مودی سرکار- گاندھی بھکت ہے یا گوڈ سے بھکت؟

’شہریت ترمیمی قانون‘ گاندھی جی کے نہیں ساورکر کے خوابوں کی تعبیر ہے

 عبدالعزیز 

    موجودہ سرکار اور حکمراں جماعت کے لیڈر اور کارندے ساورکر اور گوڈسے کے پجاری اور عقیدت مند ہیں لیکن عوام سے داد لینے کیلئے یہی لوگ ڈاکٹر امبیڈکر اورمہاتما گاندھی سے بھی ظاہراً عقیدت کا اظہار کرتے رہتے ہیں؛ حالانکہ گاندھی اگر مقتول ہیں تو گوڈسے اور ساورکر ان کے قاتل ہیں۔ امبیڈکر ذات پات کے خلاف ہیں او ر انسانی حقوق کے علمبردار ہیں اور دستور ساز ہیں۔ ساورکر یا ان کے ماننے والے امبیڈکر کے اصولوں اور ان کے تیار کردہ دستور ہند کے مخالف ہیں۔ ذات پات کے حامی اور پرچارک ہیں۔ مودی-شاہ یا ان کے پیروکار گاندھی اور امبیڈکر کا نام محض اس لئے لیتے ہیں کہ عوام کو جھانسے میں ڈال سکیں، گمراہ کرسکیں لیکن اب ان کے چہرے سے نقاب اٹھ رہا ہے خواہ کتنا ہی نقاب پوشی اور پردہ پوشی کامظاہرہ کریں۔ گزشتہ جمعہ کوصدر جمہوریہ رام ناتھ کویند نے حکومت کی تحریر کردہ تقریر کو دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں پڑھ کر شرکاء کو سنایا۔ جس میں لکھا ہوا تھاکہ ”آج کے ماحول میں گاندھی جی کے خوابوں اور آرزوؤں کو پوری کرنے کی مودی حکومت کوشش کر رہی ہے۔ انھوں نے کہاکہ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے تقسیم ہندکے سنگین ماحول میں کہا تھا کہ ہندو اور سکھ جو پاکستان میں نہیں رہ سکتے اگر وہ ہندستان آنے کی خواہش ظاہر کریں تو حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ ان کے بسانے اور ان کی راحت رسانی کرے“۔ اس پر حکمراں جماعت کے ایم پی بشمول شاہ اور مودی میزوں کو تھپتھپانے لگے جبکہ اپوزیشن کے ممبران نے اپنا احتجاج درج کرایا۔ صدر جمہوریہ نے جو کچھ پڑھا وہ در اصل گاندھی جی کی تقریر کا پورا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی اس حصے سے گاندھی جی کی تقریر یا باتوں کا مقصد یا مدعا پورا ہوتا ہے۔ 
    10جولائی 1947ء کو گاندھی جی نے اپنے ایک پرارتھنا سبھا میں کہا تھا ”اگر سندھ یا دوسرے علاقوں سے چھوڑ کر لوگ ہندستان آئیں تو ان کو ہم باہر نہیں کرسکتے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم اپنے آپ کو کیسے ہندستانی کہہ سکتے ہیں اور ہم کس منہ سے جئے ہند کا نعرہ بلند کرسکتے ہیں۔ نیتا جی نے کس لئے لڑائی لڑی تھی۔ ہم سب ہندستانی ہیں، خواہ دہلی میں رہتے ہوں یا گجرات میں، وہ لوگ ہمارے مہمان ہیں۔ ہم ان لوگوں کا خیر مقدم کریں گے کہ ہندستان ان کا ملک ہے جیسے پاکستان۔ اگر نیشنلسٹ مسلمان پاکستان چھوڑ کر ہندستان آئیں گے تو ہم ان کا بھی سواگت کریں گے۔ ہم سب ہندستان میں برابر کے شہری ہیں“۔ 
    گاندھی جی نے 25جولائی 1947ء کو اپنے ایک پرارتھنا سبھا میں کہا تھا کہ ”یہاں مسلمان، پارسی، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہندستان اب ہندوؤں کا ملک ہے تو غلط ہے۔ ہندستان ان تمام لوگوں کا ہے جو ہندستان میں رہتے ہیں“۔ مہاتما گاندھی نے 9ستمبر 1947ء کو کمیونسٹ لیڈر پی سی جوشی سے کہا تھا کہ ”یہ ہمارے لئے باعث ندامت ہے کہ ہندستان میں مسلمان افسردہ خاطر ہیں“۔ 25اگست 1947ء کو ایک دوسرے پرارتھنا سبھا میں کہا تھا کہ ”تمام اقلیتیں ہندستان میں اسی درجے کی شہری ہیں جس درجے کے شہری اکثریت کے لوگ ہیں“۔ 
    گاندھی جی نے 26ستمبر 1947ء کو ایک پریئر میٹنگ میں کہا تھا کہ ”اگر ہم تمام مسلمانوں کو وطن دشمن سمجھیں گے تو پاکستان میں بھی ہندوؤں اور سکھوں کو وطن دشمن سمجھا جائے گا۔ ہم لوگوں کو ایسا نہیں سمجھنا چاہئے۔ ہندو اور سکھ اگر وہاں نہیں رہ سکتے تو ہندستان آسکتے ہیں۔ ان کیلئے ہماری حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ ان کو ہم روزگار سے لگائیں اور ان کی راحت رسانی میں مدد کریں، لیکن اگر وہ پاکستان میں رہتے ہیں اور ہمارے لئے کام کرتے ہیں اور پاکستان کیلئے نہیں کرتے ہیں تو ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اور میں اسے ہر گز پسند نہیں کروں گا“۔ 
گاندھی جی کی تقریروں اور کارگزاریوں پر مشتمل جو مجموعہ ہے اس میں مذکورہ باتیں درج ہیں۔ حکومت نے گمراہ کرنے کیلئے گاندھی جی کی نامکمل باتیں پیش کی ہیں۔ اگر گاندھی جی کی مکمل باتیں پیش کرتے تو اس سے ان کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا جس سے وہ ہندستانیوں کو گمراہ کرسکتے تھے، لیکن ان کی بیوقوفی اور نادانی کی حد ہے کہ ایک چیز جو اظہر من الشمس ہے آخر اسے وہ کیسے چھپا سکتے ہیں؟ گاندھی جی کی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہے۔ گاندھی جی کا قصہ تمام اس لئے کیا گیا تھا کہ وہ مودی،شاہ اور موہن بھاگوت کے خوابوں کے ہندستان کے خلاف تھے۔ گاندھی جی ہندستان میں ہندو مسلمانوں کا اتحاد چاہتے تھے۔ ان کے پرکھوں نے گاندھی جی کو نہ صرف مسلمانوں کا حامی قرار دیا بلکہ ان کو محمد گاندھی کہہ کر پکارتے تھے۔ گاندھی جی کو پاکستان کا حامی قرار دیتے تھے۔ آج تک ان کی کتابوں میں درج ہے کہ ملک کی تقسیم کے ذمہ دار گاندھی ہیں۔ آر ایس ایس کے شاکھاؤں میں جہاں مسلم دشمنی اور اسلام دشمنی کی تعلیم دی جاتی ہے وہیں گاندھی دشمنی کا پاٹھ بھی پڑھایا جاتا ہے۔ جو لوگ اس وقت حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں ان میں نوے فیصد لوگ آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ہیں۔ گاندھی دشمنی ان کے رگ رگ میں پیوستہ ہے۔ 
    اس وقت جو سارے ملک میں احتجاج اور مظاہرے ہورہے ہیں جن سے حب الوطنی کا اعلان اور اظہار ہورہا ہے، ہندو اور مسلمانوں کے اتحاد کا بھی مظاہرہ ہورہا ہے، اس سے ان کی دیش بھکتی یا وطن پرستی کی اجارہ داری نہ صرف خطرے میں ہے بلکہ ختم ہورہی ہے۔ شاہین باغ کے مظاہرے یا لکھنؤ کے گھنٹہ گھر کے مظاہرے یا ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں سے ان کی دشمنی اس لئے بڑھتی جارہی ہے کہ جو ان کی وطن پرستی کا ناٹک تھا ان کا پردہ چاک ہوتا جارہا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ یا شاہین باغ سے ان کی دشمنی کچھ زیادہ ہی بڑھتی جارہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ہندو مسلم انتشار میں رکاوٹ ہورہی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ دہلی میں الیکشن کا موسم ہے۔ حسب عادت اور حسب معمول بی جے پی ہر الیکشن کو پولرائزد کرنا چاہتی ہے۔ شاہین باغ یا جامعہ ملیہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اس لئے بھی حکومت پریشان ہے۔ مودی اور شاہ ان کے لوگ شاہین باغ کو منی پاکستان کہہ رہے ہیں۔ طرح طرح کے الزامات تراش رہے ہیں۔ کبھی سدھیر اور چورسیا (گودی میڈیا کے لوگ) کو بھیج کر اپنا مقصد پورا کرنا چاہتے ہیں اور کبھی نوجوانوں کے ہاتھ میں پستول دے کر بھیج رہے ہیں تاکہ مظاہرین کے حوصلے پست ہوں۔ مگر اس میں انھیں کوئی کامیابی نہیں مل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی سے لے کر کپل مشرا تک دنگے اور فساد پر اتر آئے ہیں۔
     گزشتہ سال 15دسمبر کو نریندر مودی نے کہا تھا کہ مظاہرین کو ان کے کپڑوں سے پہچانا جاسکتا ہے۔ اور ان کے دست راست امیت شاہ نے دہلی میں کہاکہ 8 فروری کو اس طرح ووٹ مشین کا بٹن دبایا جائے کہ شاہین باغ میں بیٹھی خواتین کو کرنٹ لگے۔ 27جنوری کو انوراگ ٹھاکر نے نعرے بازی کی تھی کہ ”دیش غداروں کو“ تو بھیڑ کا جواب تھا”گولی مارو سالوں کو“۔ 28جنوری کو پرویش سنگھ ورما نے شاہین باغ کے بارے میں کہاکہ ”یہ لوگ لاکھوں کی شکل میں جمع ہوں گے اور ہمارے گھروں میں گھس کر ہماری بہنوں، عورتوں کا بلتکار کریں گے“۔ یہ سب بیانات یا نعرے بازیاں کیا باپو نے سکھائی ہیں؟ یہ سب باتیں تو صاف صاف ساورکر اور گوڈسے کے زبان اور بیان سے ملتی جلتی ہیں۔ اس لئے صدر جمہوریہ کا یہ کہنا کہ ’سی اے اے‘ سے گاندھی جی کی عزت افزائی ہورہی ہے یا ان کے خوابوں کی تعبیر پوری کی جارہی ہے، گاندھی جی کے ساتھ کھلا ہوا مذاق ہے اور اسی طرح کا سفید جھوٹ ہے جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی نے رام لیلا میدان میں کہا تھا کہ ’این آر سی‘ کا کبھی ذکر ہی نہیں ہوا تھا۔ پورے ہندستان میں کہیں حراست کیمپ بھی نہیں ہے۔ صدر جمہوریہ کو بھی حکومت نے جھوٹ بولنے پر مجبور کیا۔ ان کے جھوٹ کی قلعی اسی وقت کھل گئی جب اپوزیشن کے لیڈروں نے اعتراض جتایا کہ ملک بھر میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ ہورہا ہے اور ملک کے آدھے سے زیادہ لوگ سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ ایک ایک جگہ کئی مہینے سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ گاندھی جی کے خواب کو پورا کیا جارہا ہے اور اس سے ملک کی عزت افزائی ہورہی ہے۔ جبکہ دنیا بھر میں اس کالے قانون کی وجہ سے ملک کی رسوائی ہورہی ہے۔ مودی سرکار یا ان کی پارٹی جتنا بھی چاہے کہ گاندھی اور امبیڈکر سے اپنے آپ کو جوڑے لیکن مشرق اور مغرب کو جوڑنا، کالے اور سفید کو ایک کہنا، حق اورباطل کو ایک بتانا ہنسی، کھیل اور تماشہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ زندہ گوڈسے جو اب گوپال کے روپ میں نظر آیا اس کے فیس بک وال میں لکھا ہوا

ہے کہ شاہین باغ کا کھیل ختم۔ شاہین باغ کا کھیل تو ختم نہیں ہوا لیکن اس کا کھیل ختم ہوگیا۔ ایک دن آئے گا مودی سرکار کی گاندھی بھکتی کا دن بھی ختم ہوجائے گا۔ ایک روز ایسا بھی آئے گا کہ کرنٹ شاہین باغ کی باعزت اور قابل احترام خواتین کو تو نہیں لگے گا لیکن شاہ اوران کے صاحب پر بجلی گرسکتی ہے۔ کرنٹ لگ سکتا ہے کیونکہ جو لوگ انسانیت اور انصاف کے دشمن ہوتے ہیں وہ زیادہ دنوں تک لوگوں کو نہ گمراہ کرسکتے ہیں اور نہ دھوکے میں رکھ سکتے ہیں۔ (یو این این)

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں۔ 
03/ فروری2020

 

«
»

شاہین پرائمری اسکول بیدرکی طالبہ کی درد بھری فریاد

آخر کیوں کچوکے نہیں لگتے دیکھ کر مساجد کی ویرانیاں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے