ڈاکٹر اسلم جاوید
تمام قسم کی جملے بازیوں اور ہواہوائی دعووں ،وعدوں کے درمیان مرکز کی این ڈی اے سرکار چار برس مکمل ہونے پر پرشکوہ جلسہ منعقد کرنے کی تیاری کررہی ہے۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ این ڈی اے سرکار کے پاس عوام کو دکھانے اور اپنے کئے پر فخر کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔اگر کچھ ہے بھی تو ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے منصوبے کمزوروں دلتوں اور اقلیتوں کے بہیمانہ ماب لنچنگ کی وارداتیں جن میں ہمیشہ این ڈی اے سرکار قاتلوں کے ساتھ رہی ہے ۔
حالاں کہ امید کی جارہی تھی کہ مسلمانوں اور دیگراقلیتوں کیلئے بہ ظاہر جارحانہ رویہ دکھانے والے وزیر اعظم نریندر مودی عملی طور پر مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں اوروزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد ملک کے دیگر طبقات کی طرح کسانوں ،مزدوروں ،مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی فلاح وبہبود کیلئے بھی یکساں فراخ دلی سے کام کریں گے۔مئی2014میں انہوں نے عہدہ اوررازداری کاحلف لینے کے بعد جو تقریر کی تھی اس میں بھی انہوں نے پرعزم لہجے میں کہا تھا کہ ملک کے سواسو کروڑ باشندوں نے ان پر اعتماد کیا ہے ،لہذا وہ سبھی کی امیدوں اور توقعات پرکھرا اترنے کی ایماندارنہ کوشش کریں گے۔ملک کی سب سے زیادہ پسماندہ اقلیت مسلمانوں کے بارے میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بارہا کہا ہے کہ وہ مسلم نو جوانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر دیکھنا چا ہتے ہیں۔مگر یہ ان کے ضمیر کی آواز تھی یا ظاہری طور پر واہ واہی حاصل کرنے اور تالیاں بٹور نے کا سیاسی پینترا تھا ،جب ہم اس کوعمل کی کسوٹی پر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو مایوسی ہی ہاتھ لگتی ہے۔وزیر اعظم نے زبان سے چاہے جو بھی کہاہو، مگر حقیقت یہی ہے کہ گزشتہ چار برسوں میں مسلمانوں کی ترقی یا فلاح بہبود کے نام پر رتی برابر بھی کوئی کام نہیں ہوسکاہے۔حالاں کہ مودی جی نے یہ دعویٰ کیا تھاکہ اقلیت اکثریت کی طبقاتی کھائی کو ختم کرکے وہ سبھی طبقات کو بہ حیثیت ہندوستانی شہری کے ترقی کا یکساں موقع فراہم کریں گے۔
چناں چہ رواں مانسون اجلاس میں متعدد اراکین پارلیمنٹ کے ذریعہ اقلیتوں اور مسلمانوں کیلئے اب تک کئے گئے اقدامات کے بارے میں سوال پوچھے جانے پر نہ صرف بی جے پی کیمپ چراغ پا ہوگیا، بلکہ بہت سے میڈیا ہاؤسز بھی جز بز ہوگئے جو گودی میڈیا کے طور پر پہچان حاصل کرچکے ہیں۔ لیکن بھونپو میڈیا اور مودی حکومت کے لاکھ چھپانے کے باوجود چند حقائق دنیاکے سامنے آہی گئے ،اقلیتوں کیلئے موجودہ حکومت نے کیا کیا ہے اس کا ثبوت دینے سے پہلے سیدھا سا جواب یہی ہے کہ مودی حکومت نے مسلمانوں کی ترقی کے نام پر صرف جملے بازی کی ہے ۔اب جبکہ مرکزی سرکار اپنے چار سال مکمل ہونے کا تاریخی جشن منانے کی تیاری میں جٹ گئی ہے تو ہمیں یہ جائزہ لینا ہوگا کہ جس حکومت نے پارلیمنٹ کی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ انہیں سواسو کروڑ ہندوستانیوں نے اپنا رہنما منتخب کیا ہے،لہذا تمام طبقات کی ترقی اور فلاح وبہبود کیلئے قدم اٹھانا ان کا پہلا فرض ہے۔مگر ان چار برسوں میں مودی حکومت غریبوں ،مزدوروں اور متوسط طبقہ کی پریشانیاں دور کرنے کے بجائے صرف تین فیصد ساہوکاروں اور سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے میں مگن ہوگئی اور غریبوں اور عام ہندوستانیوں کو مشکلات اور پریشانیوں کی کھائی میں ڈھکیلنے کی مہم شروع کردی گئی ۔
پہلے تو صرف مذہب اور اقلیت و اکثریت کی بنیاد پر فصیلیں تیار کی جاتی تھیں،مگر ایسا پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ملک میں امیر وغریب کے درمیان خلیج تیار کردی گئی ہے۔اور مذہب و ذات پات کے ساتھ تفریق کی ایک نئی تقسیم پر کام شروع کردیا گیاہے۔چونکہ این ڈی اے حکومت جلدہی اپنی چوتھی سالگرہ منانے جارہی ہے ،لہذا اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ بی جے پی حکومت نے ان چار برسوں میں عام ہندوستانیوں بالخصوص غریب ومزدور اور کسانوں کی اور اقلیتوں کی بھلائی کیلئے کون کون سے منصوبے مرتب کئے ہیں اور ان منصوبوں پر کتنا عمل ہواہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں اپنے پہلے خطاب میں صرف غریب کسان گاؤں مزدور اور حاشیہ پر ڈال دیے گئے ہندوستانیوں کے دکھوں کا اظہار کرتے ہوئے یہ اعتماد جگایا تھا کہ ملک میں کسانوں اور غریبوں کے اچھے دن آنے والے ہیں۔ وزیر اعظم کے ذریعہ ایسا ظاہر کیا جانے لگا کہ ملک میں پہلی بار ’’غریبی ہٹاؤ‘‘ کا نعرہ جملہ سے آگے ایمانداری کے ساتھ بلند کیا جارہا ہے اور بی جے پی سرکار ملک سے غریبی کو ہرقیمت پر ختم کرکے ہی دم لے گی۔ اسی پہلے خطاب میں وزیر اعظم مودی نے کسانوں کے ساتھ مزدوروں اور غریبوں کی فلاح کیلئے کئی نئے منصوبوں کا بھی اعلان کیا تھا۔مگر آج چار سال مکمل ہونے پر ان میں سے کوئی بھی منصوبہ زمینی سطح پر کہیں بھی دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔
اب اگر چار سال بعد بی جے پی حکومت اپنی کامیابیاں شمارکرا رہی ہے تو سب سے پہلے سوال کسان، غریبوں اور مزدور وں کا ہی ہونا چاہئے کہ کیا واقعی ان کے دن بدل گئے ہیں؟اس کا اندازہ لگانے کیلئے ایک سوئل کارڈکی مثال کو سامنے رکھیں، مودی حکومت کیجانب سے جس کی بھرپور تشہیر کی گئی تھی اور جملے بازی پر یقین کرکے کسان مزدور یہ امید لگا بیٹھے تھے کہ اس سوئل ہیلتھ کارڈ کے ذریعہ ان زمینیں سبزہ زار ہوکر سونا اگلنے لگیں گی،لیکن بی جے پی کے زیر قیادت حکومت راجستھان کے شری گنگا نگر کے کسان، یوپی کے میرٹھ کے کسان، چھتیس گڑھ کے کسان یعنی یہ سبھی ایسے کسان ہیں جنہوں نے آج تکسوئل ہیلتھ کارڈ کا نام ہی نہیں سنا ہے تو سمجھا جاسکتا ہے کہ انہیں اس سوئل ہیلتھ کارڈ کا کوئی فائدہ کیسے ملا ہوگا۔اسی طرح فصل بیمہ منصوبہ بھی حکومت کا منہ چڑھارہا ہے ،جس فصل بیمہ منصوبہ کا حکومت ہند ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے ،اس کی سچائی یہ ہے کہ معاوضہ کے چند روپیوں پر آکر یہ منصوبہ اٹک گیا اور اس کا فائدہ بھی تمام کسانوں کو نہیں مل سکا۔کہاں کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے دعوے کئے جارہے تھے ، لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ کسانوں کو ان کی فصل کی اصل لاگت بھی نہیں مل رہی ہے ۔ مجبور کسانوں نے مہاراشٹر سے لکھنؤ تک اپنی پیداوار کو سڑکوں پر پھینک کر حکومت کے سامنے اپنی بے چینی کا برملا اظہار کیا ہے ،جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مدھیہ پردیش میں جہاں کم از کم امدادی قیمت پر فصل خریدے جانے کا ڈنکا پیٹا گیا اور شیوراج سنگھ چوہان نے واہ واہی لوٹنے کی بھرپور کوشش بھی کی ۔مگر وہیں سے یہ رپورٹ آئی کہ کسان امدادی قیمت حاصل کرنے کیلئے پانچ پانچ دن تک لائنوں میں لگے رہے ،مگر ناامیدی کے سواکوئی بھی چیز ان کے ہاتھ نہیں لگی۔ مدھیہ پردیش کی زرعی پیداوار منڈی میں ایسے حالات بن گئے کہ کسانوں نے جم کرحکومت اور بی جے پی کیخلاف نعرے بازی کی ،جس سے یہ سوال خود بخود کھڑا ہوجاتا ہے کہ کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا وعدہ کہاں چلاگیا۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ اگر بی جے پی کے ہواہوائی دعووں کے مطابق کسانوں کے حالات بدلے ہیں تو کہاں بدلے ہیں۔ بظاہر اس وعدے کی سچائی ملک کے کسی بھی حصے میں دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسانوں کے حالات بدلے ہیں تو مودی جی کی مدت کار میں کسانوں کی خودکشی کی شرح میں اضافہ کیوں ہورہاہے اقوام متحدہ نے کسانوں کی خودکشی کے جو اعداد وشمار پیش کئے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ این ڈی اے سرکار کی مدت کار میں ہرجگہ کسانوں کی خودکشی کا تناسب بڑھتا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں زرعی ترقی کی شرح کے اعداد و شمار کوبھی دیکھ کر ایسا کچھ نہیں لگتا جس سے یہ یقین کیا جاسکے کہ کسانوں کی زندگی میں انقلابی تبدیلی آئی ہے۔ سال 2014۔15 میں، 0.2 فی صد زرعی ترقیکی شرح تھی، جبکہ 2015۔16 میں 1.2 فی صد زراعت کی شرح رہی. 2016۔17 میں، 4.9 فیصد اور سال 2017۔18 میں زرعی ترقی کی شرح 2.1 فیصد ہونے کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔کیا ان رپورٹوں اور حقائق کو سامنے رکھ کر کوئی بھی ہندوستانی یہ کہہ سکتا ہے مودی جی نے ’’غریبی مکت‘‘ بھارت کا وعدہ پورا کردیا ہے؟ اور کسانوں کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلی آئی ہے ۔زرعی مزدوروں کی زندگی پہلے سے بہتر ہوگئی ہے؟ اس کے برعکس حالات یہ ہیں کہ غریب مزدور اور کسانوں کی حالت دن بدن اور بدتر ہوتی جارہی ہے اور ملک کا 73فیصد اثاثہ سرکار نے جن لوگوں کے ہاتھوں میں دے رکھا ہے ان کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔
اگر اعداد وشمار کی روشنی میں مودی سرکار کے گذشتہ چار برسوں میں اقلیتوں اور دلتوں کی فلاح کے منصوبوں پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے دلتوں، اقلیتوں اور مسلمانوں کے لئے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔مثلا ’’ سی آر پی ایف، سی آئی ایس ایف، آئی ٹی بی پی، پی ایس بی جیسے تمام ادارے جو مرکزی حکومت کے تحت ہیں،ان میں اقلیتوں اور دلتوں کی کتنی بھرتیاں ہوئی ہیں،اس کاڈاٹا دیکھ کر ساری دنیا موجودہ حکومت کیمتعصبانہ کار کردگی پرافسوس کرے گی ۔ وزیر اعظم کا پندرہ نکاتی پروگرام واضح طور پر بتا رہا ہے کہ مرکزی حکومت کی ملازمتوں میں اقلیتوں کی شراکت داری بڑھائی جائے گی، مگر عملی طور اس نکتہ پر کوئی خاطر عمل نہیں کیا گیا ۔ بی جے پی چار برسوں سے مرکزمیں اقتدار پرقابض ہے۔ وزیر اعظم بڑے زور شور سے کہتے ہیں کہ وہ مسلم نوجوانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپوٹر دیکھنا چاہتے ہیں، ایسے میں یہ سوال حق بجانب ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں آپ نے مسلمانوں کے لئے کیا کیا ہے اس کے عداد و شمار پیش کیجئے۔
گذشتہ چار برسوں میں مرکزی حکومت کے تحت آنے محکمے جیسے بینکوں، ریلوے اور مرکزی نیم فوجی دستوں میں اقلیتوں کے کتنے امیدواروں کا تقررعمل میں آیا اس سوال کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ آپ وزارت اقلیتی امور کی ویب سائٹ دیکھیں جس میں بتایا جاتا ہیکہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے بشمول کتنے اقلیتوں کو مختلف سرکاری محکموں میں ملازمتیں ملی ہیں۔ اقلیتی امور کی ویب سائٹ پر 2013 تک کاہی ڈاٹا ہے۔یعنی مودی سرکار کے2014میں اقتدار میں آنے کے بعدسے اب تک جب اقلیتوں کیلئے کچھ ہواہی نہیں ہے تو اس کا ڈاٹا وزارت اقلیتی امور کی ویب پر نظر کیسے آئے گا۔مطلب واضح ہے کہ چار برس کے بعد این ڈی سرکار کے ہاتھ میں دنیاکودکھانے کیلئے نفرت پھیلانے والے منصوبوں کے سوا کو ئی اچھی چیز ہے ہی نہیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
06؍ اگست 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل
جواب دیں