اس خبر میں یہ بھی لکھا تھا کہ مودی جی ان خطابات عام کے دوران دہلی واپس آنے کے بجائے پٹنہ میں قیام فرمائیں گے تاکہ آپسی جھگڑیمٹا سکیں تو اس سے بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ دال میں کالا ہے۔ ویسے جہاں مودی اور شاہ کی جوڑی موجود ہو جھگڑے آسانی سے لگ تو سکتے ہیں لیکن مٹائے نہیں جاسکتے۔
مودی جی نے اپنے جلسوں کو منسوخ کرکے اور پوسٹرس کے اوپر سے اپنی اور امیت شاہ کی تصاویر ہٹا کر عقل کے ناخون تو ضرور لئے ہیں اس لئے کہ فی الحال بہار میں ’’ بہاری اور باہری‘‘ کا نعرہ گونج رہا ہے۔ اس پر آئے دن لالو جی کوئی نہ کوئی نیا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں۔ پہلے تو انہوں نے اپنی اور نتیش کمار کی جانب اشارہ کرکے ارشاد فرمایا دو بہاری سپوتوں نے وزیراعظم سمیت ان کی کابینہ کے ۰۵ وزراء4 اور ۲۰۰ ارکان پارلیمان کو دوڑا رکھا ہے۔ اب سوال کردیا کہ جس طرح نقاب پوش وزیراعلیٰ کے ساتھ وزیراعظم اپنے بل بوتے پر انتخاب لڑا رہے ہیں ایسے میں اگر بی جے پی ہار جاتی ہے تو کیا وہ اس کی ذمہ داری لیتے ہوئے استعفیٰ دے دیں گے ؟ ایک بات تو طے ہے کہ بہار انتخاب کے بعد وزیراعظم کا نہ سہی تو امیت شاہ کا بوریہ بسترہ گول ہونا ہی ہونا ہے۔ ایسے میں وہ بیچارہ کہاں جائیگا یہ کہا نہیں جاسکتا اس لئے کہ سنگیت سوم اسے اترپردیش میں گھسنے نہیں دے گا۔ شاہ جی نے اس کے دادری جانے پر تنقیدجو کردی ہے اور ہاردک پٹیل اسے گجرات میں آنے نہیں دے گا اس لئے کہ بنیا سماج پٹیلوں کے خلاف ہے۔ امیت شاہ تو بیچارہ نہ گھر کا ہوگا اور نہ گھاٹ کا ممکن ہے اس صورت میں وہ اپنی پرانی کمین گاہ تہاڑ جیل کے اندر اپنے لئے محفوظ پناہ گاہ تلاش کرے۔
مودی جی بہار سے دہلی بھی اپنی حما قتوں سمیت آئے۔ دہلی میں انہوں نے اعلان فرمایا کہ یہاں میرے ساتھ اسٹیج پر پرکاش سنگھ بادل بیٹھے ہوئے ہیں جو ہندوستان کے نیلسن منڈیلا ہیں۔ یہ اپنے آپ میں ایک نہایت منفرد بیان ہے۔ ایک زمانہ تھا جب دنیا بھر کے لوگ اپنے رہنماوں کا موازنہ گاندھی جی سے کرکے فخر محسوس کیا کرتے تھے اور نیلسن منڈیلا کو بھی جب جنوبی افریقہ کا گاندھی کہہ کر پکارا جاتا تھا تو ان کا سر فخر سے اونچا ہوجاتا تھا۔نیلسن منڈیلااگر حیات ہوتے تو وزیراعظم کے ذریعہ بادل کے ساتھ اپنا موازنہ سن کر ان کا سر شرم سے جھک جاتا۔ گاندھی جی کا تو کیا ہے کہ ان کی اپنی ریاست کا ہاردک پٹیل علی الاعلان کہتا پھرتا ہے گاندھی کے راستے پر بہت چل کر دیکھ لیا۔ اس سے کچھ بھی نہیں ملا اب ہم بھگت سنگھ کا راستہ اپنائیں گے۔ وہ تو خیر ہاردک پٹیل نے مودی جی کی پیروی میں یہ نہ کہا کہ ہم پنجاب کے منڈیلا پرکاش سنگھ بادل کا راستہ اپنائیں گے۔
مودی جی کے اس بیان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یا تو وہ نیلسن منڈیلا کی انقلابی زندگی سے ناواقف ہیں یا پرکاش سنگھ بادل کے کالے کارناموں کو نہیں جانتے ورنہ یہ جرآت کبھی نہ کرتے۔ ان کے خیال میں ان دونوں رہنماوں کے درمیان قدر مشترک جیل جانا ہے۔ ممکن ہے آگے چل کر مودی جی کو بھی یہ سعادت نصیب ہوجائے تو کیا وہ دور جدید کے سبھاش چند بوس کہلائیں گے۔ دراصل جیل جانا اپنے آپ میں کوئی اہم بات نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں وہ خود لالو جی کے جیل جانے پر تنقید کر چکے ہیں لیکن جب لوگوں نے انہیں یاد دلایا خود امیت شاہ بھی جیل یاترا کر چکے ہیں تو ان کی زبان کو لگام لگ گئی۔ بادل سکھ پنتھ کی خاطر جیل گئے تھے اگر بادل اس بناء4 لائق تکریم ہیں تو سنت بھنڈارن والا نے سکھ پنتھ کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے کیا مودی جی ایوانِ پارلیمان میں ویر ساوکر کے بغل میں سنت بھنڈارن والا کا مجسمہ بھی نصب کروائیں گے۔
وزیراعظم کے بیان پر سنا ہے جنوبی افریقہ کی کسی عدالت میں ہتک عزت کا دعوی ٰ بھی درج ہوا ہیجبکہ وزیراعظم کے بیان پر ہندوستان میں ہتک عزت کا دعویٰ درج ہونا چاہئے اس لئے کہ پرکاش سنگھ بادل جیسے بدعنوان اور نااہل سیاستدان کو ہندوستان کا منڈیلا محض اس لئے قراردیا گیا ہیکہ وہ بی جے پی کا باجگذار ہے۔پنجاب کے عوام پرکاش سنگھ بادل کی اقرباء4 پروری سے نالاں ہیں۔ ان کا بیٹا نائب وزیر اعلیٰ اور بہو مرکزی وزیر ہے۔ بدعنوانی کے معاملات میں وجئے راجے سندھیا اور شیوراج سنگھ چوہان بھی ان کے آگے پانی بھرتے ہیں۔ ان کے دور میں پنجاب کے اندر منشیات کا استعمال اس قدر بڑھا ہے کہ ۴۰فیصد سے زیادہ نوجوان اس کا شکار ہو گئے ہیں۔ ابھی حال میں گرو گرنتھ صاحب کی بے حرمتی کو لے کر ریاست پنجاب میں جو بدامنی پھیلی ہوئی ہے۔ اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے وہ رام رحیم پنتھ کے لوگوں کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں جن پر اس مذموم حرکت کا الزام ہے۔ویسے مودی جی کو اس طرح کے واقعات سے کیا فرق پڑتا ہے ان کے اپنے حلقہ? انتخاب وارانسی میں فی الحال گنیش وسرجن کو لے سادھو سنتوں اور انتظامیہ کے دوران ٹھنی ہوئی ہے۔ سادھو سنت سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف گنیش کی مورتی گنگا میں ڈبونا چاہتے ہیں انتظامیہ روکتا ہے تو وہ اس سے بھڑ جاتے ہیں اور سارا شہر سر پر اٹھا لیتے ہیں لیکن مودی جی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔
وزیراعظم کو ویسے سنجیدہ معاملات میں دلچسپی کم ہی ہوتی ہے۔ ان کیلئے کسی ٹیم کا جیت جانا یا کسی کھلاڑی کا بیمار ہوجانا تو قابل توجہ ہوتا ہے۔ وہ اس پر فوراً ٹویٹ بھی کردیتے ہیں لیکن دادری جیسے سانحہ پر پراسرار چپی سادھ لیتے ہیں۔ جب ان کی خاموشی کے خلاف شور شرابہ آسمان سے باتیں کرنے لگتا ہے تو وہ صدر محترم سے بیان دلوا کر اس کی جانب توجہ اس طرح توجہ دلاتے ہیں کہ جیسے بھارتیہ ناری کہتی ہیمنے کے پاپا ذرادیکھئے نا پڑوسی کس بات کی شکایت کررہے ہیں۔اس پر بھی طوفان نہیں تھمتا تو بادلِ ناخواستہ کہہ دیتے ہیں دادری کا واقعہ قابل مذمت ہے لیکن اس سے مرکز کا کیا تعلق ؟ لاء4 اینڈ ا?رڈر کیلئے ریاستی حکومت ذمہ دار ہے( جو اتفاق سے سماجوادی کی ہے)۔ یہی بیان اگر مودی جی دوہفتہ قبل دے دیتے تو اس قدر بدنامی نہیں ہوتی لیکن اس کیلئے جو دور اندیشی درکار ہے وہ کہاں سے آئے؟مودی جی کی خاموشی کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی رہنما فسادیوں کی پشت پناہی میں لگ گئے جس سے کام اور خراب ہوگیا اور انتظار بسیار کے بعد بیان بھی آیا تو اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ اس لئے کہ جو نقصان ہو نا تھا ہوچکا تھا۔
وزیراعظم کے بیان پر جہاں ان کے بھکت بغلیں بجا رہے تھے بی جے پی کی نظریاتی ہمزاد شیوسینا کے سنجئے راوت نے اوس ڈال دی۔ سنجئے راوت نے مودی جی کے بیان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے یاد دلایا کہ مودی جی کی اصل شناخت گودھرا سے ہے۔ ہم گودھرا کے سبب ان کا احترام کرتے ہیں اور دادری پر بیان دے کر انہوں نے اپنے تشخص کو پامال کیا ہے۔سنجئے راوت نے بڑی صفائی سے مودی جی کو وہ آئینہ دکھا دیا جسے توڑنے کی کوشش میں ان کی انگلیاں بار بار لہو لہان ہو جاتی ہیں۔ فی الحال سینا اور بی جے پی میں نئی مہا بھارت چھڑی ہوئی ہے۔جس طرح مودی جی نے دہلی میٹرو کے افتتاح میں وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کو نظر انداز کردیا اسی طرح ممبئی میں سینا سپریمو ادھو ٹھاکرے کو دعوت دینے سے گریز کیا گیا۔ ادھو نے بگڑ کر بی جے پی کو بدنام کرنے کیلئے انہیں تاریخوں میں ودربھ کے کسانوں سے ملنے کا پروگرام بنا لیا۔
وزیراعلیٰ دیویندر فردنویس کو بہت دیر سے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنے ایک وزیرکے ہاتھوں ذاتی طور دعوتنامہ روانہ کیا لیکن دیر ہوچکی تھی۔ ادھو نے وزیراعظم کی تقریب کا دعوتنامہ ٹھکرا کر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کردیا۔ اس سے قبل شیوسینا غلام علی کے پروگرام کی مخالفت کرچکی تھی۔ وزیراعلیٰ کے تمام تر یقین دہانی کے باوجود منتظمین نے پروگرام منسوخ کرکے شیوسینا کے حوصلے بلند کردئیے۔ اس کے بعد بی جے پی کے دانشور سدھیندر کلکرنی نے پاکستان کیسابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کے ممبئی میں اجراء4 کا اعلان کردیا۔ شیوسینا کو اس سے اپنے ا?پ کو بی جے پی سے بڑا زعفرانی ثابت کرنے کا ایک اور موقع مل گیا اور اس نے اس کے بھی منسوخ کرنے کا مطالبہ کردیا اور اپنا احتجاج جتاتے ہوئے سدھیندر کلکرنی کے منھ پر کالک پوت دی۔ کلکرنی نے اپنے کالے منھ کے ساتھ پریس کانفرنس کرکے شیوسینا کا منھ کالا کردیا۔
اس واقعہ پر ساری دنیا شرمسار ہوئی یہاں تک کہ مودی جی نے بھی اس پر اظہار تاسف کیا لیکن شیوسینا کو اس پر کوئی افسوس نہیں تھا۔ اس کے مطابق یہ نہایت مہذب اور عدم تشدد کے طریقے پر کیا جانے والا ہے احتجاج تھا۔ اس احتجاج کے دوران چونکہ خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہا اس لئے اسے پرتشدد احتجاج تو نہیں کہا جاسکتا اور جہاں تک سیاستدانوں کے چہروں پر کالک کا سوال ہے وہ کوئی نئی بات ہے نہیں مثل مشہور ہیکوئلے کی دلالی میں تو صرف ہاتھ کالے ہوتے ہیں اقتدار کی دلالی میں منھ بھی کالا ہوتا ہے۔ فردنویس نے قصوری کی کتاب کا اجراء4 کروا کر شیو سینا کے منھ پر کالک پوت دی۔
شیوسینا کے مطابق سدھیندر کلکرنی اجمل قصاب جیسا ہے۔ اب اگر شیوسینا کے ہوتے اجمل قصاب ممبئی میں کسی پاکستانی کے کتاب کا اجراء4 کروادے تو وہ اس کیلئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ بھگوا دھاری اس طرح ایک دوسرے کا منھ کالا کرتے رہیں تو ان کا خانگی معاملہ ہے اس پر کسی تیسرے کواعتراض کا کوئی حق نہیں ہیلیکن سنجئے راوت نے سدھیندر کلکرنی کے چہرے پر پوتی جانے والی سیاہی کو سرحد پر بہنے والے فوجی جوانوں کا لہو کہہ کر فوج کی ایسی توہین کی ہے کہ اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ سیاستدانوں کے منھ تو کالے ہوسکتے ہیں مگرفوجیوں کا خون کالا نہیں ہوسکتا۔ جوانوں کا لہو تو سرخ ہوتا ہے لیکن زعفرانی سیاستدانوں کو اس کا علم اسی وقت ہو گا جب وہ ا?پسی سر پھٹول سے نکل کرسرحد پر جا ئیں اور ملک و قوم کیلئے قربانی دیں۔ فی الحال سینا اور بی جے پی ایک دوسرے کی قبر کھودنے میں مصروف ہیں اب اس میں کون دفن ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
مہاراشٹر کے اندر جس طرح بی جے پی کی مصیبتوں کا سرچشمہ شیوسینا ہے اسی طرح بہار میں اس کی حامی جماعتیں لوک جن شکتی پارٹی ، راشٹریہ سمتا دل اور ہندوستان عوام پارٹی ہے۔ وہ سب جہاں ایک دوسرے کے دشمن و ہیں بی جے پی کے اندر بھی گھمسان پڑا ہوا۔ آئے دن بی جے پی رہنماوں کے ایک دوسرے خلاف بیانات نشر ہوتے رہتے ہیں۔ اب تو امیت شاہ بھی ان کے نشانے پر آگئے ہیں اور وہ ان کی بیجا مداخلت پر سر عام اعتراض کیا جارہا ہے۔آریس ایس کو چونکہ بی جے پی والے اپنا مہا گرو مانتے ہیں اس لئے سر سنگھ چالک کا اس معاملے میں سب زیادہ حق بنتاہے۔ بھاگوت جی نے ریزرویشن کے خلاف بیان دے کر لالو اور نتیش کے ہاتھ میں جو ہنٹر پکڑا دیا ہے اس سے بہار میں بی جے پی لہو لہان ہے۔
بی جے پی نے پہلے تو اس بیان سیدہلی میں پلہّ جھاڑا پھر اس کے بعد وزیراعظم نے بہار میں ریزرویشن کو قائم و دائم رکھنے کی یقین دہانی کی بلکہ ممبئی میں بھی اس کا اعادہ کیا لیکن موہن بھاگوت بھی آسانی سے قابو میں آنے والے پرانی نہیں ہیں۔ اگست ۲۰۱۲میں جب ان سے غیر ملکی صحافیوں نے مختلف ریاستوں کی ترقی کی بابت پوچھا تھا تو انہوں نے بہار کو گجرات پر ترجیح دی تھی۔ اس کے معنیٰ یہی ہوتے تھے کہ وزیراعلیٰ کے طور پر نتیش کمار کو نریندر مودی پر سبقت عطا کی گئی تھی ۔ بھاگوت جی بہار کیلئے نئے نہیں ہیں۔ دس سال سے زیادہ بہار میں وہ پرچارک کے طور پر کام کرچکے ہیں۔ ان کو ریاستِ بہار کے مسائل اور بہاری عوام کی نفسیات کا اندازہ ہے۔اس کے باوجود عین انتخابی مہم کے دوران موہن بھاگوت کا یہ بیان اور اور وزیراعظم کے حلقہانتخاب میں اس کا اعادہ غالب کے اشعار یاد دلاتے ہیں ؟
یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں عدو کے ہو لئے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو؟
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟
جواب دیں