مودی حکومت 2.0 کی پہلی سالگرہ: ہندو راشٹر کی سیاست میں ہندوستان جھلس گیا

ظفر آغا

آہ مجتبیٰ حسین! حیدر آباد کی شان، اردو مزاح کی آن بان، خلیق و ملنسار، انسان دوست، گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار۔ ہنسی ہنسی میں ہر کسی کا غم بانٹنے والے انسان۔ بھلا اب ایسے لوگ کہاں رہ گئے۔ مجتبیٰ صاحب کا خلا اب کون پر کرے گا۔ ارے، ان پر تو محض ہم آپ ہی نہیں اردو زبان بھی آنسو بہا رہی ہے۔ ایک تو یوں ہی اردو ادب میں کم از کم ہندوستان میں کتنی شخصیتیں بچی ہیں، پھر مجتبیٰ صاحب جیسے مزاح میں بڑی سے بڑی بات کہہ دینے والی شخصیت کی موت پر اردو کیوں نہ سوگوار ہو۔ اردو زبان سے مجتبیٰ صاحب کو جو والہانہ عشق تھا اس کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ بس آپ یوں سمجھیے کہ اگر مجتبیٰ صاحب سے میری ملاقات نہ ہوئی ہوتی تو آج میں اردو میں یہ کالم نہ لکھ رہا ہوتا۔ جی ہاں، مجتبیٰ صاحب ہی مجھ کو اردو صحافت میں لے کر آئے۔ میں ٹھہرا انگریزی صحافی، میرے سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ کبھی بھی اردو کا صحافی بھی ہو سکتا ہوں۔ یہ مجتبیٰ صاحب اور زاہد علی خان صاحب کی نظر عنایت تھی کہ میں آج اردو صحافیوں میں بھی شمار ہوتا ہوں۔

اردو صحافت میں مجتبیٰ صاحب نے میری شروعات بہت دلچسپ انداز میں کروائی۔ ہوا یوں کہ جب 1997 میں میں نے انڈیا ٹوڈے سے استعفیٰ دیا اور آزاد صحافت شروع ہوئی تو ایک روز پریس کلب دہلی میں مجتبیٰ صاحب مل گئے اور مجھے کنارے لے جا کر بڑی شفقت سے بولے بھائی آپ سیاست کے لیے اردو میں بھی کالم لکھیے۔ میں نے چھوٹتے ہی کہا ارے میں نے کبھی اردو میں دو جملے تو لکھے نہیں، کالم کیا لکھوں گا۔ آپ تو جانتے ہیں میں انگریزی صحافی ہوں۔ وہ فوراً بولے، تو کیا ہوا، آپ انگریزی زبان میں لکھیے، ہم ترجمہ کر لیں گے۔ میں نے ٹالنے کو کہا سوچتا ہوں۔ لیکن صاحب، مجتبیٰ صاحب نے پیچھا پکڑ لیا۔ آخر ان کے اصرار پر پہلے دو کالم انگریزی میں لکھے جو سیاست میں چھپے۔ لیکن مجھے اردو ترجمہ پسند نہیں آیا۔ میں نے مجتبیٰ صاحب سے شکایت کی۔ انھوں نے فوراً کہا ارے بھائی تو آپ اردو میں لکھیے۔ ہمت دلائی اور بس اس طرح مجتبیٰ صاحب کے اصرار پر میرا اردو صحافت کا سفر شروع ہو گیا۔ پھر زاہد علی خان صاحب حیدر آباد سے میری ہمت افزائی کرتے رہے۔ لیجیے اس طرح میں اردو صحافی بھی ہو گیا۔ مجتبیٰ صاحب نے مجھ میں صلاحیت دیکھی اور مجھ کو اردو زبان میں کھینچ لائے۔ میں اپنا یہ کالم اس عظیم الشان شخصیت مجتبیٰ حسین کی نذر کرتا ہوں جو اب ہم کو چھوڑ کر داعی اجل کو پیارے ہو گئے۔

مجتبیٰ صاحب ہوتے تو کہتے یہ بہت ہو گیا جو تم لکھتے ہو وہ لکھو۔ چنانچہ میں پھر واپس سیاسی میدان میں آتا ہوں جو میرا ہر ہفتے کا کام ہے۔ اور سیاست بھی کیسی سیاست، جس نے ہندوستان بدل دیا۔ جی اس مٹی کے آخری دنوں میں نریندر مودی کو اقتدار میں دوسری بار آئے ایک برس گزر گئے۔ یوں تو وہ پچھلے چھ برسوں سے اقتدار میں ہیں، لیکن اس ایک برس میں نریندر مودی اپنا ترقی کا چولا اتار کر باقاعدہ کھلے عام ہندوتوا سیاست کے ساتھ میدان سیاست میں کود پڑے۔ یعنی لوک سبھا میں شاندار اکثریت کے ساتھ انھوں نے کھل کر ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا بیڑا اٹھا لیا۔ سنگھ نے ان کو جو کچھ بھی سبق سکھایا تھا وہ اس پر عمل کرتے ہوئے ملک کو باقاعدہ ہندو راشٹر بنانے کو کمربستہ ہو گئے۔ سب سے پہلے نریندر مودی نے کشمیر سے دفعہ 370 ختم کر جموں و کشمیر کا ریاست تک کا درجہ ختم کر دیا۔ ہم کو اور آپ کو تو لاک ڈاؤن کا اندازہ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد ہوا، بے چارے کشمیریوں سے پوچھیے جو اس سال فروری سے لے کر اب تک بس لاک ڈاؤن کی زندگی جی رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان بے چارے کشمیریوں پر کیا بیتی ہوگی اس کا کچھ کچھ اندازہ ہم اب لگا سکتے ہیں۔ لیکن کشمیر کو دی گئی خصوصی آئینی مراعات ختم کرنا سنگھ کا دیرینہ خواب اور ہندو راشٹر کا اٹوٹ اَنگ تھا سو مودی جی نے وہ کر دکھایا۔

ہندو راشٹر کا دوسرا سب سے اہم ستون اس ملک کی مسلم اقلیت کو دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے، سو وہ کام بھی مودی جی نے پوری شد و مد سے شروع کر دیا۔ سی اے اے قانون میں ترمیم اور این آر سی کا بنیادی مقصد ہندوستانی مسلمان کی شہریت ختم کر اس کے تحت آئینی اختیارات کو ختم کرنا ہے۔ جب کوئی باشندہ اپنے آبائی وطن کا شہری ہی نہیں رہے گا تو ظاہر ہے کہ وہ پھر دوسرے درجے کا شہری بن ہی جائے گا۔ چنانچہ کشمیر سے نمٹنے کے فوراً بعد مودی جی نے شہری قانون میں ترمیم کر ہندوستانی مسلمان کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی بنیاد رکھ دی۔ صرف اتنا ہی نہیں، ان کو غلاموں جیسی زندگی گزارنے کے لیے کیمپ بھی بنوا دیئے گئے جہاں فلسطینیوں کی طرح غلامانہ زندگی گزارنے کا انتظام بھی کر دیا۔ ظاہر ہے کہ مودی جی کے پروجیکٹ ہندو راشٹر کا یہ سب سے اہم حصہ تھا، سو وہ کام بھی اس ایک سال میں کر لیا۔ صرف اتنا ہی نہیں، جب سی اے اے اور این آر سی کے خلاف شاہین باغ جیسا عظیم الشان احتجاج پھوٹ پڑا تو دہلی میں فساد کے ذریعہ یہ سبق دے دیا گیا کہ اگر سر اٹھانے کی کوشش کی تو سر کچل دیا جائے گا۔
پھر ہندو راشٹر میں صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی حق تلفی نہیں ہوگی۔ منو کے اصولوں پر قائم ذات پات کی زنجیروں میں جکڑے اس ہندو راشٹر میں آہستہ آہستہ دلتوں اور پسماندہ ہندوؤں کے اختیارات بھی کم ہوتے جائیں گے اور ان کو بھی پھر اچھوت ٹھہرا دیا جائے گا۔ ابھی لاک ڈاؤن میں لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر پیدل چل کر جانے والے مزدوروں کے ساتھ مودی حکومت نے جو سلوک کیا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دلت اور پچھڑوں کو مودی اور سنگھ اچھوت ہی سمجھتی ہے۔ جی ہاں، ہندوستان میں 99 فیصد مزدور طبقہ دلت یا پچھڑی ذاتوں سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ بے چارے مزدور بھوکے پیاسے سڑکوں پر چلتے رہے اور مرتے رہے، مودی حکومت نے ان کی ایک پیسے کی مدد نہیں کی۔ آخر بہت شور مچا تو شرمک ٹرینیں چلیں جو میری رائے میں بہت سوچ سمجھ کر عجیب و غریب مقاموں کو بھیج دی گئیں اور کوئی ایک درجن مزدور ان ٹرینوں میں بھوکے پیاساے مر گئے۔ مقصد یہ تھا کہ دلت اور پسماندہ ذاتوں کو یہ سبق جائے کہ تم اچھوت تھے اور ہندو راشٹر میں اچھوت رہو گے۔ لاک ڈاؤن کے بہانے اپنے پہلے سال میں ہی نریندر مودی نے منو ایجنڈے کی شروعات کر ہندو راشٹر کو ہندو سماج تک پہنچا دیا۔ بس اب رام مندر بنانا باقی ہے، وہ بھی اس سال کے آخر تک تیار ہو جائے گا۔

صرف اتنا ہی نہیں، ملک کا ہر ادارہ اور جمہوریت کا ہر ستون اب مودی حکومت کے زیر نگوں ہے۔ عدلیہ کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ بیوروکریسی کی مجال نہیں کہ وہ مودی حکومت میں چوں کر سکے۔ پارلیمنٹ اور حزب اختلاف کی جو گت بنائی گئی ہے، وہ سب کو معلوم ہے۔ پھر میڈیا تو اب گودی میڈیا ہو ہی چکا ہے۔ الغرض مودی جی نے اپنے اعلان کے مطابق اس ایک سال کے اندر 'نیا ہندوستان' بنا لیا جو دراصل ہندو راشٹر ہے، جس میں ابھی بھی مودی جی کا ڈنکا بج رہا ہے۔

لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے کہ بھلے ہی مودی اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے میں کامیاب ہوں لیکن انھوں نے ہندوستان کو ختم کر دیا۔ پتہ نہیں مودی حکومت کے مظالم کے خلاف یہ قدرت کی مار ہے یا پھر کچھ اور، کورونا وائرس کے عذاب نے ہندوستان کو کنگال کر دیا۔ کروڑہا افراد بے روزگار ہو گئے اور آگے نہ جانے کیا حشر ہو، کسی کی سمجھ میں نہیں آتا۔ اس ایک سال میں مودی کا ڈنکا بھلے ہی بجا ہو، لیکن ہندوستان ہندو راشٹر کی سیاست میں جھلس گیا۔

مجتبیٰ صاحب حیات ہوتے تو شاید مسکرا کر کہتے… آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

30مئی 2020(فکروخبر)

«
»

چند خوش گوار یادیں : مولانا شاہد صاحب فیض آبادی رحمۃ اللہ علیہ

ارباب مدارس اور ان کے ناقدین سے کچھ گزارشات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے