محرم الحرام: صحابہ سے محبت کی تجدید اورحسینی ایمان کے محاسبہ کاپہلا اسلامی مہینہ ہے؟!

 

از: ڈاکٹر آصف لئیق ندوی،ارریاوی

            دس محرم الحرام سن 61 ہجری یعنی آج سے تقریبا پونے چودہ سو سال قبل شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا پیش آنے والا واقعہ جتنا اندوہناک اور کربناک ہے، اس سے کہیں زیادہ انکی شہادت کے نام پر ہو رہی معاشرہ میں جہالت ورزالت اور بے راہ روی وگمراہی افسوسناک اور المناک ہے!! جس سے اجتناب و احتراز ہر مسلمان مردوعورت کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس ماہ میں عزم و حوصلہ پیداکرنے اور نیکیوں کے حصول میں سبقت کرنے کے بجائے محرمات یعنی صحابہ کرام کی شان ومنزلت میں گستاخی،بغض وحسد کے اظہار اور بے جا رسم ورواج کی ترویج و اشاعت میں ملوث ہوکرہم اپنی کمائی نیکیاں ضائع کررہے ہیں جو مسلم معاشرے کے لیے بڑی محرومی کی بات ہے، جن سے توبہ و استغفار کرنا اور دوبارہ اسکونہ کرنے کا عزم مصمم کرناہر مسلمان بالخصوص ملوث افراد پرلازم ہے، اوریہ یادرکھنا کہ شہادت کامرتبہ بہت اونچا ہے، اسکا جذبہ پیداکرنا اور ضرورت پڑے توحضرت حسین رضی اللہ عنہ کیطرح دین کی سربلندی کے لیے قربان ہو جاناعین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے۔ڈاکٹر علامہ اقبال علیہ الرحمہ کا شعر ہے کہ

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن

نہ  مالِ  غنیمت  نہ  کِشور  کشائی

            تاریخ گواہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اسلامی شعائر و اصول کی بقا وتحفظ اور اسکی سربلندی کی خاطر شہادت کا جام پی لینا گوارا تو کیا! مگر ناحق و باطل کیساتھ سانٹھ گانٹھ اور یزید کے ہاتھوں پر بیعت کے کسی بھی امکان کو یکسر مسترد کرکے رکھ دیا اور اسلام کے لیے مرجانا پسند تو کیا! مگر اسلامی تعلیمات کاسودا نہیں کیا اورحق تلفی و ناانصافی اور ظلم و زیادتی کے ماحول و معاشرے میں زندہ رہناپسند نہیں کیا اور قیامت تک کی آنے والی نسلوں اور پوری امت مسلمہ کو اپنی شہادت سے یہ عظیم سبق اور انقلابی پیغام سنا دیا کہ

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد!!

            مگر افسوس کہ ہم لوگ اب بھی انکی شہادت وقربانی کے اہداف و مقاصد سے بالکل غافل نظر آرہے ہیں اور جہالت و ضلالت کا طریقہ اپنا کر حضرت حسین کے زخم پر نمک چھڑک رہے ہیں اور عظمائے اسلام اور محافظین دین اور اسکے قلعوں اور میناروں کو ہی ڈھا دینا چاہتے ہیں اور صحابہ کی کردار کشی اور اسلام کے اولین محافظین کی برائیاں بیان کرکے  اپنی ہی نیکیان گنوا رہے ہیں اور اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی چلارہے ہیں، حضرت حسین رض کیلیے ماتم ونوحہ خوانی اور سینہ کوبی جیسے جاہلی اعمال پر عمل پیرا ہو کرجہاں انکی روح کو تکلیف پہونچا رہے ہیں اور انکی سیرت واقوال کے سراسر منافی کارنامہ انجام دے رہے ہیں تو دوسری طرف اسلام کے روشن ستاروں اور حضور کی تربیت یافتہ بہترین جماعت کو فاسق و فاجر اور کافر و ظالم گرادن کراپنی عاقبت خراب کررہے ہیں، صحابہ کو گالیاں دینا کسی سنی مسلمان کاشیوہ نہیں ہوسکتا پھر شیعہ حضرات جو ہمارے آباء و اجداد کو بالخصوص محرم الحرام میں خوب گالیاں دیتے ہیں ہم سنی مسلمان گناہوں میں شیعوں کی اتباع کیوں کریں؟ اور اپنی عاقبت کیوں خراب کریں؟ غلط فہمی کیوجہ سے ہم اسے اپنی کامیابی و نیک بختی کا زینہ سمجھ رہے تھے؟ جب کہ وہ اعمال اسلام کے بالکل منافی اور اہل سنت والجماعت کے عقیدے کے سراسر خلاف ہے،اپنے عقیدہ و ایمان کی فکر کیجئے۔ شہادت و وفات کا سوگ مردوں اور خواتین کے لیے صرف تین دن اور بیوہ عورت کے لیے چار ماہ دس دن ہے۔ اس سے بڑھ کر سوگ منانا جاہلیت کا عمل ہے، اسلام کا اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ خواہ وہ شیعہ حضرات کریں یا سنی مسلمان!! کسی کو بھی پونے چودہ سو سال سے زاہد کے عرصے سے ماتم منانے کی اجازت نہیں ہوسکتی! اگر اسکی اجازت ہوتی تو حضورکی وفات پر ہم لوگ آنسووں کی ندیاں بہادیئے ہوتے!!

            مگر افسوس!ستم بالائے ستم یہ ہے کہ سوگ اور ماتم میں اتنا غلو اور افراط و تفریط کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ایک مخصوص فرقے کے لوگ چند صحابہ و صحابیہ کو چھوڑ کر بیشتر خلفاء، جملہ صحابہ و صحابیات، ازواج مطہرات اور اہل بیت کی شان و منزلت پر قصدا حملے کر کے اسلام کی بنیادیں متزلزل کر رہے ہیں اور انکے کردار و اخلاق کیساتھ مذاق و کھلواڑ کرکے اپنی کم بختی اور بے وقوفی کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں اور اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرکے اپنے ایمان و عقیدہ کا ہی سودا کررہے ہیں۔ اولین مربین اسلام یعنی صحابہ کرام کیخلاف جو نازیبا الفاظ، جاہلانہ سلوک، گستاخانہ برتاؤ اور نفرت آمیز رویہ اپنا رہے ہیں، بالخصوص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو بے انتہاء دشمنی و عناد کو اپنا وطیرہ اور اسکو کار خیر سمجھ کر غلو سے کام لے رہے ہیں اور دیگر صحابہ کی تحقیر و تذلیل اور تکفیر و تفسیق کو اپنے ایمان کا حصہ تصور کر رہے ہیں، یاد رکھیں! اس سے صحابہ کے مرتبے اور انکی شان و منزلت میں کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے، جنکی ایمانداری اور دیانتداری پر قرآن شاہد ہے، خدا کا فرمان گواہ ہے اور رسول کے ارشادات سندی درجہ رکھتے ہیں، مگر اس سلسلے میں شیعوں کا رویہ اور صحابہ کی غلط تصویر کشی اور انکو لعن طعن کرنا قابل ملامت ہے، شیعیت کے غلط منشا کی عکاسی ہے، صحابہ کی شان و منزلت پر کوئی آنچ والا نہیں ہے!! بلکہ برا کہنے والا کا الٹا منہ اور دل کالا ہو رہا ہے۔۔۔اور مظلومین کے ثواب میں خوب اضافہ اور صحابہ کرام کے درجات اور بھی بلند ہورہے ہیں۔۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز۔۔اسطرح صحابہ کی نیکیوں میں انباراور ہمارے گناہوں میں اضافہ ہورہا ہے۔یہ مہینہ صحابہ کے احسانات کو یاد کرنے اور انکی محبت کا آغاز کرنے اور انکی سیرت وزندگی میں ڈھلنے کاپہلا اسلامی مہینہ ہے نہ کہ انکی برائی بیان کرنے کا مہینہ ہے۔جیسا کہ شیعوں کے اعمال سے خوب ظاہر ہوتا ہے۔

            جب کہ خودحضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت سے قبل ان امور جاہلیہ کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے شدت سے اسکی ممانعت فرمادی تھی اور اپنی پیاری بہن سیدہ زینب رض کو سب کچھ وصیت کردی تھی کہ ''اے میری پیاری بہن! خداسے ڈرنا اور خدا کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہی تعزیت کرنا۔۔۔ خوب سمجھ لو۔ تمام اہل زمین مرجائیں گے، اہل آسمان باقی نہ رہیں گے، میرے نانا، میرے بابا، میری والدہ اور میرے بھائی سب مجھ سے بہتر تھے۔ میرے اور ہر مسلمان کے لئے رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ صلعم کی ہدایات ہی بہترین نمونہ ہیں۔ تو انہی کے طریقہ کے مطابق ہماری تعزیت کرنا، حضرت حسین رض نے مزید فرمایا کہ اے ماں جائی بہن! میں تجھے قسم دلاتا ہوں، میری قسم کی لاج رکھتے ہوئے اسے ضرور پورا کر کے دکھانا، میرے مرنے پر اپنا گریبان نہ پھاڑنا اور میری موت پر اپنے چہرہ کو نہ خراشنا اور نہ ہی ہلاکت اور بربادی کے الفاظ وغیرہ بولنا۔ (الارشاد للشیخ مفید ص 232، فی مکالمۃ الحسین مع أختہ زینب، کتاب اعلام الوریٰ ص 236 أمر الامام أختہ زینب بالصبر۔ کتاب جلاء العیون جلد 2، ص 553 فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران، اخبار ماتم ص 399)''۔جس خدشے کا اظہار حضرت حسین رض نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے کیا تھا کہ میری قوم کے لوگ ایسا دیوانہ و جاہل نہ بن جائے کہ غم کے مارے سینہ کوبی، ماتم و نوحہ گری، مرثیہ خوانی، مصیبت پر صبر کرنے کے بجائے جاہلیت کا طریقہ ہی اختیار کرلے اور مصائب اہل بیت کو یاد کرکے ہائے ہائے اور واویلا مچائے! چہرے یا سینے پر طمانچے مارے! کپڑے پھاڑے! اپنے بدن کو زخمی کرے! جزع فزع شروع کردے۔ آخر کار منع کرنے کے باوجود بھی مسلم قوم اسی جاہلیت والے اعمال میں پڑ گئی اور اپنے رویے سے بنی اسرائیل کو بھی مات دے گئی، یہ ہے وہ عمل جو صبرکے خلاف ہے، شہادت کے مرتبے کی توہین ہے،اسلامی تعلیمات کے مغائر ہے اور ہرطرح سے ناجائز اور حرام ہے۔ جس سے اجتناب ہر مسلمان مردوعورت پر واجب ہے۔

            نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر حضرت حسین کے والد ماجد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کے جسم اطہر کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ''لولا أنک أمرت بالصبر ونھیت عن الجزع لانفدنا علیک ماء الشؤن'' ترجمہ: یارسول اللہ! اگر آپ نے ہمیں صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور ماتم کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپ کا ماتم کر کے آنکھوں اور دماغ کا پانی خشک کردیتے۔ (شرح نہج البلاغہ لابن میثم شیعہ، ج 4، ص 409، مطبوعہ قدیم ایران)۔اسی طرح جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واضح ارشاد نقل فرماتے ہیں: کہ''لیس منا من ضرب الخد وشق الحیوب ودعا بدعوی الجاھلیۃ''۔ ترجمہ:وہ ہم میں سے نہیں جو منہ پیٹے، گریبان پھاڑے اور ایام جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرے (بخاری حدیث 1297، مسلم حدیث 103، مشکوٰۃ حدیث 1725، کتاب الجنائز باب البکاء)۔انہیں گمراہیوں کے باعث اہل سنت والجماعت کے ائمہ و اکابرین علماء نے بالاتفاق شیعیت کو گمراہ کن فرقہ قرار دیا ہے اور جارحانہ عقیدہ و ایمان کیوجہ سے خارج عن الاسلام اور اہل سنت والجماعت سے باغی جماعت بتلایا ہے، اس پر بڑے بڑوں کے فتاوے بھی ہیں اور اس پر مہر بھی ثبت کردی گئی ہے، شیعیت کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جب کہ مسلمان الگ قوم اور شیعہ الگ فرقہ سمجھا جاتا ہے۔ شیعہ حضرات تو اپنے آپ کو الگ فرقہ سمجھتے ہوئے اور شام، عراق، یمن، لبنان وغیرہ میں سنیوں کا خوب خون بہا رہے ہیں، اور ہم ان کے باطل عقیدے کے خوگر بنے ہوئے ہیں، شیعوں نے دسیوں لاکھ سنیوں کو موت و شہادت کے گھاٹ اتار دیا ہے اسی طرح دسیوں لاکھ سنیوں کو مہاجرین اور دربدر کی زندگی گزارنے پر مجبور بنا دیا ہے۔ شام کی خون آشام جنگیں اسکی تازہ مثال ہیں۔ جو ہمارے سامنے ہیں۔ مگر ہم سنی مسلمان انکے مظالم و جرائم کے باوجود انکی خباثت و رزالت کا اب تک بوجھ ڈھو ئے جارہے ہیں اور بالخصوص محرم الحرام کے مہینہ میں ان محرمات اور شیعت کے باطل عقیدے کا قولا فعلا اور عملا ارتکاب کر رہے ہیں اور اپنے سماج و معاشرہ سے محرم الحرام کے تہوار کا خاتمہ اور باطل رسومات و رواج کا قلع قمع کرنے کے بجائے اسکی ترویج و اشاعت کر رہے ہیں۔ اس طرح ہم دانستہ یا نادانستہ طور پر قرآن و سنت کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور صحابہ و صحابیات کی قربانیوں پر تیزاب ڈال رہے ہیں۔ صحابہ کرام کی محنتوں اور قربانیوں کی وجہ سے یہ دین بحفاظت وسلامت ہم تک پہونچ سکا ہے اور ہم اپنے عمل و کردار سے اسی قلعے اور پل کو منہدم کردینا چاھتے ہیں۔ اسپر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ بہت کم ہے!!ہمیں چاہیے کہ ہم صحابہ سے اس ماہ محرم میں محبت وعقیدت کی تجدید کریں اورحسینی ایمان کاخوب محاسبہ کریں، اسلام کے پہلے مہینہ سے ہم اپنی محبت وعقیدت کا آغاز کرکے سال کی انتہا تک انکی سیرت پر چلتے رہیں۔تاکہ اسلامی مہینہ کی ابتدا بہترین ہو تو انجام بھی کارآمد رہے۔

            محرم الحرام بالخصوص عاشورہ کے دن آگے پیچھے کے کسی یوم کو جوڑ کر روزہ رکھنا (تاکہ یہودیوں سے مشابہت نہ ہو سکے)، اس دن اچھا کھانا پینااپنے اہل و عیال کو کھلانا اور عبادت و ریاضت میں زیادہ مشغول رہنا۔۔۔ مسنون، مستحب اور مستحسن عمل ہے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی ہے، مگر ڈھول تماشہ کرنا، ڈی جے بجانا اور ماتم ونوحہ خوانی کرنا، تاش اور جوا کھیلنا، شراب اور گانجا نوشی کرنا سراسر حرام اور بیہودہ عمل ہے، دین میں بدعات وخرافات پیدا کرنا ناجائز و ممنوع ہے، جس کا مذہب اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے، اہل سنت والجماعت کے ائمہ کرام، اکابرین علماء اور مفتیان عظام کا اس کے خلاف فتوی بھی صادرہے کہ کسی طرح سے شیعیت کی مشابہت اختیار کرنا ہم مسلمانوں کے لیے ممنوع و ناجائز ہے، غیر شرعی اور غیر اسلامی عمل ہے، جسکا صدور نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی کسی صحابہ سے ثابت ہے، جبکہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ حق پر مبنی ہے، محرم نہ تو کوئی اسلامی تہوار ہے اور نہ اسکے منانے کا شریعت میں کہیں سے اجازت ملتی ہے، قرآن و سنت کے منافی عمل کو اختیار کرنے والا منافق ہے، زندیق ہے، اور خارج عن الاسلام بھی۔

 

             کسی طرح سے مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ باپ دادا کے وقت سے چلے آرہے عمل کو درست سمجھے، باطل باطل ہے اور حق حق ہے، کسی کے عمل سے اس کے جواز کی دلیل اخذ کرنا یہی گمراہی اور ضلالت ہے، اس کی طرف کسی کو دعوت دینا بھی غیر اصولی بات ہے، قوم و معاشرے کے علماء کرام کے سمجھانے اور ممنوع قرار دینے کے بعد  بہرہ بن جانا، سیاسی شعبدہ بازوں کا اس غلط رسم و رواج کا قلع قمع کرنے کے بجائے اپنے معاشرے میں کم پڑھے لکھے لوگوں کو لے کر اس عمل کو بڑھاوا دینا، اسکے لیے تیار کرنا اور اس کو اپنے بل بوتے پر زندہ رکھنے کے لیے لوگوں کو میدان کربلا میں اتارناشرعاً حرام ہے جس سے اجتناب واجب ہے اور جان بوجھ کر گناہ پر اصرار کرنا ایمان و عقیدے کے بالکل منافی ہے، صحابہ کیساتھ بغض و عناد کی پہچان ہے، شیعیت کے باطل وگمراہ عقیدے کی ترویج و اشاعت کے مماثل ہے، جس سے توبہ و استغفار واجب ہے، دوبارہ اسے اختیار نہ کرنے کا رب سے معاہدہ کرنا ضروری ہے، ایمان و عقیدے کی درستگی کے لیے خدا سے معافی طلب کرنا ہر شخص پر لازم ہے، جو حضرات اس غلط کام کا کسی طرح سے بھی حصہ بنے ہیں یا انہوں نے اپنی شرکت درج کرائی ہو، یا اپنی زمین کا حصہ کربلا کے طور پر استعمال کی اجازت فراہم کی ہو یا اپنی اولاد کو اس میں شریک ہونے کی ترغیب دی ہو اور اس میں شرکت سے منع بھی نہیں کیا ہو اور جو جو لوگ اس پروگرام کے انعقاد کا  حصہ بنے ہوں انکے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ فورا توبہ واستغفار کرلیں،  ایسی صورت میں والدین کے ساتھ ساتھ بیٹے کو بھی توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور خدا سے آئندہ کے لئے سچی معافی طلب کرنی چاہیے اور ایسے لوگوں کا سماجی، دینی، اخلاقی اور سیاسی بائیکاٹ کرنا چاہیے، جنہوں نے اس کے انتظام و انصرام کا کارنامہ انجام دیا ہو۔۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

05 ستمبر۲۰۲۰

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے