نئی دہلی: اتر پردیش پولیس نے حقائق کی جانچ کرنے والے محمد زبیر کے خلاف ایک پوسٹ کے سلسلے میں، جس میں ایک ہندو انتہا پسند رہنما کی مبینہ نفرت انگیز تقریر کی نشاندہی کی گئی تھی، بھارت کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کے قانون کے تحت کارروائی کی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، اس کیس کے تفتیشی افسر نے بدھ (27 نومبر) کو الہ آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ ایف آئی آر میں بھارتی خودمختاری اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے سے متعلق سیکشن 152 بی این ایس شامل کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں پہلے ہی دشمنی کو فروغ دینے، ثبوت گھڑنے، مذہبی جذبات مجروح کرنے، ہتک عزت اور مجرمانہ دھمکی کے الزامات شامل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ آئی ٹی ایکٹ کے سیکشن 66 (کمپیوٹر جرائم) کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
گزشتہ ماہ غازی آباد پولیس نے زبیر کے خلاف ایک ہندو انتہا پسند رہنما یتی نرسنگھانند کے ساتھی کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی تھی۔ یدیٹا تیاگی، جو یتی نرسنگھانند فاؤنڈیشن کی جنرل سکریٹری ہیں، نے الزام لگایا کہ زبیر نے نرسنگھانند کی ایک پرانی ویڈیو پوسٹ کی تاکہ مسلمانوں کو ان کے خلاف تشدد کے لیے اکسایا جا سکے۔
اس سے قبل ستمبر میں غازی آباد میں ایک تقریب کے دوران نرسنگھانند نے مبینہ طور پر گستاخانہ بیانات دیتے ہوئے لوگوں کو پیغمبر محمد ﷺ کے پتلے جلانے کے لیے اکسانے کی کوشش کی تھی، جس کے بعد اتر پردیش کے کئی مقامات پر مسلمانوں نے احتجاج کیا اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
زبیر نے ایف آئی آر کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے قانونی تحفظ طلب کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پوسٹ کا مقصد تشدد کو ہوا دینا نہیں بلکہ نرسنگھانند کی حرکتوں کے بارے میں پولیس کو آگاہ کرنا اور قانونی کارروائی کا مطالبہ کرنا تھا۔
زبیر نے یہ بھی دلیل دی کہ ان کے خلاف یہ الزامات جھوٹے ہیں اور وہ صرف سچائی کو سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عدالت نے کیس کی اگلی سماعت 3 دسمبر کو مقرر کی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب زبیر کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہو۔ جون 2022 میں بھی انہیں 2018 کی ایک پوسٹ پر گرفتار کیا گیا تھا، جس پر ملکی و بین الاقوامی سطح پر کافی تنقید کی گئی تھی۔
۔محمد زبیر کے خلاف درج مقدمے اور اس میں نئی دفعات کے اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت آزادیٔ اظہار کو محدود کرنے اور حقائق کو سامنے لانے والوں کو دبانے کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ زبیر نے بارہا اپنی صحافتی دیانت داری کے ذریعے نفرت انگیزی اور غلط معلومات کو بے نقاب کیا ہے، جو کسی بھی جمہوری معاشرے میں انتہائی ضروری کام ہے۔حکومت کا یہ رویہ دوہرے معیار کو واضح کرتا ہے۔ ایک طرف اشتعال انگیز بیانات دینے والوں کے خلاف کارروائی سست یا غیر موجود رہتی ہے، جب کہ دوسری طرف ان کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو فوری طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ رویہ معاشرتی انصاف اور قانونی مساوات کے اصولوں کے خلاف ہے۔