موہن بھاگوت کی بم دھماکوں میں شمولیت

یہ الگ بات ہے کہ ان اعترافات کے بعد بھی آرایس ایس اور موہن بھاگوت کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑاتھا اور دہشت گردی کے الزام میں مسلمانوں کی گرفتاریاں اور دہشت گردی سے مسلمانوں کو جوڑنے کی کوششیں ہنوز کی جاتی رہیں اور جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔کارواں میگزین میں 1فروری2014کو اسیمانندکے انٹرویو کی اشاعت کے بعد اگر ایک جانب اپنے آپ کو سیکولر کہلانے والی پارٹیاں بظاہر آر ایس ایس کے خلاف تال ٹھوک کر میدان میں نظرآنے لگی ہیں،تو وہیں اسیمانند کے انٹریو کی انکوائری اور موہن بھاگوت کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا جانے لگا ہے ،جس کو ہم منہ کا مزا تبدیل کرنے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
حقیقت یہ ہے انکوائری اور گرفتاری کے یہ اعلانات محض عوام کو دھوکہ دینے کے لئے ہے ۔یہ بات اس لئے بھی کہی جاسکتی ہے،کیونکہ اس سے قبل جب اسیمانند نے عدالت کے روبرو اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ دھماکوں میں آر ایس ایس کے کئی بڑے عہدیداران کی راست شمولیت ہے ، تواس وقت بھی انکوائری اور کارروائی کا اعلان ہوا تھا اور جس کے نتیجے کے طور پر آر ایس ایس سے جڑے چند پیادوں کو گرفتار کرکے دہشت گردی کے رخ کو پھر مسلمانوں کی جانب موڑ دیا گیا تھا۔ اسیمانند کے اس حالیہ اعتراف سے مسلمانوں پر لگایا جانے والا دہشت گردی کا داغ کس حد تک دھلے گا؟ جیلوں میں قید بے قصور مسلمانوں کو اس سے کس حد تک راحت ملے گی؟ یا پھر اس سے ملک کو درپیش حقیقی دہشت گردی سے کس حد تک چھٹکارا ملے گا؟ اس کے جوابات دینے کے بجائے ہم چند سال پیچھے جاکر آر ایس ایس کی دھماکوں میں شمولیت اور آر ایس ایس سے جڑے دہشت گردوں کے اعترافات پر ایک نظر ڈال لیں تواس کے جوابات خودبخود طئے ہوجائیں گے۔
دہشت گردانہ وارداتوں میں آرایس ایس کے عہدیداران اور موہن بھاگوت کی شمولیت2009میں اس وقت بھی سامنے آئی تھی جب مالیگاؤں 2006کے بم دھماکوں کے الزام میں دیانند پانڈے کو مہاراشٹر اے ٹی ایس کی ٹیم نے ہیمنت کرکرے کی سربراہی میں گرفتار کیا تھا۔دیانند پانڈے نے اے ٹی ایس کے سامنے دئے گئے اپنے بیان میں اس بات واضح اعتراف کیا تھا کہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے مالیگاؤں، حیدرآباد اور سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے کرانے کے لئے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے پیسے لئے تھے۔پانڈے کے مطابق اگست2008 میں شیام آپٹے نے مجھے اندریش کمار (مسلم راشٹریہ منچ کے سربراہ) سے پیسوں کے لین دین کے بارے میں بتایاتھا(http://zeenews.india.com/Nation/2009-02-18/508735news.html)۔ اس کے بعد سوامی اسیمانند نے دہلی کے تیس ہزاری عدالت میں 18دسمبر 2010کواور ہریانہ کے پنچ کولا عدالت میں د15جنوری 2011کوھماکوں میں آر ایس ایس کے عہدیداران کی شمولیت کا واضح اعتراف کیا تھا۔ اسیمانند کا یہ اعترافی بیان جج کے روبرو دفعہ 164کے تحت ریکارڈ کیا گیا تھا۔ دیکھئے عدالت کے سامنے اسیمانند نے کیا کہا:
’’2005 میں شبری دھام میں اندریش جی آئے تھے، جو آرایس ایس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ہیں۔ ان کے ساتھ آرایس ایس کے بڑے بڑے عہدے دار بھی تھے۔ آرایس ایس کی سورت کی میٹنگ کے بعد یہ لوگ شبری دھام درشن کیلئے آئے تھے۔ اس کے بعدپمپا سرور میں، جہاں شبری کمبھ منعقد ہوا تھا، ایک خیمے میں اندریش جی ہم کو ملے تھے۔ اس وقت سنیل جوشی بھی وہاں تھا۔ اندریش جی نے ہم سے کہا کہ جو آپ بم کا جواب بم سے دینے کی بات کرتے ہیں، وہ آپ کا کام نہیں ہے۔… آپ جو سوچ رہے ہیں، اسی طرز پر ہم بھی سوچ رہے ہیں۔ سنیل کو اس کام کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ اندریش جی نے کہا کہ سنیل کو جو مدد چاہئے، وہ ہم دیں گے۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ سنیل جوشی بھرت بھائی کے ساتھ ناگپور میں اندریش سے ملے تھے اور اندریش جی نے بھرت بھائی کے ساتھ سنیل کو 50ہزار روپئے دئیے تھے۔ کرنل پروہت نے مجھے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ اندریش جی آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہیں۔ ان کے پورے ڈاکیومینٹ اس کے پاس ہیں،(تہلکہ میگزین، جلد نمبر8، شمارہ نمبر2، 15جنوری2011)‘‘
کارواں میگزین میں 1فروری2014کو اسیمانند کا اعترافی انٹرویو کو تیس ہزاری کورٹ اور پنچ کولا کورٹ میں دئے گئے بیانات کا چربہ کہا جاسکتا ہے۔جس وقت اسیمانند کا یہ عدالتی اعتراف نامہ سامنے آیاتھا، اس وقت بھی حکومت کی جانب سے اس کی انکوائری کی بات کہی گئی تھی ، مگر اس کی کیا انکوائری ہوئی؟ آر ایس ایس کے بڑے عہدیداران کون تھے جو شبری دھام میں اسیمانند سے ملے تھے ، ان کا آئی ایس آئی سے کیا تعلق تھا اور انہوں نے دہشت گردی کے لئے آئی ایس آئی سے کتنا پیسہ لیا تھا؟ ان تمام باتوں پر ہنوز پردہ پڑا ہوا ہے۔اب جبکہ اسیمانند نے پھر انہیں باتوں کا اعادہ کیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیاکی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم اور اس کے سربراہ موہن بھاگوت کے خلاف کسی طرح کی کوئی کارروائی ہوگی؟یہ سوال اس لئے بھی پیدا ہوتا ہے کہ مرکزی وزیرداخلہ سشیل کمار شندے نے اس کی انکوائری کا اعلان کیا ہے ۔
اگر اس سوال کا جواب ہم ماضی کے تناظر میں ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو ذہن اس بات کو قبول نہیں کرتا کہ آر ایس ایس، موہن بھاگوت یا پھر اندریش کمار کے خلاف کوئی کارروائی ممکن ہے۔ کیونکہ بھلے ہی مرکز میں کانگریس کی حکومت ہے ، مگر عملی طور پر آرایس ایس ہی پوری حکومتی مشنری پر قابض ہے۔ کانگریس جو آرایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم بی جے پی سے ہرمحاذ پر دھوبی پچھاڑ کھارہی ہے ، بھلا وہ کیا آرایس ایس کے خلاف کوئی کارروائی کرپائے گی۔یہ وہی سشیل کمار شندے جی ہیں جو 19جنوری2013کو جئے پورمیں کانگریس کی چنتن بیٹھک میں بڑے ہی طمطراق سے آر ایس ایس اور بی جے پی کے کیمپوں میں دہشت گردی کے فروغ دئے جانے کا بیانات دیتے ہیں اور اس بات کا اعلان بھی فرماتے ہیں کہ حکومت کے پاس کے اس کے ثبوت بھی ہیں۔ اس کے بعد پھر یہی مہاشے ہیں ایک ماہ بعد پارلیمانی اجلاس شروع ہونے سے قبل20فروری2013کو اپنے بیان پر اس طرح اظہارِ ندامت فرماتے ہیں کہ پورے اجلاس کے دوران ان کا سراوپر نہیں اٹھتا۔ جس حکومت کا وزیرداخلہ اس قدر کمزور ہو کہ ثبوت وشواہد کی موجودگی میں کارروائی کرنے کے بجائے بیانات دیتا ہو، اس سے بھلا یہ کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ گرفتارشدہ ملزمین کے اعترافات کی بنیاد پر کوئی ٹھوس کارروائی کرسکے گا؟
یوں تو آر ایس ایس کی پوری تاریخ ہی فسطائیت اور دہشت گردی سے عبارت ہے ، اور اس کی ابتداء ہی دیش بھکتی کا لبادہ اوڑھے ہوئے دہشت گردی کے فروغ سے ہوتی ہے۔ ملک میں دہشت گردی کی اب تک جتنی بھی وارداتیں ہوئی ہیں ، ان تمام میں آرایس ایس سے وابستہ لوگ کسی نہ کسی طور پر ملوث رہے ہیں، چاہے وہ جالنہ پورنا کی مسجدوں میں دھماکہ ہو یا پھر بودھ گیا یا پٹنہ میں ہوئے بم دھماکے۔ آر ایس ایس دہشت گردی کے جن اصولوں پر قائم ہوئی تھی ، آج بھی اسی کو اپنائے ہوئے ہے ، بلکہ اس میں مزید شدت پیدا ہوئی ہے ۔ اس نے اپنے حلیفوں اور کارندوں کو اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز کروایا جس کی وجہ سے ملک کی زمامِ کار عملی طور پر اس دہشت گرد تنظیم کے ہاتھ آچکی ہے ۔آئینی، پارلیمانی اور حکومتی جوابدہی سے بلند آئی بی کا ادارہ آج مکمل طو رپر آر ایس ایس کے پرچارکوں کا آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔ پولیس وسیکوریٹی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر سنگھی فائز ہیں اور ملازمت سے فارغ ہوکر وہ نہایت دھڑلے سے آر ایس ایس کی سیاسی ونگ بی جے پی میں شریک ہورہے ہیں ۔ چاہے وہ فوج کے سربراہ وی کے سنگھ ہوں، کرن بیدی ہوں، مرکزی داخلہ سکریٹری آر کے سنگھ ہوں یا پھر ممبئی کے پولیس کمشنر ستیہ پال سنگھ ہوں۔
اس لئے یہ کہنا کہ مرکزی کانگریسی حکومت کا آر ایس ایس کے خلاف انکوائری اور کارروائی کے اعلان میں صداقت ہے ، رات کو دن تسلیم کرنے جیسا ہوگا۔ یوں بھی آر ایس ایس کی نظریاتی حلیف دہشت گرد تنظیموں (ابھینو بھارت اور سناتن سنستھا) وغیرہ پر تو یہ کانگریس ہزارہا ثبوتوں کے بعد بھی پابندی نہیں لگاسکی ، بھلا آر ایس ایس پر ہاتھ ڈالنے کا اس کے اندر کہاں سے جرأت پیدا ہوسکتی ہے؟ آر ایس ایس کی دہشت گردانہ حرکتوں کو مسلم رنگ دینے کے لئے ہی انڈین مجاہدین قائم کی گئی ہے ، جس کی اگر باریک بینی سے جانچ کی جائے تویہ بھی آرایس ایس کی دیگر ضمنی تنظیموں کی طرح یہ بھی ایک ضمنی تنظیم ثابت ہوگی۔ان حقائق کی روشنی میں یہ بات بغیر کسی تردد کے کہی جاسکتی ہے کہ دھماکوں کو موہن بھاگوت کی جانب سے ملنے والے آشیرواد کی انکوائری کا اعلان محض دکھاوا ہے ، جس پر نہ اعلان کرنے والے سنجیدہ ہیں اور نہ ہی وہ ایسا کرسکتے ہیں۔یہ انٹرویو، انکوائری اور کارروائی کا اعلان فرقہ پرستی اور سیکولرازم کے بازار میں اچھال پیدا کرنے کے نقطۂ نظر کی چغلی کھارہا ہے ۔اب جبکہ اسیمانند نے خود اپنے انٹرویو سے پلہ جھاڑ لیا ہے ،تو اس معاملے کو دفن ہی سمجھاجائے۔ اب ایک آخری سوال مرکزی حکومت سے، تفتیشی ایجنسیوں سے اور اس سے بڑھ کر اس ملک کی عوام سے۔ اگر اسیمانند کی جگہ کوئی سید فیصل ، یا محمد احسان ہوتا ، اور وہ کسی بڑے مسلم لیڈر کا نام لیتا تو منظرنامہ کیا ہوتا ؟ خود ہی طئے کریں۔

«
»

ہندوستان میں کاسہ بدست بچوں کی بہتات

جنیوا ٹو کی کامیابی کے امکانات کم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے