پیغمبر اسلام حضرت محمد ؐ کی شان میں گستاخی نے پوری دنیا کے سامنے بی جے پی کی پالیسی طشت از بام کر دی
کلیم الحفیظ
ملک کی موجودہ اقتصادی صورت حال کیا ہے،تقریباً ہر باشعور اور تعلیم یافتہ شہری کو علم ہوگا۔آج بی جے پی اپنی مودی حکومت کے 8/ سالہ سفر کا جشن منا رہی ہے۔مودی حکومت اور بی جے پی نیز آر ایس ایس کے ترجمان چیخ چیخ کر عوام کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم نے ملک کا ’وِکاس‘ کیا ہے لیکن زمینی سچائی یہ ہے کہ گزشتہ 8/ برسوں میں ملک کا صرف و صرف ’وِناش‘ ہوا ہے۔ گفتگو پورے استدلال سے کی جائے گی اور غیر ضروری تنقید وتبصرہ سے گریز کیا جائے گا تاکہ تصویر واضح ہو جائے۔آپ کو یاد ہوگا کہ جب گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم کا امیدوار بنایا گیا تو ان کے مطابق 7/ اپریل 2014/ کو بی جے پی نے اپنا انتخابی منشور جسے یہ’سنکلپ پتر‘ کہتے ہیں جاری کیا تھا۔یہ منشور اب بھی ہمارے پاس موجود ہے۔اس میں کیے گئے وعدے زبان زد عام و خاص ہیں۔اس میں ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘کا نعرہ دیا گیا تھا اور اب اس میں ”سب کا وشواس“ بھی جوڑ دیا گیا جو حقیقت سے بہت دور کی بات ہے۔بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں سب سے پہلے مہنگائی کو ختم کرنے کا وعد ہ کیا تھا۔آپ کو یاد ہوگا مودی حکومت سے پہلے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت والی یوپی اے حکومت تھی اور بی جے پی کی جانب سے پورے ملک میں علم احتجاج بلند کیا جا رہا تھا کہ مہنگائی آسمان پر ہے۔31/ مئی 2012/ کو بی جے پی کی جانب سے بھارت بند کیا گیا تھا جس میں مہاراشٹر سمیت کئی مقامات پر پتھراؤ کیا گیا تھا، توڑ پھوڑ کی گئی تھی اور نہ جانے کیا کیا گیا تھا۔خیر یہ بی جے پی کا وعدہ تھا اور اس سے متعلق ایک نعرہ بھی دیا گیا تھا ”بہت ہوئی مہنگائی کی مار۔اب کی بار مودی سرکار“ لیکن گزشتہ 8/ برسوں میں کیا ہوا سب کے سامنے ہے۔ کیا مہنگائی پر قابو پایا جا سکا؟ یوپی اے کے دور میں جو گیس سلنڈر کی قیمت ساڑھے چار سو تھی اس کی آج قیمت ایک ہزار روپے سے پار ہو گئی۔پٹرول کی قیمت70/ روپے تھی جو آج 100/ روپے کے پار ہے۔ ڈیژل کی قیمت 55/ روپے فی لیٹر تھی وہ آج 90/ روپے سے بھی زیادہ ہے۔ جہاں تک بات خام تیل کی ہے تو جس وقت یوپی اے کے دور میں 75/ روپے فی لیٹر پٹرول کی قیمت تھی اس وقت عالمی بازار میں خام تیل کی قیمت 120/ امریکی ڈالر فی بیرل تھی جو آج بھی ہے جبکہ مودی حکومت میں عالمی بازار میں خام تیل کی قیمت 40/ ڈالر فی بیرل بھی رہ چکی ہے لیکن 75/ روپے سے کم پٹرول کی قیمت نہیں کی گئی کیونکہ لوٹ کا بازار گرم رکھنا تھا اور اپنے دوستوں کو فائدہ پہنچانا تھا۔جو سی این جی کی قیمت 35/ روپے فی کلو گرام تھی اس کی آج قیمت 80/ روپے فی کلوگرام ہو گئی ہے۔کھانے کے تیل کی قیمت ہو یا دیگرخوردنی اشیاء کی قیمتیں،کہاں ہیں سب کو معلوم ہے۔لیکن کیا اس پر بی جے پی یا گودی میڈیا کی طرف سے کوئی بات ہو رہی ہے؟ بی جے پی کے اسی انتخابی منشور میں کسانوں کے لیے کئی وعدے کیے گئے تھے جن میں سے سب سے اہم تھا کہ ان کی آمدنی کو دو گنا کیا جائے گا لیکن کسانوں کے ساتھ دھوکہ کیا گیا۔ ان کی زمینوں کو نیلام کرنے کی سازش کی گئی۔غیر قانونی طریقہ سے تین زرعی قوانین بنائے گئے جن میں کسانوں کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبے تھے چنانچہ ملک بھر کا کسان اٹھ کھڑا ہوا، کئی مہینے تحریک چلائی اور اس وقت تک دھرنے سے نہیں اٹھا کہ جب تک اس کے مطالبات کو قبول نہیں کر لیا گیا۔ اس میں 700/ کے قریب کسانوں کی موت بھی ہوئی۔ ہزاروں کسانوں پر مقدمات درج کیے گئے۔ تحریک کو کمزور کرنے کے لیے ان پر دہشت گردی کا الزام تک عائد کیا گیا لیکن کسان سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ٹکری بارڈر، سنگھو بارڈر اور غازی پور بارڈر پر ڈٹے رہے۔حکومت کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑااور تین زرعی قوانین کو واپس لینا پڑا۔ حالانکہ کسانوں سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ اب بھی پورے نہیں کیے گئے اور نہ ہی مستقبل میں کوئی امید لگ رہی ہے۔ تیسرا اہم وعدہ تھا کہ غیر ممالک میں جو ہندوستان کا ’کالا دھن‘ہے وہ واپس لایا جائے گا اور ہر ہندوستانی شہری کے اکاونٹ میں پندرہ پندرہ لاکھ روپے دیے جائیں گے لیکن اس کو خود وزیر داخلہ امت شاہ نے جملہ قرار دے دیا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ’کالا دھن‘واپس آنے کی بجائے ہندوستان کا ’سفید دھن‘کالا کر دیا گیااور نہ یہ دیا گیا کہ ’نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا‘۔نوٹ بندی کی روشنی میں اگر دیکھیں گے تو اندازہ ہو گا کہ مودی حکومت کا یہ سب سے بڑا گھپلا ہے جس نے ملک کی جی ڈی پی کی شرح 4/ فیصد تک کم کر دی۔ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اگر ایک فیصد جی ڈی پی کم ہوتی ہے تو ملک کو دو لاکھ کروڑ کا نقصان ہوتا ہے تو سمجھ لیجئے کہ مودی حکومت نے صرف نوٹ بندی کرکے ملک کا کتنا بڑا نقصان کیا ہے۔ مودی حکومت نے اپنے انتخابی منشور میں چوتھا اہم وعدہ نوجوانوں سے کیا تھا کہ وہ ہر سال دو کروڑ روزگار دے گی لیکن کیا اس دوران یہ رپورٹ نہیں آئی کہ گزشتہ45/ سال میں سب سے زیادہ بے روزگاری مودی حکومت میں ہوئی ہے؟ سرکاری نوکریاں تقریباً ختم ہو گئی ہیں اور کارپوریٹ کمپنیوں نے تو استحصال کے معاملے میں انگریزی کمپنیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے نتیجہ کیا ہے کہ نوجوان خود کشی کرنے پر مجبور ہے۔ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں پانچواں اہم وعدہ ”گڈ گورننس“ کا کیا تھا لیکن نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی)کا 2020/ کا ڈاٹا ہے جس کے مطابق اوسطاً 80/ قتل ہر روز ملک میں ہو رہے ہیں اور ۷۷/ معاملے آبرو ریزی کے درج کیے جا رہے ہیں۔صرف 2020/ میں 29/ ہزار193/ لوگوں کا قتل ہوا ہے جبکہ 28/ ہزار 46/ خواتین کی آبروریزی کی گئی ہے جو آن ریکارڈ ہے۔ کیا یہ گڈ گورننس ہے؟ مودی حکومت سے قبل ہمارا ملک ”وِکاس شیل“ تھا لیکن ورلڈ بینک نے اب اس فہرست سے ہندوستان کو ہٹا دیا ہے۔100/ اسمارٹ شہر بنانے کی بات کی تھی تو کیا وہ تعمیر ہوئے؟ بلٹ ٹرین کیا کہیں کسی کو نظر آ رہی ہے؟ گنگا ماتا کہیں کسی کو صاف ستھری نظر آ رہی ہیں؟ اس طرح کی اور بھی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں اور پورے وثوق سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حکومت ہر سطح پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ لیکن یہاں خارجہ پالیسی اور اقلیتوں سے متعلق جو وعدے کیے گئے تھے ان کا ذکر لازمی ہے کیونکہ آج ملک کا جو ماحول ہے وہ ملک کے ساتھ ساتھ ملت کے خلاف بھی ہے۔ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور 2014/ کے صفحہ نمبر 27/ پر لکھا ہے کہ ملک کے مسلمانوں کی حالت اچھی نہیں ہے اور مساوی مواقع کے بغیر ملک ترقی نہیں کر پائے گا اس لیے ہندوستان کی ترقی میں سب کی برابر حصہ داری ہوگی تو کیا آج ایسا کہیں نظر آ رہا ہے؟ ماب لینچنگ سے لیکر مذہبی منافرت تک میں کیا اضافہ نہیں ہوا؟ آج مسلمانوں کا دائرہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔مذہبی معاملوں میں مداخلت کی جا رہی ہے۔ تین طلاق کا مسئلہ ہو یا حجاب کا معاملہ، تعلیم کا معاملہ ہو یا مدارس کے نظام تعلیم کا معاملہ سب پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں جو واقعہ پیش آیا ہے،اس نے ناکام خارجہ پالیسیکو طشت از بام کر دیا۔ بی جے پی کی قومی ترجمان نپور شرما اور نوین کمار جندل نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ؐ کی شان میں گستاخی کی اور ملک کا ماحول خراب کرنے کی سازش کی لیکن ملک کا مسلمان خاموش رہا اور تھانوں میں جاکر آئین کی روشنی میں کاروائی کا مطالبہ کیا تاہم مودی حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ملک کا 25/ کروڑ مسلمان مطالبہ کرتا رہا لیکن حکومت خاموش رہی اور جب اس کا رد عمل سعودی عرب، ایران، قطر، یو اے ای سمیت 25/ مسلم ممالک میں سامنے آیا تو بی جے پی بیدار ہوئی۔ عالمی دباؤ میں اس نے اپنے دونوں لیڈران کے خلاف کاروائی کی۔ حکومت اب بھی خاموش ہے جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ دونوں کو جیل بھیجا جائے اور یو اے پی اے کے تحت بھیجا جائے کیونکہ ان کی حرکتوں سے ملک کی بدنامی کے ساتھ ساتھ اقتصادی نقصان بھی ہوا ہے۔ہمارے سفارتکار پہلی بار طلب کیے گئے۔ بہر کیف کیا مذکورہ بالا باتوں کا جواب بی جے پی اور مودی حکومت کے پاس ہے؟
(مضمون نگار کل ہند مجلس اتحاد المسلمین دہلی کے صدر ہیں)
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں