مودی جی واپسی کیلئے پورا خزانہ لٹا سکتے ہیں

حفیظ نعمانی

ملک میں حکومت بن جانے کے بعد وزیراعظم یا صدر کی حیثیت خاندان کے بزرگ کی ہوجاتی ہے۔ اس کی پارٹی ہو یا مخالف پارٹی وہ دونوں کے سرپرست ہوتے ہیں۔ اگر خاندان کے بزرگ ناپ تول میں بے ایمانی کریں تو اسے نہ دوست معاف کریں گے نہ دشمن۔ 2014 ء میں ملک کی اکثریت کانگریس کے خلاف ہوگئی تھی۔ مودی جی نے بی جے پی کے اُمیدوار کی حیثیت سے آواز دی تو عوام کی بھیڑ اُن کی بات سننے کے لئے جمع ہوگئی اور جب انہوں نے بتایا کہ وہ حکومت بناکر کیا کیا کرنا چاہتے ہیں تو ہر طرف مودی مودی مودی کے نعرے لگنے لگے۔
الیکشن میں 280 ممبروں کو جتاکر لانے والے مودی کو اٹل جی سے بھی بڑا لیڈر سمجھنے لگے اور انہوں نے اپنی ابتدائی تقریروں میں جو کہا اس سے اندازہ ہوا کہ وہ تاریخ کے اس باب میں اپنا نام لکھوا لیں گے جس میں پنڈت جواہر لعل نہرو کا نام لکھا ہوا ہے۔ انہوں نے ملک کو یقین دلایا کہ جن ممبروں پر الزامات لگے ہوئے ہیں اور جن کو داغی کہا جارہا ہے ان کا ایک سال کے اندر فیصلہ کردیا جائے گا جو داغی ثابت ہوں گے وہ جیل جائیں گے اور جو پاک صاف ہیں وہ پارلیمنٹ کی عزت بڑھائیں گے۔
اس کے بعد سب سے پہلے ہریانہ پھر مہاراشٹر کے الیکشن آئے ان میں وہ وزیراعظم نہیں بلکہ وہی مودی نظر آئے جو الیکشن کے وقت تھے وہی گھن گرج وہی منھ سے جھاگ وہی بار بار پانی یعنی اپنے اُمیدوار والے الیکشن اور وزیراعظم بن جانے کے بعد والے الیکشن میں رتی برابر فرق نہیں رکھا اس برتاؤ سے سنجیدہ لوگوں کو مایوسی ہوئی۔ لیکن کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی اس لئے سب خاموش رہے۔ پھر دہلی کا الیکشن آیا اسے انہوں نے امت شاہ کے ذریعہ اتنی نیچی سطح پر اترکر لڑنا چاہا کہ دہلی کا ہوشمند ووٹر بھڑک گیا اور الیکشن کو بالکل الٹ دیا جو حشر انہوں نے اترپردیش کا کیا تھا کہ 80 سیٹوں میں 73 پر قبضہ کرلیا۔ دہلی میں بالکل اُلٹا ہوگیا کہ وہ تین سیٹوں تک محدود رہ گئے۔ اس کے بعد بہار کا الیکشن آیا تو سب کو اندازہ ہوگیا کہ 2014 ء میں دھوکہ ہوگیا اور بہار میں بی جے پی کو تیسرے نمبر پر پہونچا دیا۔
اس کے بعد مودی جی نے اپنے سارے مکھوٹے اتار دیئے گوا میں اور منی پور میں دونوں جگہ کانگریس کے ممبر زیادہ آئے۔ ان میں قیادت کا تنازعہ کھڑا ہوگیا مودی جی نے رتن گڈکری کو بوروں میں نوٹ بھرکر دیئے کہ جاکر ممبر خرید لو اور تین دن کے بعد معلوم ہوا کہ دونوں جگہ بی جے پی کی حکومت بن گئی۔ پھر پورے ملک میں ان کی حیثیت تیسرے درجہ کے لیڈر کی ہوگئی جس کا سب سے بڑا ثبوت وہ داغی ممبر ہیں جن کو ایک سال میں جیل بھیجا جارہا تھا ان کے لئے ابتدائی عدالت بھی نہ بن سکی اور جب کرناٹک میں الیکشن ہوا تو اور اترپردیش میں ہوا تو انہوں نے ڈاکٹر پروین توگڑیا اور ونے کٹیار کی سطح پر اترکر تقریریں کیں اور جس فرقہ پرستی کو سیکولر پارٹیوں نے دبا دیا تھا اسے اور زیادہ گہرے بھگوا رنگ کے کپڑے پہنائے اور ہندوؤں کو بھی تقسیم کرنا شروع کردیا جو ہندو مسلمانوں سے قریب ہوں وہ ہلکے ہندو جو مسلمان سے چھوت چھات کریں وہ گاڑھے ہندو اور یہ اس کا نتیجہ ہے کہ وہ اکھلیش یادو جس کی پارٹی کی آدھی طاقت مسلمان تھے اب مسلمان کا نام لیتے ہوئے ڈرتا ہے اور قابل معافی اس لئے ہے کہ وہ ابھی بچہ ہے۔
ہمیں سب سے زیادہ صدمہ اس وقت ہوا جب کرناٹک کے الیکشن میں بی جے پی کو 113 کے بجائے صرف 104 سیٹیں ملی تھیں ظاہر ہے کہ 9 سیٹوں کی کمی سے حکومت بننے کا کیا سوال اور کانگریس کو 80 جنتا دل ایس کو 37 لیکن مودی جی نے امت شاہ کے ساتھ فتح کا جشن منایا مٹھائی بانٹی اور گورنر جس کی حیثیت ان کے نوکر کی ہے ان سے کہا کہ ان کے آدمی کو وزیراعلیٰ کا حلف دلاؤ کیونکہ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ ان سے پہلے گورنر کے پاس جنتا دل ایس کے کمارا سوامی کانگریس کے 80 امیدواروں کی حمایت کا خط لے کر پہونچ گئے کہ ہمارے محاذ میں 118 ممبر ہیں حلف کے لئے ہمیں بلایا جائے۔
وزیراعظم نے اپنے آدمی کو حلف دلا دیا اور گورنر نے 15 دن کا وقت دے دیا کہ اپنی اکثریت ثابت کردیں۔ کانگریس نے سپریم کورٹ سے فریاد کی وہاں سے حکم ہوا کہ دو دن کے اندر اگر اکثریت ثابت کردیں تو حکومت بنالیں۔ اور وزیراعظم اور امت شاہ منھ دیکھتے رہ گئے۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پانچ سال صبر کرتے یا حکومت میں پھوٹ پڑتی تو کچھ کرتے۔ لیکن ملک کے باپ ہونے کے باوجود ہر دن کرناٹک کی حکومت گرانے کی سازش ہورہی ہے اور خود اتنے ڈرپوک ہیں کہ اپنے 104 ممبر ہریانہ کے ایک ہوٹل میں بند کررکھے ہیں۔
ایسی ہی حرکتیں ہوتی ہیں جن سے عوام حکومت اور وزیراعظم کو دشمن سمجھنے لگتے ہیں اور یہ اس کا ہی نتیجہ ہے کہ پانچ ریاستوں میں لڑے اور سب میں ہارے۔ اب ان کی اور پارٹی کی وہی حیثیت ہوگئی ہے جو 2014 ء میں کانگریس کی تھی اور مودی کی حیثیت وہ ہوگئی ہے جو سونیا گاندھی کی تھی اور اس میں سارا قصور نریندر مودی نام کے وزیراعظم کا ہے جو 56 اِنچ کا سینہ لے کر آئے تھے اور اب 36 بھی نہیں رہا۔ وہ بھرشٹاچار مکت بھارت بنانے کا یقین دلا رہے تھے اور ان کی پارٹی کرناٹک کے ایک ایم ایل اے کو خریدنے کے لئے 60 کروڑ روپئے اور وزارت دینے کا لالچ دے رہی ہے۔ حکومت کے جس خزانے کو بھرنے کے لئے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی تلوار چلائی کیا وہ خزانہ مخالف حکومت گرانے میں خرچ ہوگا؟ پھر بھرشٹاچار کا مجرم کون ہوا؟

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:20؍جنوری2019(ادارہ فکروخبر)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے