حفیظ نعمانی
’یہ باتیں ہیں تب کی جب آتش جواں تھا‘ اس وقت پورے ملک میں راجہ مہاراجہ نواب اور تعلقہ داروں، بڑے چھوٹے زمینداروں، خان بہادر اور خانصاحبان کے واقعات ہر محفل میں موضوع گفتگو ہوا کرتے تھے۔ ان کی نوازشیں اور عنایتیں ان کی ادب نوازی اور غریب پروری کے ساتھ ساتھ ان کے سیرو شکار کے شوق کی داستانیں لوگ بڑھا چڑھاکر ایک کے بعد ایک سنایا کرتے تھے۔ نواب حیدر آباد نواب بھوپال اور نواب رام پور کے اقتدار کے زمانہ میں ان کے دیوان خانے دیکھنے کا تو اتفاق نہیں ہوا ان سے چھوٹے راجہ نواب اور تعلقہ داروں کے دیوان خانوں میں سجاوٹ کے لئے شیر کی کھالیں اور شیر کے سر آویزاں ہوتے تھے بعض شوقین بارہ سنگھے کے سر بھی لگاکر دل خوش کرلیا کرتے تھے۔
نواب زادوں کے شکار کے واقعات ان کی بہادری نشانہ بازی اور بندہ پروری کی کہانیاں محفل کی رونق ہوا کرتی تھیں اس زمانہ کا ایک سنا ہوا واقعہ کل رات اس وقت یاد آیا جب اچانک ٹی وی پر اعلان ہوا کہ کشمیر کے گورنر نے ودھان سبھا بھنگ (تحلیل) کردی۔ یہ اس وقت بتایا گیا جب کافی دیر سے کہا جارہا تھا کہ کانگریس پی ڈی پی اور عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے مل کر حکومت بنانے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ محبوبہ مفتی نے ایک خط گورنر صاحب کو لکھا ہے کہ 57 ممبروں میں کانگریس اور پی ڈی پی مل کر حکومت بنا رہے ہیں اور عمر عبداللہ باہر سے تعاون دیں گے۔ اسی کے ساتھ یہ خبریں بھی آرہی تھیں کہ گورنر صاحب کی فیکس مشین بند ہے اور ٹیلیفون وہ اٹھا نہیں رہے ہیں۔ ان باتوں کے درمیان ہی غلام نبی آزاد کو پریس سے یہ کہتے سنا گیا کہ ابھی یہ سجھاؤ ہے کہ اس طرح حکومت بنالی جائے۔ لیکن جموں کشمیر کی اسمبلی میں ایسی حکومت جو صرف کشمیر والوں کی ہو ایک طرح سے آزاد کشمیر ہوجائے گی اور جو بات پنڈت جواہر لعل نہرو برداشت نہ کرسکے وہ بات شری نریندر مودی اور شری موہن بھاگوت برداشت کرلیں تو سورج کا مغرب سے نکلنا اور مشرق میں غروب ہونا جیسا ہوگا۔
شکار کے جس واقعہ کو ہم سنانا چاہتے تھے وہ یہ تھا کہ ایک نواب زادے نے شکار کے دوران ایک شیر کے گولی ماری تو وہ چند قدم تڑپ کر ڈھیر ہوگیا نواب زادہ مچان پر بیٹھ کر یہ اطمینان کرنا چاہتے تھے کہ وہ مرجائے تو اتریں اتنے میں ہی ایک شیر کا بچہ اس کے پاس آیا اور اس کے دودھ تلاش کرنے لگا شیر نے کوئی حرکت نہیں کی تو نواب زادہ کو معلوم ہوگیا کہ وہ شیرنی ہے اور مرچکی ہے۔ وہ واپس آئے تو اس بچہ کو بھی ساتھ لے آئے اور ریاست کے تجربہ کار لوگوں کو بلاکر اس کی پرورش کا انتظام کیا اور وہ گھر میں سب سے مانوس ہوکر ایک فرد بن گیا۔
ایک دن نواب زادہ دھوپ میں بیٹھے تھے کہ کرسی کے ایک بازو پر آستین سے باہر باندھ رکھی تھی اس نے محبت میں چاٹنا شروع کردیا دو چار منٹ کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ اس کی زبان کے کانٹے چبھ رہے ہیں پھر اس کی زبان تیزی سے چلنے لگی نواب زادہ کو اندازہ ہوگیا کہ زبان کو خون لگ گیا انہوں نے بیٹے کو آواز دی کہ رائفل بھری رکھی ہے جلدی سے اٹھاکر لاؤ میری بغل میں کھڑے ہوکر اس کے سینے میں گولی مار دو بیٹے نے جواب دینا چاہا تو اسے ڈانٹ دیا اور کہا کہ ایک سیکنڈ بھی ضائع نہ کرو ورنہ ہم نہیں رہیں گے۔ بیٹے نے حکم کی تعمیل کی اور شیر کے بچہ کے گولی ماردی۔ بعد میں نواب زادہ نے غم میں ڈوبی آواز سے کہا کہ اس کے منھ کو انسان کا خون لگ گیا تھا یہ جنگل میں بھی چھوڑ دیا جاتا تب بھی آدم خور ہوتا اس لئے اس کا مرنا ضروری تھا۔
محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ یا اور جو بھی یہ کھچڑی پکا رہا تھا اس نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ جموں بی جے پی کے منھ کو حکومت کا خون لگ چکا ہے۔ اب اس کا نشانہ تو یہ ہے کہ وزیراعلیٰ بی جے پی کا ہو اور جب تک یہ نہ ہو تو اتنا تو ضرور ہو کہ جو حکومت بنے اس میں بی جے پی کے پاس اہم محکمے ہوں اور اب اسے بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ بقل نواب صرف لکھنؤ میں ہی نہیں ہوتے پیسے کی یا حکومت کی خاطر ایمان اور عزت آبرو نیلام کرنے والوں کی ایک قیمت ہوتی ہے ہر کشمیری لیڈر کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ گولی آخری نہیں پہلی ہے بغیر بی جے پی کے جو حکومت بھی بنے گی دیر سویر اسے گولی ماردی جائے گی اور وہ گولے بھی داغے جاسکتے ہیں جن کا ذکر ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔
مصر کی اخوان المسلمین جیسی دینی جماعت کے بانی شیخ حسن البنا شہیدؒ لکھ گئے ہیں کہ جو نہیں بکا یہ نہ سمجھو کہ وہ ناقابل فروخت ہے بلکہ یہ سمجھو کہ اس کی قیمت نہیں لگی ہے۔ پی ڈی پی کے بانی مفتی سعید صاحب بی جے پی کے ساتھ حکومت بنا چکے فاروق عبداللہ بی جے پی کے ساتھ رہ چکے عمرعبداللہ نے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی کوشش کی تو اب یہ کیوں نہیں ہوسکتا کہ کشمیر میں بی جے پی مسلمانوں کو ٹکٹ دے اور اتنا روپیہ دے جو دیکھا بھی نہ ہو تو کیا مشکل ہے کہ بی جے پی کے ہی ہندو اور مسلمان اتنے ایم ایل اے ہوجائیں کہ حکومت بنالیں۔ یہ تو وہاں ہوسکتا ہے جہاں صرف ایک عقیدہ کے لوگ رہتے ہوں کشمیر میں اتنے فرقے اور اتنے مسلک ہیں جو ان کی سب سے بڑی کمزوری ہے اور سیاسی طور پر جو انتشار ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے ایسے میں ان سے مقابلہ جن کا مقصد صرف اور صرف کشمیر کو قبضہ میں رکھنا ہے متحد ہوئے بغیر ان سے مقابلہ کیسے ہوسکتاہے؟
جواب دیں