ممبئی کی خصوصی مکوکا عدالت کی جانب سے مذکورہ ملزمین کومکوکا سے بری کرنے کا یہ دوسرا فیصلہ ہے۔ اس سے قبل 6مارچ2014کودئے گئے خصوصی مکوکا عدالت کے فیصلے کے خلاف سرکاری وکیل راجا ٹھاکرے نے ہائی کورٹ میں اپیل داخل کردی تھی ، جس کی سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کا حکم دیا تھا۔خصوصی مکوکا عدالت نے اپنے 2اگست 2014کے دوسرے فیصلے میں نہ صرف یہ کہ اپنے پہلے حکم کو جوں کاتوں برقرار رکھا بلکہ پہلے حکم میں مکوکا ہٹانے کے لئے جن نکات کا ذکر کیا تھا، اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے دیگر کئی نکات بھی شامل کردئے ہیں۔ اب خصوصی مکوکا عدالت کے اس دوسرے فیصلے کے خلاف حکومت ایک بار پھر ہائی کورٹ میں اپیل داخل کرنے کی تیاری میں ہے۔
اس صورت حال میں یہ بحث پیدا ہونا فطری بھی ہے کہ ایک ہی معاملے کے ملزمین پر ایک ہی ساتھ کیا ان دونوں قانون کا اطلاق صحیح ہے ؟ اس موضوع پر گفتگو کرنے سے قبل اگر ہم اس ظالمانہ قانون کے متعلق کچھ معلومات بہم بھی حاصل کرتے چلیں تو خصوصی عدالت کے حکم اورمذکورہ قانون کے بے استعمال کی نوعیت مزید واضح ہوجائے گی۔۱۹۹۹ء میں جب مہاراشٹر میں شیوسینا بی جے پی کی حکومت قائم ہوئیتھیتو اس وقت آرگنائزڈ کرائم یعنی منظم جرائم پر لگام لگانے کے لئے مکوکا( Maharashtra Control of Organised Crime Act) قانون بنایا گیا تھا،جس کامقصد انڈر ورلڈ سے جڑے مجرموں پرلگام لگانا تھا۔ اس قانون کی منظوری کے وقت حکومت نے ایک وضاحت نامہ بھی جاری کیا تھا ، جس میں اس قانون کے مقاصد بیان کئے گئے تھے۔ حکومت نے کہا تھا:
گزشتہ چند برسوں سے منظم جرائم ہمارے سماج کے لئے ایک سنگین خطرے کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔کرائے پرقتل، ہفتہ وصولی، اسمگلنگ، منشیات کا کاروبار، اغواء اور حوالہ وغیرہ سے حاصل ہونے والی رقم اس کے لئے ایندھن کا کام کررہی ہے۔ منظم جرائم سے پیدا ہونے والی ناجائز اور سیاہ دولت ہماری معیشت پر کافی نقصان پہونچا رہی ہے ۔ منظم جرائم پیشہ گروہ دہشت گرد گروہوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں جس کے تار ہمارے قومی سرحدوں سے باہر تک پھلے ہوئے ہیں۔ منظم جرائم پیشہ گروہ ریاست میں سرگرم ہیں اور ان کی سرگرمیوں سے نمٹنے کی فوری ضرورت ہے۔ موجودہ قانونی ڈھانچہ یعنی سزا اورعمل سے متعلق قانون اور عدالتی نظام اس منظم جرائم کو روکنے یا پھر اس پر لگام لگانے کے لئے ناکافی ہیں۔ اس لئے حکومت نے فیصلہ کیا کہ ایک خاص قانون بنایا جائے ، جس میں سخت سزاؤں کی تجویز ہو اور مذکورہ سرگرمیوں میں ملوث لوگوں میں ڈر پیدا ہو۔
مذکورہ بالا حکومتی بیان میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ مکوکا قانون منظم جرائم میں ملوث لوگوں کو دوسرے لفظوں میں انڈرولڈسے وابستہ لوگوں پر لگام لگانے کے بنایا گیا تھا۔ اس کا خاطر خواہ فائدہ بھی ہوا اور ممبئی سے انڈرورلڈکے قدم اکھڑ گئے۔آرگنائزڈ کرائم سنڈیکیٹ یعنی منظم جرائم کا گروہ چلانے کے لئے کم سے کم دو شخص کا ہونا ضروری ہے ، جبکہ اس قانون کے تحت کسی ملزم کے خلاف اسی وقت کیس درج کیا جاسکتا ہے کہ جب کہ گزشتہ 10 سال کے دوران اس نے کم سے کم دو منظم جرائم کئے ہوں اور اس کے خلاف ایف آئی آر کے بعد چارج شیٹ بھی داخل ہوئی ہو، نیز ملزم کے خلاف کوئی ایسا کیس درج ہوا ہو، جس میں کم سے کم تین سال قید کی سزاتجویز ہو۔ کالعدم قانون ٹاڈا اور پوٹا کی ہی طرح اس قانون میں بھی ضمانت کی کوئی تجویز نہیں ہے ۔ تفتیش کے بعد اگر پولیس یا تفتیشی ایجنسی 180دنوں(جبکہ آئی پی سی میں اس کی مدت 60سے 90دن ہے) میں ملزم کے خلاف عدالت میں چارج شیٹ داخل نہیں کرتی ہے تو اس صورت میں ملزم کو ضمانت دی جاسکتی ہے۔ اس قانون کے تحت کم سے کم سزا پانچ سال ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ پھانسی ہے۔ 2002میں اس قانون کو دہلی حکومت نے بھی لاگو کردیا تھا۔ فی الوقت دو ریاستوں مہاراشٹر اور دہلی میں یہ قانون نافذ ہے۔
اس قانون میں کچھ دفعات اس قدر خطرناک ہیں کہ جن کے تحت گرفتار ملزم کی رہائی تقریباً ناممکن ہوجاتی ہے۔اس کی سب سے خطرناک شق ایس پی یا ڈی ایس پی درجے کے کسی پولیس آفیسر کے سامنے ملزم کا دیا گیا اقبالیہ بیان ہے ،جو عدالت میں ملزم کے خلاف ثبوت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے ۔ 1987میں بنے ٹاڈا اور 2002میں بنے پوٹا قانون میں بھی یہ شق موجود تھی، جس کا پولیس کی جانب سے بے قصوروں کوپھنسانے کے لئے خوب دھڑلے سے استعمال ہوا۔ 1995میں ٹاڈا اور 2004میں پوٹا ختم ہوگیا ،مگر 1999میں بنا مکوکا قانون آج بھی نافذ ہے۔ اس قانون میں اقبالیہ بیان کی شق پوٹاسے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ پوٹا میں اقبالیہ بیان صرف دینے والے کے خلاف ثبوت کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا، جبکہ مکوکا میں یہ ان تمام لوگوں کے خلاف بھی ثبوت مانا جاتا ہے جن پر مذکورہ معاملے میں سازش رچنے یا مدد پہونچانے کا الزام ہو۔ اس لحاظ سے یہ ایک ایسا خطرناک اور سفاک قانون ہے کہ ایک بار جو اس کی گرفت میں آگیا اس کی زندگی کے کم ازکم پانچ سال سلاخوں کے پیچھے گزرہی جاتے ہیں۔
مکوکا کے اس اجمالی تذکرے کے بعد اب آئیے اس کے بے جا استعمال کا بھی تذکرہ کرتے چلیں۔ مکوکا گوکہ انڈرورلڈ کی سرگرمیوں پر روک لگانے کے لئے بنایا گیا تھا ،اس کا استعمال خاص طور سے ان مجرمین پر ہوتا تھا، جو اپنی منظم مجرمانہ سرگرمیوں کے ذریعے دولت کماتے تھے۔پولیس اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ مکوکا کے تحت درج مقدمے میں ملزم کو ضمانت نہیں مل سکتی اور جب تک کہ معاملے کی سماعت مکمل نہ ہوجائے یا ملزم عدالت میں جب تک اپنے آپ کو بے قصور ثابت نہ کردے ، اس کو رہائی نہیں مل سکتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پولیس نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ملزمین پر بھی اس قانون کا بے جا استعمال کرنا شروع کردیا۔ 2006میں ہوئے دہشت گردانہ وارداتوں، اورنگ آباد اسلحہ ضبطی، ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ ، 2008کے انڈین مجاہدین کیس ، ممبئی زویری بازار ودیگر مقامات پرہوئے بم دھماکوں وجنگلی مہاراج روڈ بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار تقریباً ۷۲لوگوں پر اس قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔اسی کے ساتھ مذکورہ ملزمین پر یواے پی اے کے تحت بھی معاملہ درج کیا گیا ہے۔ 2006میں ہوئے مالیگاؤ ں بم دھماکوں اور لوکل ٹرین بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار ملزمین پر مکوکا عائد کئے جانے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا،مشہور وکیل شانتی بھوشن کے ذریعے سپریم کورٹ دہشت گردانہ وارداتوں کے ملزمین پر مکوکا لگائے جانے کو چیلنج کیا گیا تھا، جس پر سرکاری وکیل ہریش سالوے نے عدالت کے سامنے یہ وضاحت کی تھی کہ مکوکا انڈرورلڈ کے جرائم پر قابو پانے کے لئے بنایا گیا ہے جبکہ یواے پی اے دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے اور یہ کہ دونوں قانون ایک ہی ملزم پر ایک ساتھ نہیں لگائے جاسکتے ۔
سپریم کورٹ میں ریاستی حکومت کے اس موقف کے بعد دہشت گردانہ وارداتوں میں گرفتار ملزمین پر نہ صرف یہ کہ مکوکا کے تحت معاملے درج کئے گئے ، بلکہ یو اے پی اے کے تحت بھی ان پر الزام عائد کیا گیا۔ چونکہ سپریم کورٹ میں ہریش سالوے کے ذریعے ریاستی حکومت کا حلف نامہ موجود تھا، اس لئے دہشت گردی کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکلاء نے اسے عدالت کے روبر پیش کیا ۔ جمعیۃ علماء( محمود مدنی) جو پونے جنگلی مہاراج روڈ کے مقدمے کی مفت قانونی پیروی کررہی ہے ، اس کے وکیل تہور پٹھان کے مطابق اس معاملے میں واضح طور پر پولیس کی جانبداری جھلکتی ہے۔ ایک جانب ریاستی حکومت سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرتی ہے کہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ملزمین پر مکوکا کے تحت کیس درج نہیں ہوگا کیونکہ یو اے پی اے میں اس کے لئے بیشتر دفعات موجودہیں اور دوسری جانب محض طویل عرصے تک جیل میں رکھنے کے لئے ملزمین پر مکوکا لگایا گیا۔یہ ایک ایسی ریاست میں ہورہا ہے ، جو اپنے آپ کو سیکولر کہلاتی ہے۔
جنگلی مہاراج روڈ کے ملزمین کے اوپر سے مکوکا ہٹائے جانے کا خصوصی عدالت کے فیصلہ ایک سبیل ہوسکتا ہے ان تمام ملزمین کے اوپر سے مکوکا ہٹانے کا جن پر یواے پی اے کے تحت بھی کیس درج ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ایک بڑا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ملزمین کے ساتھ جانبداری برت رہی ہے؟ یہ سوال اس لئے بھی پیدا ہوتا ہے کیونکہ حکومت خود اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ یواے پی اے اور مکوکا کا اطلاق ایک ساتھ نہیں ہوگا۔ اس کے باوجود اگر ریاستی پولیس ان دونووں قانون کا ایک ساتھ اطلاق کرتی ہے تو اس غیرقانونی عمل کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟ اس کے علاوہ جب وہ مقصد حاصل ہوگیا جس کے لئے مکوکا بنایا گیا تھا، تو پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پھر اسے کالعدم کیوں نہیں قرار دیا جاتا ؟ ایسی صورت میں جب دہشت گردی کے معاملات سے نمٹنے کے لئے حکومت کے پاس اس سے بہتر قانون موجودہو؟
قصہ مختصر یہ کہ ریاستی حکومت اور پولیس کے ذریعے مکوکا کا بے جا استعمال ہورہا ہے اور یہ استعمال غیر قانونی بھی ہے اور غیر انسانی بھی۔ وہ تو بھلا جمعیۃ علما(محمود مدنی) مہاراشٹرکے صدر حافط ندیم صدیقی کا کہ جن کی مسلسل کوششوں سے اس کے وکلاء نے اسے ٹیکنیکل گراؤنڈ پر عدالت کے سامنے پیش کیا ہے۔ اگر خصوصی عدالت کا مذکورہ بالا فیصلے کی توثیق عدالت عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ سے ہوجاتی ہے تو ریاستی حکومت کے پاس اس کا کیا جواز رہ جاتا ہے کہ محض دہشت گرد ی کے شک میں گرفتار بے قصوروں کی زندگیاں برسہا برس سے سلاخوں کے پیچھے اس کے بے جااستعمال کی وجہ سے سڑرہی ہے۔اس لئے اب یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ دہشت گردی کے ملزمین پر مکوکا اور یو اے پی اے کے تحت درج مقدمات پر نظرثانی کی جائے اور قانونی ماہرین اس سفاکانہ اور ظالمانہ قانون کو ختم کرانے میں اپنا رول ادا کریں۔
جواب دیں