا ہو تو اس کے اسباب ، اس کے نتائج، مسلمانوں کے لئے مفید یا مضر ، غرض اس طرح کے سوالات ہمہ وقت ہم ساتھیوں کے پاس تیار رہتے ، پھر مولانا مرحوم تاریخی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے ایسا بیّن جواب دیتے کہ وہ جواب ہمیں کہیں ملنے کی امید نہ ہوتی کہ اس کا دور رس نتیجہ کیا ہوگا ، اس کے پیچھے دشمنان اسلام کا کیا مفاد وابستہ ہوگا ، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ الله نے مولانا کو صحیح تجزیہ کرنے کا جو ملکہ دیا تھا وہ بہت ہی نادر لوگوں کو میسر ہوتا ہے، اس ہفتہ بھی ہمیں انتظار تھا کہ غزہ کی صلح کے سلسلہ میں مولانا سے دریافت کرتے لیکن صد افسوس ! نہ ہمیں خبر نہ انہیں خبر کہ داعیِ اجل ہمارے درمیان حدِ فاصل پیدا کردے گا۔

آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو

گلشن تری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا

   اس کے باوجود ہم مولانا سے مستفیدین میں خود کو شمار کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ کم از کم سال بھر ہمیں استفادہ کا موقع ملا ، اگرچہ ہم کما حقه ان سے فائدہ نہ اٹھا سکے ، مجھے اس کا شدید احساس تھا کہ ان سے مزید وقت لینا ہے کیوں کہ یہ بھی انھیں اہم شخصیات میں سے ہیں جن سے استفادہ کے لیے ہم ایک طویل سفر طیے کرتے ہیں، اسی بنا پر  گذشتہ ہفتہ ہی مجھے انفرادی ملاقات کا موقع ملا تو میں نے مولانا کے سامنے یہ بات رکھی کہ ہمارے رفقائے درس میں سے اکثر امسال فراغت  حاصل کرتے ہوئے عملی میدان میں اتریں گے ، ان کےلئے آپ کے دروس بہت مفید ثابت ہوتے ہیں، اگر آپ کے پاس وقت ہوتو براہِ کرم ہفتے میں ایک سے زائد دروس ہوں ، لیکن الله کی مشیت ہی کچھ اور تھی،   ماشاءالله کان وما لم یشأ لم یکن

   ایک طرف مولانا مرحوم کے درس کی یہ خصوصیات تھیں لیکن دوسری طرف جب مولانا کی تحریروں کو دیکھتا ہوں تو ایک لاجواب ادیب کہنے پر مجبور ہوجاتا ہوں، سال کے ابتدا ہی میں مولانا فرمان صاحب نے مولانا مرحوم کے الرائد کے مضامین کا مجموعہ “أخي العزیز” روزانہ کچھ صفحات پڑھنے کا مشورہ دیا تھا، تو اسی کے مطابق روزانہ چار پانچ صفحات پڑھنے کا معمول رہا، مولانا کی جب عمدہ تعبیرات ، سلیس اسلوبِ تحریر کو دیکھتا ہوں تو دل میں یہ خیال آنے لگتا ہے کہ مولانا مفکر سے بڑھ کر ایک اچھے ادیب ہیں ، لیکن جب فکرِ اسلامی کے دروس میں شرکت کرتا ہوں تو پھر یہ کہنا پڑتا ہے کہ ادب سے بڑھ کر فکرِ اسلامی میں آپ کو زیادہ دسترس ہے، غرض دونوں فن میں آپ کا ثانی ملنا مشکل ہے۔

    مولانا مرحوم "مَن رآه بديهةً هَابه ومن خالطه معرفةً أحبَّه” کا مجھے مظہر لگتے تھے، مولانا کو تنہائی زیادہ پسند تھی، دوسروں سے زیادہ ملنا جلنا آپ کا شیوہ نہیں تھا، مولانا کی طالبِ علمی کے دور پر نظر ڈالنے پر بھی یہی صفت نمایاں معلوم ہوتی ہے ، میں ان کو ندوے میں ہو یا رائے بریلی میں ہو اکثر تنہا ہی پاتا تھا، لیکن جب کوئی ان سے ملاقات کرتا تو ایسا مانوس ہوتا کہ انہی سے مولانا زیادہ تعلق رکھتے ہیں، اس کا مجھے کئی دفعہ تجربہ ہوا ہے، ابھی کچھ دن قبل مولانا ندوہ میں تنہا چل رہے تھے ، مجھے ملاقات کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوئی لیکن جب میں ان کے ساتھ چلنے لگا تو ہچکچاہٹ انسیت میں بدل گئی، ایک مرتبہ میں نے ملاقات کا وقت دریافت کیا تو کہنے لگے کہ میرا نمبر نوٹ کر لو ، جب چاہے فون ملا لینا، لیکن افسوس کہ نمبر موبائیل ہی میں محفوظ رہا، کبھی ان سے فون پر بات کرنے کی جسارت نہ کر سکا۔   “اب اُنھیں ڈھُونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر”

   ایک ہفتہ قبل تفصیلی ملاقات کا موقع ملا، جس میں مولانا نے کئی ایک پہلوؤں کی طرف میری رہنمائی فرمائی ، مولانا کی مشغولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دورانِ گفتگو  ۸-۱۰ دستاویزات مولانا کی خدمت میں پیش کی گئی، مولانا دستخط بھی کر رہے تھے اور میری رہنمائی بھی فرما رہے تھے، دورانِ گفتگو کچھ ضرورت مند بھی حاضرِ خدمت ہوئے جن کی ضروت پورا کرنے کا یقین بھی دلا رہے تھے، اب اس دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد یہ بات سامنے آرہی ہے کہ کئی گھر ایسے تھے جہاں مولانا ماہانہ خرچ بھیجتے تھے ، پتا نہیں یہ بندۂ خدا کتنے حاجتمندوں کا سہارا بنا ہوا تھا۔

    پس الله سے دعا گو ہوں کہ مولانا کو غریقِ رحمت فرمائے، خدمات کو قبول فرمائے ، کروٹ کروٹ جنت کی فضا نصیب ہو، متعلقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، اور اہلِ ندوہ کو مولانا کا نعم البدل عطافرمائے۔

زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر

خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر

مثلِ ایوانِ سحَر مرقد فرُوزاں ہو ترا

نُور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا

آسماں تیری لحَد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نَورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے