اِس میں ثمینہ گلؔ نے فکر و فن کے جو گل بوٹے کھلائے ہیں،کیا عجب کہ،اِن کی خوشنما رنگت اور بھینی بھینی خوشبو سے ہمارا مضمون بھی رنگ برنگا ہوجائے اورمشامِ جاں کو معطر کردے۔جب ہم اُن کے مجموعہ کے پہلے صفحہ پر یہ قطعہ:
رُخ انور سے ذرا۔۔۔ کملی ہٹا کر دیکھو
اپنے جلوؤں کی ہمیں سب کو تمازت دے دو
بحرِ عصیان میں۔۔۔ ڈوبے یہ سفینہ میرا ا
ا پنی رحمت کے اشاروں سے حفاظت دے دو
اور کتاب کے اُن کے انوکھے انتساب ، یعنی:’’سورۂ انبیاء کی آیت نمبر۸۷ اور ’’سورہ یٰسین کی آیت نمبر ۵۷ اور۵۸‘‘۔کے نام سے منسوب کرتے، دیکھتے ہیں تویہ یقین ہو جاتا ہے کہ اِن کے قاری کا ذہن بے ساختہ شاعرہ کی پاکیزہ ذہنی اور کتاب کی شائستہ سمتی کی طرف خود بخودمنتقل ہو جا ئے گا۔حقیقت یہ ہے کہ ثمینہ گل ایک پروقارشخصیت کی مالک ہی نہیں، محبتوں کی ایک معتبر علمبردار اور شائستہ فکری کی ایک مستحکم ہمنوا شاعرہ ہیں، جنہوں نے اپنے قلم کو سخنوری کے جادۂ پر پیچ کے کسی بھی مرحلۂ شوق میں بہکنے نہیں دیا ۔ یہ صحیح ہے کہ اُنہوں نے اپنے کلام میں شاعری کی ضروریات کی تکمیل کے لیے، یاد، انتظار، محبت، چاہت،حسن، جلوے ،اداسی، غم ،دکھ، درد، برق، نشیمن، فصلِ گل، وفا ، پیار، حجاب، وفا،چراغ دل، وغیرہ، جیسی شعری علامتوں و تشبیہات کامتواتر استعمال ضرور کیا ہے۔لیکن اُن کی پاکیزہ فکری اِن ہی علامتوں کے درمیان سے بڑے وقار و دبدبے کے ساتھ بھی اور خیریت سے بھی گزرجاتی ہے۔اِ س سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں ، ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ آیتیں اصلاً کیا ہیں اور کیوں یہ اُن کے انتساب کا محرک بنی ہیں۔پہلی آیت
(۸۷) سورۂ انبیاء کی ہے:’’جب مچھلی والے(یعنی حضرت یونس علیہ السلام) غضب نا ک ہوکر چل پڑے،تو اُنہوں نے گمان کیا کہ ہم اُن (کی اپنی قوم سے اِس مایوسی)پر گرفت نہیں کریں گے،(چناچہ اِس دوران اُنہیں مچھلی نے نگل لیااور) اُس نے (مچھلی کے شکم کے)اندھیروں سے ندا دی: ’’لااِلہ الا للہ انت سبحنک، اِنی کنت من الظالمین۔‘‘۔مطلب یہ کہ ثمینہ جی رحمتِ باری سے کبھی مایوس نہیں ہوں گی اور اپنا کام کرتی چلی جائیں گی اور خدا نخواستہ کبھی وہ فکر و نظر کی تایکیوں میں گھر بھی جائیں گی تووہ اِن تاریکیوں کے درمیان سے ٹھیک حضرت یونس علیہ السلام کی طرح پکار اُٹھیں گی :’’لااِلہ الا للہ انت سبحنک، اِنی کنت من الظالمین۔‘‘اِسی طرح دیگر دو آیتیں(۵۷ اور ۵۸ سورۂ یٰسین سے تعلق رکھتی ہیں، جن میں جنتیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ:’’اِن کے لیے( جنت میں ہر طرح کے)میوے ہوں گے، اورہر وہ شئے جووہ چاہیں،اور وہاں اُن کے لیے خود رب الرحیم ، سلام پیش فرمائے گا۔‘‘اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری یہ نیک خُو شاعرہ اپنے کا م اور اپنی سرگرمیوں کے ذریعہ خود کو اہلِ جنت میں شامل کرنے کی خواہاں ہیں۔اور اپنے رب سے سلام وصول کرنے کی بھی طلب گار نظر آتی ہیں۔اُن کا یہ انتسابیہ اُن کے جذباتِ نکو کاری کا غماز ہے۔مبارک ہیں ثمینہ گل جنہیں اللہ نے یہ توفیق عطا کی، کہ وہ اپنے مجموعۂ کلام کو مذکورہ آیات کے نام منسوب کریں، ورنہ اِلہاد پرست زمانے میں ایسی توفیق کسے نصیب ہوتی ہے،شاید گروہِ شاعران و فنکاران کے لیے اِس توفیق کانصیب ہونا توجیسے خواب کی باتیں ہیں۔جو لوگ اپنے قلم کی قوت کو باطل پرستی کی نذر کرتے ہیں اُن کو ایسی سعادت کہاں سے نصیب ہوگی۔ظاہر ہے، اب اِس کتاب پر جو بھی اِظہارِ خیال ہوگا، اُس کی سمت خود بخود متعین ہوگی بلکہ لکھنے والا بہت محتاط ہو کر ہی لکھے گا، اور ہم اسی احتیاط کے ساتھ یہ چند سطور ہم ثمینہ گل اور اُن کی تصنیف کی نذر کر رہے ہیں۔
اِس کتاب میں ماں پر اُن کی دو منظومات شامل ہیں اور جذبات کی بے پناہ لہریں سموئے ہوئے ملتی ہیں۔ ’’ماں‘‘ کے موضوع پر اُن کی نظم ’’سُنو ماں جی !‘‘ ایک طرف اُن کی معاشرتی Commitmentکی غمازی کرتی ہے۔ تو دوسری طرف وہ ایک شعری نذرانۂ عقیدت اپنے والد محترم کی بھی نذر کرتی ہیں جن میں اُن کے درد کی لہریں صاف محسوس کی جاسکتی ہیں۔اپنے والد محترم کے لیے یہ شعر ملاحظہ ہوں:
یہ رَاہ گُزر پہِ کس نے ہے دیپک جلا دیا
گم گشتہ راہ رو کو۔۔۔ راہبر بنا دیا
شاید کسی نے دیکھا ہے مجھ کو نقاب سے
تاریک منزلوں کو میری جگمگا دیا
یکتا تھادہر میں ۔۔۔وہ امید کا دیا
اے موت! تو نے کیونکر اس کو بجھا دیا
جس رشک مہتاب سے جاگا مرا نصیب
قسمت کے تیز وار نے اس کو سلا دیا
تھی فضل گل اور آشیاں شاخِ بلند تَر
ایسی گِری ہے برق نشمِین جَلا دِیا
اِس سے بھی صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ ماں باپ کی قدر و قیمت کو خوب محسوس کرتی ہیں ، جن کی خدمت کے بغیر جنت کا حصول ممکن نہیں، اور اِس حقیقت پر خود اللہ کی کتاب گواہ ہے۔وہ اپنی کتاب کے دامن کو پاکیزہ نظموں کی سوغات سے بھر دیتی ہیں۔مثلاً،اِن میں دو حمدیہ منظومات سمیت ’’آخری خطبۂ رسول صلی اللہ علیہ و سلم‘‘،’’ماہ رمضان ‘‘،’’نذرانہ عقیدت امام حسینؓ ‘‘‘،’’پرچم‘‘،جیسی منظومات اُن کے فکری رجحان کا پتہ دیتی ہیں۔چنانچہ اِس کی تصدیق کہیں وہ ’وضو‘ کا لفظ استعمال کرکے کرتی ہیں،کہیں’’ لامکاں‘‘ کا لفظ استعمال کرتی ہیں، جو اہلِ ایمان کے لیے ایک مانوس لفظ ہے۔کہیں’’سدرۃ المنتی‘‘ کی ترکیب استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔لفظ’’ صحیفے‘‘ کو بھی جب وہ استعمال کرتی ہیں تو وہ اپنی فکری وابستگیوںAffiliationsکا کھل کر اِظہارکرتی دکھائی دیتی ہیں۔پھر جب بھی موقع ملتا ہے وہ انسانیت نواز فکر کی نئی نئی جہتیں ہمارے سامنے رکھتی چلی جاتی ہیں۔ بلکہ وہ سراپا انسانیت بن کر صحیح کو غلط سے ممیز کرنے کی جستجو میں مصروف ہو جاتی ہیں اورنتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اِن کی نگاہ سے کسی کے دل کی کدورتیں چھپ نہیں پاتیں، چاہے اداکاروں کے چہرو ں پرمحبت کی کتنی ہی پرتیں کسی کے رُخ پرکیوں نہ چڑھی ہوئی ہوں۔ وہ چاہتی ہیں کہ لوگ جفا کی اپنی خو بدل دیں، ورنہ چمنستانِ محبت کے پھول کسی بھی وقت بکھر سکتے ہیں۔اِن کے سینے میں غرباء کے لیے ایک درد مند دل دھڑکتا ہے ۔وہ بادلوں سے درخواست گزار ہوتی ہیں کہ گارے مٹی کے گھروں والی نگری پر نہ برسیں۔اُن کے جذبۂ جۂت کی داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ وہ بس ایک پل میں ہی دشمن کے عزائم کو ملیامیٹ کرنے والا طوفان اُٹھانے کا حوصلہ رکھتی ہیں،یہ صحیح ہے کہ مبالغہ کے بغیر شاعری شاعری نہ ہوکر الفاظ کا ایک مجموعہ بن جاتی ہے۔اِس کو خوب محسوس کرتی ہیں اور اپنی شاعری کو مبالغے کی بہتر خوبیوں سے نوازتی چلی جاتی ہیں۔عصر حاضر کی تاریکیوں کے درمیاں ایک تو وہ ہوتا ہے، جسے بڑی شدت سے اُجالے کی تلاش ہوتی ہے، لیکن تاریک معاشرے کے شعراء وہ ہستیاں ہوتی ہیں جو دھرتی پر چاند ستاروں کوہی اُتار لانا چاہتے ہیں ،یہی ارمان ثمینہ گل کے دلِ مضطرب میں بھی موجزن دکھائی دیتا ہے۔
جہاں تک اُن کی منظومات کا تعلق ہے،ہم کہیں گے کہ صنفِ نظم اپنی کشادہ دامنی کے حوالے سے ایک شاعرو فن کارکو یہ موقع ضرور فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنی فن کارانہ طبع آزمائیوں کی متنوع فکری گہر باریوں سے ادبی فضاؤں کوآمادۂ رقص وسرورکردے۔پھر اگر شاعر۔۔۔شاعر نہیں۔۔۔ایک سرتاپا خلوص شاعرہ ۔۔۔ثمینہ گل ؔ ۔۔۔ہو،جس کے سر پر خدمتِ شعر وسخن کی ایک ایسی دھن سوار ہوجو کسی لمحہ اُسے چین کی سانس نہ لینے دیتی ہو،تو یہ اندازہ کرناکچھ مشکل نہیں ہوگاکہ اس کی کاوشیں دامنِ نظم پر فکر وخیال کی نقش و نگاری کے کیسے کیسے گل بوٹے کھلائیں گی،اور جنہیں دیکھ کر نگاہیں کس قدر خیرہ اور عقلیں کس درجہ انگشت بدنداں ہو کر رہ جائیں گی۔پھر یہی گل بوٹے کسی مخصوص ہئیتِ شعری کے قالب میں ڈھل جائیں گے تو دل و نگاہ کی آسودگیوں کا یہ کس قدربھر پور سامان فراہم کریں گے کہ جن کی خوشبوؤں سے فضائیں عطر بیز اوردل و دماغ معطر ہو جائیں ۔
زندگی کے اختصارکے ذکر کے ساتھ ایک نئی دُنیا کا تصور شاعرکے ایمانی انسلاک کی دلیل بن جاتا ہے اور ایسے تذکرے ہمیں چمنستانِ گل میں جابجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ وہ کبھی قول و فعل میں تفریق کا ذکر چھیڑ دیتی ہیں۔کبھی وہ اپنی شاعری میں چراغِ دِل جلاتی نظر آتی ہیں، جس کے بغیر ایک پاکیزہ شاعری کی تخلیق ممکن نہیں۔چنانچہ نیے جذبات کو اپنے دل میں بیدار کرنا ، آنسوؤں کو ضائع ہونے سے بچانا ، بلکہ اِنہیں سرمژگاں سجانا اُن کا محبوب مشغلہ ہے۔وہ چاہتی ہیں کہ جلتی دھوپ میں کوئی سر بے سائباں نہ رہ جائے، وہ جلتے سروں کے لیے شجر اُگانا چاہتی ہیں تاکہ اِن کی ٹھنڈی چھاؤں کے سائے میں بے سایہ لوگ پناہ لے سکیں ۔غرض کہ وہ فضاؤں کو جگمگانے کے لیے محبتوں کی ایک دُنیا آباد کرنا چاہتی ہیں۔
پھر اُن کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ہندی الفاظ، جیسے،دیپک، چاہت ،پھیرے،سوہنی،دیس،بابل،پیا کا گھر،گیت، پیا کے دیس کے استعمال کی ایک بساط بچھا دیتی ہیں اور اپنے کلام کو دلکش بناتے ہوئے،اور اِن کے بے تحاشہ استعمال سے وہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ وسیع الظرف ہیں اور لسانی، تہذیبی اور سرحدی تعصبات سے بلند ہوکر اپنے فکر و فن کی آبیاری کرنا چاہتی ہیں۔کیوں کہ وہ انسانیت کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتی ہیں۔وہ تہذیب کے ننگے سر کو ڈھانپنے کا عزم رکھتی ہیں اور کسی صورت کسی کی عزت نفس کو اُچھالنا نہیں چاہتیں۔
اُن کی آزاد نظموں کی روانی سے ہم اکثر محسوس کرتے رہے ہیں کہ وہ ایک بہترین نثر نگارہ بھی ہیں۔ایک بار ہمارے اُستادِ محترم سید نورالدین قادری نورؔ نے اپنے ایک مضمون میں راقم الحروف کے بارے میں لکھا تھا:’’۔۔۔طالب علمی کے زمانے میں لکھے گئے اُن کے مضامین کا قد و قامت کافی بلند تھا۔اُردو کی مظلومیت پر لکھا گیا اُن کا ایک مضمون تو شاہ کارتھا۔کافی مقبول ہوا۔مجھے اُن میں مستقبل کے(ایک شاعر سے زیادہ)ایک اچھے نثر نگار کی جھلکیاں نظر آئیں۔ میں اُنہیںA future prose writer in miniature سمجھنے لگا۔‘‘ ثمینہ جی کی آزاد نظموں میں میں نے جب اُن کی الفاظ پرفن کارانہ اور چابکدستانہ گرفت دیکھی تو، ایسا خیال میرے ذہن میں بھی گزرا، جیسا کہ ہمارے اُستادِ محترم کے ذہن میں ہمارے بارے میں کبھی گزرا تھا۔ میں نے اُن سے اس کا تذکرہ بھی کیاجو اپنا اثر دِکھا گیا۔اِس سے اُنہیں تحریک ملی تو مختلف ہلکے پھلکے ادبی موضوعات پر اُنہوں نے مراسلے لکھنے شروع کیے، جس میں اُن کے دلچسپ جملے ہمیں بہت پسند آئے اوراُن کے بارے میں لگایا گیا ہمارا اندازہ بالکل صحیح نکلاکہ وہ واقعی ایک بہتریں نثر نگارہ بن سکتی ہیں بلکہ وہ فی الواقع بن چکی ہیں۔ویسے بھی اگر کوئی شاعر یا شاعرہ نثر نگاری میں دلچسپی لیتی ہے توایسی نثر نگاری، روایتی نثر نگاروں سے بھی زیادہ موثر ثابت ہوگی، اِس حقیقت کا اعتراف قد آور نثرنگاران بھی کرتے ہیں۔
کچھ اچھے شعروں کے ساتھ ہم اپنے مضمون کو سمیٹتے ہوئے ، یہ اعتراف ضرور کریں گے کہ ، اِس قدر خوب صورت کتاب پر بہت کچھ لکھناممکن تھا ، لیکن قرطاس و قلم کی تنگئ داماں اور اپنی کم مائیگی اِس کی اجازت نہیں دیتی۔
اپنی بات میں جھوٹی قسمیں کھا کر وہ
ہاتھوں میں قرآن اٹھائے پھرتے ہیں
رنگ و بو میں جس کا نہ کوئی ثانی ہو
ایسا ہم گل دان اٹھائے پھرتے ہیں
ہے انتظار بہاروں کا کیوں چمن زارو !
ثمینہ گل ہی مہکنا تمھیں سیکھا دیں گی
آپس میں پھر ندیا ساگر ملتے ہیں
جیسے کوئی دید کا مارا ملتا ہے
چنچل لہریں شور مچانے لگتی ہیں
کشتی کو جب ایک کنارہ ملتاہے
نوچ ڈالوں گلِ ناداں سے وہ نقش ترے
چشمِ تر سے تری تصویر مٹالی جائے
جنھیں میں نے پرویا تھا کبھی حسرت کے دھاگوں میں
وہ سارے خواب بُن لیتے تمھارا کیا بگڑ جاتا
جنت کی یہ حوریں ہیں فقط ان کا مقدر
وہ جن کے بھی ہونٹوں پہ یہ قرآن رواں ہے
شریف اکیڈمی جرمنی کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتاب’’محبت آنکھ رکھتی ہے‘‘کی ناشر محترمہ فوزیہ مغل صاحبہ ہیں۔اِس مجموعے میں حمد، نظم، غزل، ہائیکو، قطعات کی شکل میں کل ۵۷ تخلیقات شامل ہیں۔ ذوالفقاراحسن نے اپنی کمپوزنگ /گرافکس سے اِسے خوب صورت بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔خوبصورت ٹائٹل والی اِس کتاب ، جس میں اِتفاق سے ہمارا فلاپ بھی درج ہے، کی قیمت صرف200 روپے ہے اور اِسے 341/A سٹیلائٹ ٹاؤن سرگودھا، پاکستان سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
فیس بک ، جسے ہم ازراہِ اُردونوازی ’’کتابِ رُخِ زیبا‘‘ بھی کہتے ہیں، ثمینہ گل جیسی پیکرِخلوص شاعرہ و ادیبہ سے ہمارے تعارف کا ذریعہ بن کر ہماری
ادبی دعاؤں کی مستحق بن گئی ہے۔خدا کرے کہ اِس وفا شعار شاعرہ و ادیبہ کے علم اور عمر میں برکت ہواور اس کے فکر وفن کا یہ سفر اِسی انہماک کے ساتھ
جاری رہے،جس کی لگن ہمیں فی زمانہ اِن کی ادبی زندگی میں دیکھنے کو ملتی ہے۔آمین۔۔۔‘‘*
جواب دیں