ہندوستانی سیاست کی موجودہ روش سے عرب ممالک میں ایک بے چینی پیدا ہونے لگی ہے۔ ہندوستانی حکومت کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ امریکہ یوروپ ان تعلیم یافتہ ہندوستانی کو ہی اپنے یہاں نوکری دیتا ہے جن کے اوپر ہندوستانی حکومت کا کافی پیسہ خرچ ہوتا ہے، اور ان کی تعداد بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے، جب کہ عرب اور مشرق وسطی ان غریب اور پڑھ لوگوں کو اپنے یہاں روز گار مہیا کراتا ہے جو ہر طرح سے بچھڑے اور غریب ہوتے ہیں، ان کو ہندوستان میں دو وقت کی روٹی بھی نہایت مشکل سے میسر ہوتی ہے، یہی لوگ جب عرب ممالک میں روزگار کرتے ہیں نہ صرف وہ ایک باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی تعلیم یافتہ بناتے ہیں۔ اور یہ بات تو کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ عرب دیش سے جو زر مبادلہ ہندوستان آتا ہے وہ امریکہ یوروپ سے تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔
ہندوستان نئے دوستوں کے چکر میں پرانے دوستوں کو نظر انداز کررہا ہے۔ اسرائیل نہ کسی کا دوست ہوا ہے نہ ہوگا۔شاید یہ بی جے پی کی اندرونی مجبوری ہو جس کی وجہ سے وہ اسرائیل کے خلاف پارلیمنٹ میں صرف بحث کرانے میں ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے، لیکن اس سے پہلے کسی بھی سرکار میں یہ لمحہ دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔اسرائیل کے ساتھ معاملات کرنے سے پہلے سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا بہت ضروری ہے۔ اسرائیلی قوم کی ایک تاریخ ہے، یہ دنیا کی سب سے زیادہ کینہ پرور قوم ہے عرب اسرائیل جنگ میں سب سے زیادہ مصر نے اسرائیل کو نقصان پہنچایا تھا لیکن جب مصر کا اسرائیل کے ساتھ سفارتی رشتہ قائم ہوا تو اسرائیل نے سب سے پہلے اس سے پرانا بدلہ لیا، جب کہ یہ سفارتی اصول کی سراسر خلاف ورزی ہے ۔اسرائیل نے ستر کی دہائی میں مصر کو ایسا زرعی (کیمیائی)کھاد اور بیج سپلائی کیا جس کی وجہ سے مصر کے ہزاروں ہیکٹر زمین ہمیشہ کے لیے بنجر بن گئے ان زمینوں پر اب زراعت کیلئے اسرائیل کا مخصوص بیج اور کھاد ہی استعمال کرنا پڑ رہا ہے جو اسرائیل اپنی مرضی کی قیمت پر بیچ رہا ہے کیوں کہ کسی دوسرے بیج سے پیداواری ممکن نہیں۔ ذرا سوچئے! اگر آپ یہی معاملہ ہندوستان کے ساتھ ہوگیا تو کیا ہوگا۔ ہندوستان اصلا نہ سہی عملااسرائیل کا غلام بن جائے گا۔ میری حکومت ہند سے گذارش ہے کہ دوستی میں اتنا آگے نہ جائے جہاں سے واپسی کے سارے راستے مسدود ہوجائیں۔
جواب دیں