از قلم: محمد جنید برکاتی مصباحی
معرکۂ کار زار گرم تھا، کافروں کے تیروں کی بوچھار اور تلواروں کی یلغار سے بڑے بڑے سورماؤں کے قدم اکھڑ گئے تھے، بڑے بڑے گھوڑ سوار پسپا ہو گئے تھے، لشکر کی تنظیم برہم ہو چکی تھی، اب ہر شخص اپنی ذاتی لڑائی لڑ رہا تھا، ہر شخص کو یہی پڑی تھی کہ کسی طرح جان بچ جائے، سب دفاع کی لڑائی لڑ رہے تھے لیکن اسی کش مکشِ موت و حیات کی میں ایک خچر ایسا بھی موجود تھا جس کے سوار نے اس خچر کا قدم دشمن کی اس آندھی میں بھی ایک بالشت بھی پیچھے نہیں ہٹایا تھا، جو پھرتی سے چال اور پینترے بدلنے اور دشمن کے وار سے بچنے کے لیے عمدہ نسل کے گھوڑے پہ نہیں سوار ہوا تھا بلکہ جنگی اصول پوری طرح نظر انداز کرکے کامل اعتماد و وثوق کے ساتھ ایک خچر پہ سوار تھا اور اس پسپائی کے عالم میں پیچھے ہٹنے کے بجائے اپنے حفاظتی دستے کے حصار کو توڑ توڑ کر دشمن کی فوج پہ بھوکے شیر سے بھی زیادہ خوں خواری سے حملے کیے جا رہا تھا اور ایسی بھگدڑ میں جب کہ پسپا فوج کے سورما اپنی جان بچانے کے لیے اپنی شناخت چھپاتے ہیں وہ مسلسل اپنی پوری شناخت کا اعلان کر کر کے تھپیڑے مارتے طوفان کو للکار للکار کے اپنی طرف بلائے جا رہا تھا، اس کے خچر کی لگام جس کے ہاتھ میں تھی اس کے لیے اس خچر کو قابو کرنا مشکل ہو گیا تھا، وہ کمانڈر تھا کہ سراپا غیض و غضب بنا کاٹنے مارنے پہ آمادہ ہو گیا تھا، اسے شجاعت بہادری کے جوہر دکھانے کے لیے نہ ہی عربی نسل گھوڑے کی ضرورت تھی اور نا ہی حفاظت جان کے لیے حفاظتی دستے کی پرواہ تھی، اس کے لیے صرف اس کی طاقتِ بازو ہی بس تھی، اس کی طاقت کا عالم یہ تھا کہ ایک جنگ میں اس کا چلایا تیر جس کے بھی جس میں لگ جاتا تھا تو تیر کی نوک جسم کے دوسری طرف پار ہی ہو جاتی تھی اور ایک مرتبہ تو اس کمانڈر نے کمان اس زور سے کھینچی کہ کمان ہی ٹوٹ گئی تھی، وہ اس پسپائی مسلسل پیش قدمی کر رہا تھا اور بڑے جاہ و جلال سے رجزیہ طور سے یہ کہہ رہا تھا کہ میں ہی نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے اور میں ہی عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔
یہ اعلان کرتے ہوئے ہمارے آقا و مولا سپہ سالارِ اعظم نبیُ الملحمہ محمدِ عربی ﷺ غزوۂ حنین میں آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے، کفار کے پر زور حملوں سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے تھے لیکن ہمارے آقا محمدِ عربی ﷺ تھے کہ اس طوفان میں اپنے اسّی جاں بازوں کے ساتھ فولادی چٹان بن کے جم گئے تھے اور آپ کے قدمِ استقامت میں ذرا سی بھی پسپائی نہیں آئی تھی، آپ کے خچر کی لگام سیّدنا عباس بن عبد المطلب کے ہاتھوں میں تھی، سرکار ﷺ نے ان کو انصار اور مہاجرین کو پکارنے کاآرڈر دیا، سیّدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی بلند آواز سے سرکار ﷺ کے قدیم جاں نثاروں کو پکارا پھر آپ ﷺ نے اپنے ان عاشقوں کو لے کر اس زور کا ہلا بولا تھا کہ ہوازن اور ثقیف کے جنگ جو جن کو اپنی حربی صلاحیتوں پہ بڑا فخر تھا تھوڑی ہی دیر میں مر کٹ کے بھاگنے پہ مجبور ہو گئے۔
جس کو بارِ دو عالم کی پرواہ نہیں
ایسے بازو کی قوّت پہ لاکھوں سلام
ایسی تھی ہمارے آقا ﷺ کی بہادری، ایسے ہوتے تھے جنگ میں آپ ﷺ کے تیور کہ جب بڑے بڑے جیالوں کے لیے اپنی جگہ ٹکنا مشکل ایسی حالت میں بھی آپ تنِ تنہا پیش قدمی کرتے رہتے اور دشمن کے آندھی طوفان جیسے ہلوں میں پیکرِ استقامت و شجاعت بن کے جم جاتے تھے کیوں کہ آپ ﷺ اس دین کے پیغمبر ہیں جس میں پیٹھ پھیرنے کی سزا سیدھے جہنم ہے، غزوۂ حنین میں آپ ﷺ کی یہ جرأت مندی و بہادری عزم و حوصلہ، ثابت قدمی و استقامت کوئی نئی بات نہیں تھی بلکہ ہر جنگ میں آپ ایسی ہی بہادری کا مظاہرہ کرتے تھے اور اپنے مٹھی بھر جاں باز لے کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے جم جاتے تھے اور دشمن کو دھول چٹا کر ہی چھوڑتے تھے، شیرِ خدا مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم جیسے بہادر اور ماہرِ جنگ و حرب کا بیان ہے کہ جب جنگ اپنے شباب پہ ہوتی تو ہم لوگ حضور ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے اور ہم سب سے بڑا بہادر اسے مانتے تھے جو حضور ﷺ کے سب سے قریب رہ کر جنگ کرتا، آپ کے بازوؤں میں طاقت کتنی تھی اس کا تو کسی کو اندازہ ہی نہیں البتہ عرب کے نام ور دیو ہیکل پہلوان رکانہ کو کشتی کے مقابلے میں آپ نے اٹھا اٹھا کے پٹکا تھا اور اسے اپنی طاقت کے اعتراف پہ مجبور کیا تھا، حضور کو کشتی کے لیے للکارنے کی غلطی صرف رکانہ ہی نے نہ کی تھے بلکہ اس کے بیٹے یزید سے بھی یہی حماقت سرزد ہوئی تھی اور وہ بھی اپنے باپ کے انجام کو پہنچا تھا، سرکار نے اسے بھی پٹک پٹک کے اس کی طاقت کا زور توڑ دیا تھا، عرب میں ایک نام ور پہلوان اور بھی تھا جس کا نام ابو الاسود جحمی تھا جس کی طاقت کا عالم یہ تھا کہ وہ ایک چمڑے پہ بیٹھ جاتا اور پھر دس لوگ مل کے اس چمڑے کو اس کے نیچے سے گھسیٹتے، چمڑا پھٹ پھٹ کے چیتھڑے چیٹھڑے ہو جاتا لیکن دس آدمی اس کے نیچے سے چمڑا نکال نہیں پاتے، اس نے بھی آپ کو چیلنج کیا تھا، آپ نے اس کا چیلنج قبول کیا تھا اور اس کا ہاتھ پکڑتے ہی اس کو پٹخ دیا تھا، آپ کی طاقت سے وہ اتنا مرعوب ہوا تھا کہ فوراً مشرف بہ اسلام ہو گیا تھا، جنگ احد میں ابی بن خلف کو جس بہادری سے آپ نے بڑھ کر جہنم رسید کیا تھا اس کا قصہ تو الگ ہی ہے، بدر میں کس طرح آپ نے تین سو بے سر و سامان لے کر ایک ہزار کے لشکر کو شکست دی یہ تو آج بھی پوری دنیا کے لیے باعثِ حیرت و استعجاب ہے۔ یہ بھی آپ کی بے مثال بہادری اور جرأت مندی ہی تھی کہ قیصرِ روم ہرقل نے جب آپ کو اپنی جنگی طاقت سے مرعوب کرنا چاہا تھا تو وقت کے سپر پاور کے مقابلے دفاعی جنگ کی تیاریاں کرنے کے بجائے آپ ﷺ محض تیس ہزار مجاہدین لے کر سلطنتِ روما سے پنجہ آزمائی کرنے نکل پڑے تھے اور اپنے مرکز سے تقریباً نو سو کیلو میٹر دور اسی کے ملک میں جا کے کافی دنوں تک قیام پذیر رہے تھے اور اس کی گیدڑ بھپکی کا کرارا جواب دیا تھا لیکن جس بادشاہ نے اپنی جنگی قیادت میں پوری دنیا سے دادِ تحسین وصولی تھی اس کو اتنی ہمت نہ ہوئی تھی کہ محمدِ عربی ﷺ کے فاقہ کش صحابہ کی فوج کو اپنے ہی ملک سے بھگا سکے۔
تقریباً بیس سالوں سے آپ اسی طرح عزم و استقامت شجاعت و بہادری کے کوہِ گراں بنے جمے ہوئے تھے اور بڑی بہادری سے ہر طوفان کا سامنا کرتے چلے آ رہے تھے۔ یہ آپ کی بے نظیر بہادری ہی تھی کہ نہ تو قریش کے تیرہ سالہ مختلف النوع مظالم آپ کے قدموں کو متزلزل کر پائے تھے اور نا ہی بدر و احد جیسی خطرناک پے در پے جنگوں کی سختیاں، نا ہی آپ قریش کی دھمکیوں سے مرعوب ہوئے تھے اور نا ہی ان کے مال و ریاست کا لالچ دلانے پیچھے ہٹے تھے بلکہ آپ کا یہ فرمان بالکل اٹل تھا کہ اگر قریش میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے میں چاند لا کے رکھ دیں تب بھی میں اس فریضے کی ادائیگی سے پیچھے نہیں ہٹوں گا، یا تو خدا اس کام کو پورا کر دے گا یا تو میں خود دینِ اسلام پہ نثار ہو جاؤں گا۔
قریش نے آپ کی مقدس ذات پہ ظلم و بربیت کے وہ پہاڑ توڑے تھے کہ آپ کی جگہ اگر کوئی سنگلاخ پہاڑ بھی ہوتا تو وہ بھی چور ہو جاتا لیکن آپ کے پائے استقامت میں سرِ مو بھی جنبش نہیں آئی تھی۔
شجاعت و بہادری اور عزم و استقلال کے انہیں مظاہروں نے صحابۂ کرام رضوانُ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو جرأت مندی و بہادری،عزم و استقامت کا پکا کر دیا تھا کہ آپ کے سارے صحابہ کفار کے ظلم و تشدد، جور و ستم، تمرد و سر کشی سے کبھی بھی خائف نہیں ہوئے تھے بلکہ سب کے سب اپنی اپنی جگہ کوہِ ہمالہ بنے ہوئے جمے رہے تھے اور کفار کے مظالم سے کسی کے بھی عزم و اسقامت میں کمی نہیں آئی تھی اور ہر مشکل ہر مصیبت کا سامنا خندہ روئی سے کرتے رہے تھے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے
20مئی 2020(ادارہ فکروخبر)
جواب دیں