’مرسی ‘سے ’میمن‘ تک انصاف کا خون

۔۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب بے قصور محمد مرسی کو عہدہ صدارت سے معزول کرکے مجرم بناکر تختہ دار پر لٹکانے کا حکم عدلیہ کی طرف سے جاری کردیا گیا ہے۔۔۔ اور ان کی پھانسی پر مفتی مصر نے مہر بھی لگا دی ہے کہ ایسے ظالم کو پھانسی دے دی جائے جو فلسطین کا خیر خواہ ہے اور انسانیت کے فروغ کا داعی ہے۔۔۔ جو امریکہ کی آنکھ میں آنکھ ملانے کا ہنر جانتا ہے۔۔۔ بہرحال ان کے پھانسی کے احکام سے ایک بات تو عیاں ہوچکی ہے کہ مصری ججوں اور موجودہ فرعون السیسی میں فراعنہ مصر کی روح حلول کرچکی ہے ۔۔۔اور وہ وہی فیصلے صادر کررہے ہیں جو فراعنہ مصر اپنے مخالفین کے لیے کرتے تھے۔۔۔وہیں 1993 ممبئی بم دھماکہ کے ملزم یعقوب میمن کو بھی تختہ دار پر لٹکانے کا عدلیہ کی طرف سے حکم نافذ ہوچکا ہے تو یہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انصاف عنقا ہو چکا ہے ۔۔۔اور یہ بھی بالجزم ثابت ہوگیا کہ عدالت جس پر ہر فرد یقین رکھتا ہے اس کے پیمانے گردش ایام کی طرح بدلتے رہتے ہیں۔۔۔ اور ہندوستانی عدالت میں کچھ سالوں سے یہ دیکھنے کو تو مل ہی رہا ہے کہ انصاف کا کس طرح خون کیا جارہا ہے جہاں مظلوم کو سزا اور ظالم کو رہائی نصیب ہورہی ہے۔۔۔ بنا جرم کیے ہوئے انہیں دس دس سال پندرہ پندرہ سال جیلوں کی سلاخوں میں اپنی زندگی کے قیمتی ایام گزارنے پڑرہے ہیں ۔۔۔ ویسے ہی مصری عدالت کا محمد مرسی کے تعلق سے جو بھی حکم آیا اس سے ہمیں یہ محسوس نہ ہونا چاہیئے کہ عدالت کا رخ اور مزاج عالمی پیمانے پر بدل چکا ہے جس طرح ہندوستانی عدالت میں برہمنی سیاست کار فرما ہے ویسے ہی اب ہمیں یہ یقین کرلینا چاہیے کہ مصری ایوان اور عدلیہ میں وہی فرعونی نظام کار فرما ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے عہد میں تھا۔۔۔فرعون گرچہ نہیں ہے لیکن اس کی فکری اور روحانی ذریت اسرائیل اور السیسی کی شکل میں موجود ہے۔۔۔ جو اس کے لائحہ عمل کو فروغ دے رہا ہے اور مرسی جیسے قابل صدر کو تختہ دار پر لٹکانے کا فیصلہ اسرائیل اور السیسی کی فرعونی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ تو وہیں ہندوستان میں یعقوب میمن کو پھانسی پر چڑھانے جانے کا غیر معقول فیصلہ سامنے آیا ہے الزامات جو بھی ہوں اور جس نوعیت کے ہوں یہ بحث اپنی جگہ لیکن سب سے باعث کرب یہ ہے کہ یعقوب میمن سے بڑا بڑا گنہ گار آج بھی آزاد گھوم پھر رہا ہے ۔۔۔ اور انصاف کے دوہرے پیمانے کا رنگ تو دیکھئے انہیں تو کلین چٹ اور رہائی بھی نصیب ہورہی ہے۔۔۔ گویا وہ اپنے وقت کا رشی اور مہنت ہے۔اسیمانند ، پرگیہ راج ٹھاکر ،اڈوانی ،مرلی منوہر جوشی ، اورموجودہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اور لاکھوں ان گنت ہندو دہشت گرد آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ 
آخر ایسا کیوں ہے۔۔۔؟ جب بھی بات اقلیت بالخصوص مسلمانوں کی ہوتی ہے اور ان کو کسی ناکردہ جرم کے تحت ملزم قرار دیا جاتا ہے تو عدلیہ کا رخ فوراً غیر متوازن ہوتا ہے اور انصاف کے مندر میں خود انصاف بیچارگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ بابری مسجد کے مجرمین اور خاطیوں کی ایک لمبی فہرست ہے ۔۔۔ممبئی ، بھاگلپور،مرادآباد، ملیانہ، میرٹھ، ہاشم پورہ اور گجرات سانحہ میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا ۔۔۔لیکن اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد بھی عدلیہ آج بھی گواہوں اور ثبوت کے حصول میں سرگرداں ہے جب کہ خود مجرم تمام عیش و عشرت کیساتھ عدلیہ کو چلینج کر رہا ہے ۔۔۔حالانکہ کہ مجرم کو گرفتار کیا جانا لازمی تھا۔ 
یعقوب میمن کو پھانسی پر لٹکایا جانا حیرت انگیز بات نہیں ہے۔۔۔ افضل گرو کو بھی جبراً ملزم ثابت کر کے تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی ۔۔۔ قتیل صدیقی، عشرت جہاں اور بھی دیگران کو تو ویسے ہی موت کے گھاٹ اتار دیاگیا تھا۔۔۔ یعقوب میمن کو بھی اسی فہرست شہیداں میں شامل کیا گیا ہے ۔۔۔انصاف کے پیمانے بدلتے رہتے ہیں ۔۔۔اور تاریخ بھی خود کو بدلتی رہتی ہے ۔۔۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ان شہیدوں کے رنگ تاریخ کو کتنی سرخی فراہم کرتا ہے ۔۔۔اور کتنی زردی تاہم جو بھی ہوتاریخ اپنے پیمانے ضرور بدلے گی۔۔۔ کیوں کہ تلک الایام ندوالہا بین الناس کے قاعدے کے تحت ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب مظلومین ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ 

«
»

کیا گرداس پور کا واقعہ آخری فیصلہ کیلئے کم ہے؟

نتین یاہو: اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے