ہندو-مسلم اتحاد فرقہ پرستوں کے اقتدار کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے!
عبدالعزیز
پنجاب کی رہنے والی ٹی وی ایکٹریس جسبیر کور جو اس وقت حیدر آبا دمیں قیام پذیر ہیں ان کی ایک تقریر سوشل میڈیا میں وائر ل ہوئی ہے۔ محترمہ اپنی تقریر میں فرماتی ہیں ”میں نے آج دو کتابیں پڑھی ہیں۔ ایک کتاب ’جلیانوالہ باغ کے سانحہ‘ سے متعلق ہے اور دوسری کتاب ’ہٹلر کی عملی پالیسی‘ پر مشتمل ہے“۔ پہلی کتاب کو دکھاتے ہوئے انھوں نے کہاکہ اس میں جلیانوالہ باغ کے سانحے کے بارے میں اور جنرل ڈائر کے کردار کے متعلق واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ جنرل ڈائر نے اپریل 1919ء بیساکھی کے میلے کے دوران جب ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب بڑی تعداد میں ایک جگہ جمع تھے تو اپنے سپاہیوں کے ساتھ آتے ہی نہتے مردوں، عورتوں، بوڑھے اور بچوں پر گولیوں کی بارش کردی، جس کے نتیجے میں سیکڑوں لوگ ہلاک ہوئے اور ہزاروں لوگ زخمی ہوئے۔ جب جنرل ڈائر سے کہا گیا کہ آپ نے بہت ہی غلط اور ظالمانہ کام کیا ہے کہ بے قصور لوگوں کو اپنی گولیوں کانشانہ بنایا جبکہ وہ سب پُرامن تھے اور ایک میلہ میں ہنسی خوشی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ جنرل ڈائر نے جواب میں کہاکہ ”میں نے جو کچھ کیا وہ بالکل صحیح کیا، کیونکہ جو لوگ بیساکھی میلے میں شریک تھے وہ سب کے سب برطانوی Empire (بادشاہ) کے Disloyal(بے وفادار) تھے اور ہندو مسلمانوں کا اتحاد برطانوی اقتدار کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے“۔ اس سے پہلے بھی اس وقت بھی ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ برطانوی حکومت کی پالیسی تھی۔
محترمہ کور نے بتایا کہ آج ہندستان میں ٹھیک وہی حالات ہیں۔ اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ آج جو ہندو مسلمان متحد ہورہے ہیں، ایک ساتھ مظاہرے اور احتجاج کر رہے ہیں ان کو اپنے اقتدار کیلئے وہ سب سے بڑا خطرہ دکھائی دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ان ریاستوں میں آج کے جنرل ڈائر کے سپاہی پرامن جلوسوں اور مظاہروں پر اندھا دھند گولیاں چلا رہے ہیں۔ اس وقت کے سب سے بڑے جنرل ڈائر یوگی ادتیہ ناتھ ہیں جن کو میں یوگی کہنا گناہ سمجھتی ہوں۔ در اصل وہ ڈھونگی ہیں۔ یوگی اور جوگی کے نام پر وہ برسوں سے ڈھونگی کا کام انجام دے رہے ہیں۔ اس نے اتر پردیش کے پچیس تیس ضلعوں میں پرامن جلوسوں پر بے تحاشہ چلانے گولیاں چلانے کا حکم دیا اور پولس کے ذریعے اور آر ایس ایس کے لوگوں کی مدد سے جو سرکاری جائیدادیں تباہ و برباد کی گئیں ان کا معاوضہ مظلوموں سے وصولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری کتاب کو دکھاتے ہوئے جو ہٹلر کی زندگی اور کردار پر ہے محترمہ جسبیر کور نے کہا کہ ”ہٹلر بہت اچھی اچھی باتیں کرتا تھا لیکن Holocaust (ہولوکوسٹ) میں 60لاکھ یہودیوں کو زندہ جلا دیا۔ اسی طرح آج موہن بھاگوت اور نریندر مودی بہت اچھی اچھی باتیں بیان کرتے ہیں لیکن کام وہی کرتے ہیں جو ہٹلر نے اپنے ملک میں اپنے اقتدار کے دوران کیا تھا۔ جس طرح ہٹلر یہودیوں کے جان و مال کا دشمن تھا اسی طرح آج کے صاحبِ اقتدار مسلمانوں کی جان و مال کے دشمن ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جس چیز سے ان کو خطرہ نظر آرہا ہے اس خطرے کو بڑے پیمانے پر دکھایا جانا چاہئے۔ وہ خطرہ ہے ’ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کا اتحاد‘۔ یہی اتحاد ان کے اقتدار کا خاتمہ کرسکتا ہے۔
جلیانوالہ باغ کی ڈائری: ایک پاکستانی صحافی بہت دنوں سے کوشش کر رہا تھا کہ وہ ہندستان آئے اور جلیانوالہ باغ میں جہاں سانحہ ہو ا تھا اس جگہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنے قلم سے کاغذ کے صفحات پر رقم کرے۔ اس کی ڈائری ملاحظہ فرمائیے:
”13 اپریل 1919ء کا دن برصغیر کی تاریخ میں لہو کی روشنائی سے لکھا گیا ہے۔ اس روز برطانوی حکومت کے ایک بددماغ افسر جنرل ڈائر کےحکم پر امرتسر کے ایک احاطے میں جمع شہریوں کے اجتماع پر بلا اشتعال فائرنگ کر کے سینکڑوں افراد کو ہلاک اور زخمی کر دیا گیا تھا۔
اس تاریخی مقام کو دیکھنے کی خواہش عرصہ دراز سے میرے دل میں تھی، لیکن بھارت اور خاص طور پر امرتسر کا ویزا حاصل کرنا کسی پاکستانی کیلئے جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔
جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی بغاوت اور گولڈن ٹیمپل پر آنجہانی اندرا گاندھی کے زمانے میں ہونے والے آپریشن کے بعد سے پاکستانیوں کو امرتسر کا ویزا نہیں ملتا، لیکن پاکستان سوشل فورم اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجو کیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) کی، جو پاک -بھارت تعلقات کی بحالی اور دونوں ممالک کے درمیان پائدار دوستی کیلئے کوشاں ہیں، بدولت مجھے امرتسر کا ویزا مل گیا۔
میں جلیانوالہ باغ آٹھ سیٹر رکشہ پر پہنچا جو امرتسر شہر کے وسط میں جی ٹی روڈسے ذرا ہٹ کر گولڈن ٹیمپل سے تقریباًدو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ باغ میں داخلے کیلئے تنگ سی گلی ہے لیکن پاکستان کے پارکوں کی طرح کوئی داخلہ ٹکٹ نہیں۔ یہ قومی یادگار ہے اور باغ میں داخل ہوتے ہی اس مقام سے واسطہ پڑتا ہے جہاں کھڑے ہو کر جنرل ڈائر نے فائرنگ کا حکم دیا تھا۔
اس سے چند قدم کے فاصلے پر ’شعلہ آزادی‘ ہے۔ یہ شعلہ ہندستانیوں کو اس سانحہ اور انگریزوں سے آزادی کیلئے ادا کردہ قیمت کی یاد دلانے کے ساتھ ساتھ ان میں آزادی برقرار رکھنے کا جذبہ بھی بیدار رکھتا ہے۔ باغ کے ایک کونے میں یادگاری مینار ہے جو سرخ اینٹوں سے اشوکا چکر کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ یہ جدید تعمیر اور پورا ماحول 1919ء کے اس سانحے کی یاد دلاتا ہے جس میں سینکڑوں افراد صرف ایک جنرل کی خواہش اور تسکین کیلئے اپنی جان گنوا بیٹھے تھے۔
اس کمپاؤنڈ میں اب بھی جگہ جگہ ان گولیوں کے نشانات محفوظ ہیں جنہوں نے انسانی سینوں اور جسموں کو چھلنی کر دیا تھا۔ کمپاؤنڈ کے وسط میں سرخ اینٹوں سے بنا محراب نما کمرہ ہے جس کی دیواریں اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتی ہیں۔
باغ کے چاروں اطراف اونچے مکانات ہیں جن کی دیواروں پر بھی گولیوں کے لاتعداد نشانات موجود ہیں جنہیں آزادی سے پہلے کی سیاسی بے چینی کے باعث ختم نہیں کیا جا سکا تھا لیکن آزادی کے بعد بھارتی حکومت نے اس جگہ کو قومی یادگار قرار دیکر گھروں کی بیرونی حالت کو جوں کا توں رکھنے کی خاطر ہر قسم کی مرمت پر پابندی عائد کر دی۔
واقعات کے مطابق 13 اپریل کو بیساکھی سے پہلے جنرل ڈائر نے شہر میں ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی عائد کر دی تھی؛ تاہم ’خالصہ کمیٹی‘ نے سکھوں کو جلیانوالہ باغ میں جمع ہونے کی ہدایت کی تاکہ اس تہوار کو حسب سابق اجتماعی طور پر منایا جا سکے۔ 13 اپریل کو شام ساڑھے چار بجے تک امرتسر اور گرد و نواح سے تقریباً پندرہ سے بیس ہزار تک افراد باغ میں جمع ہو چکے تھے۔
پانچ بجکر پندرہ منٹ پر جنرل ڈائر نے پچاس فوجیوں اور دو آرمرڈ گاڑیوں کے ساتھ وہاں پہنچ کر کسی اشتعال کے بغیر مجمع پر فائرنگ کا حکم دیا۔ اس حکم پر عمل ہوا اور چند منٹوں میں سینکڑوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔لاتعداد لوگوں نے باغ کے کونے میں بنے ہوئے کنویں میں چھلانگیں لگائیں تاکہ اپنی جانیں بچا سکیں لیکن ان پر بھی فائرنگ کر دی گئی۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق کنویں سے ایک سو بیس لاشیں نکالی گئیں اور باقی نہ نکالی جا سکیں۔
فائرنگ بیس منٹ جاری رہی جس کے بعد جنرل ڈائر اور ان کے ماتحت فوجی واپس روانہ ہو گئے۔ اس دوران ’تھری ناٹ تھری‘ کے 1650 راؤنڈ فائر کئے گئے۔ جنرل ڈائر کے اندازے کے مطابق فائر کی گئی چھ گولیوں میں سے ایک گولی جان لیوا ثابت ہوئی۔ جنرل کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد دو سو سے تین سو تھی جبکہ برطانوی حکومت کے ریکارڈ کے مطابق مرنے والوں کی تعداد تین سو اُناسی (379)اور زخمیوں کی تعداد بارہ سو تھی۔
تاہم غیر سرکاری اعداد و شمار اس کے برعکس ہیں۔ پنڈت مدن موہن مالویہ کا، جنہوں نے اس واقعہ کے فوراً بعد امرتسر پہنچ کر اپنے ساتھیوں کی مدد سے اعداد و شمار جمع کئے، کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی۔
اتنے بے گناہ لوگوں کی جان لینے والا جنرل ڈائر خود بھی ایک المناک انجام سے نہ بچ سکا اور 13 مارچ 1940ء کو اودھم سنگھ نامی ایک سکھ نے اسے لندن جا کر کیفر کردار تک پہنچا دیا۔
1920ء میں جلیانوالہ باغ کو پانچ لاکھ ساٹھ ہزار چار سو بیالیس روپے میں خرید لیا گیا لیکن برصغیر کی آزادی تک یہاں یادگار تعمیر نہ کی جا سکی۔ آزادی کے فوراً بعد اس یادگار کی تعمیر شروع ہوئی جو 1961ء میں مکمل ہوئی جس پر سوا نو لاکھ روپے خرچ اٹھا اور اسے ’شعلہ آزادی‘ کا نام دیا گیا اور اس کا افتتاح ڈاکٹر راجندر پرشاد نے کیا جو جمہوریہ بھارت کے پہلے صدر تھے۔ مرکزی یادگار کی اونچائی تیس فٹ ہے۔
سانحہ جلیانوالہ باغ، جدید انسانی تاریخ اور آزادی کی تحریکوں کا سب سے المناک واقعہ ہے جو حکمرانوں کی سنگدلی اور تنگ نظری کا مظہر بھی ہے۔ جلیانوالہ باغ کا پورا ماحول اب بھی بنا پوچھے، خاموشی سے تمام داستان بیان کر دیتا ہے۔
میرے اندر اب بھی ایک سناٹا موجود ہے، کنویں سے آنے والی خاموش صدائیں اب بھی میرا پیچھا کرتی ہیں اور یہ سوال پوچھتی ہیں کہ کیا ہم غریبوں کو طاقتور کے ظلم و جبر سے نجات دلا سکیں گے۔ شاید ایسا کبھی ہو پائے لیکن فی الحال ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا کیونکہ ڈائر نہ سہی جنرل تو اب بھی ہم پر حکمران ہیں“۔
جلیانوالہ باغ کی داستان بہت ہی خونچکاں ہے۔ سیکڑوں قلمکاروں، افسانہ نگاروں اور فلمسازوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ مولانا ولی اللہ ولیؔ بستوی نے بھی اس موضوع پر اپنے قلم کا جوہر دکھایا ہے۔
”پہلی جنگِ عظیم 1914ء سے لے کر 1918ء تک مسلسل جاری رہ کر اپنی تمامتر تباہیوں، ناگفتہ بہ بربادیوں، بے شمار انسانی ہلاکتوں، بے انتہا خونریزیوں اور قابلِ افسوس سفاکیوں کے بعد 11نومبر 1918ء کو ایک ہمہ گیرمصائب و معاہدے کے تحت بند ہوئی۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں