ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
دسمبر 2019 کا آخری عشرہ، آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ ہندوستانی عوام کے اتحاد، یکجہتی، بھائی چارگی اور فرقہ وارانہ رواداری کے احیاء کیلے یاد رکھا جائے گا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلبہ پر دہلی پولیس کے تشدد نے پورے ہندوستان کو ایک کردیا، مذھب، زبان، علاقائی خطوط سے بالاتر ہوکر ہندوستانی عوام سڑکوں پر اتر آئے، کیونکہ جامعہ ملیہ کے طلباء اور طالبات میں ہندوستانیوں کو اپنی اولاد کی جھلک نظر آئی، زخم ان لڑکے لڑکیوں کے جسم کو لگے مگر اس کی ٹیسیں ہندوستانیوں نے محسوس کیں، ایسا کیوں ہوا، یہ جذبہ اچانک کیوں پیدا ہوگیا…..
وہ اتحاد، یکجہتی، رواداری جو ماضی کی داستانوں کا حصہ بن چکی تھی، اچانک وہ بحال کیسے ہوگئی… یہ سوال شاید نریندر مودی، امیت شاہ اور ان کی جماعت اور پریوار کے کارکنوں کے ذہن میں بھی ابھر رہا ہے۔ انہیں اس بات کا قطعی اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ پورا ملک اس طرح سے ان کے خلاف متحد ہوکر اٹھ کھڑا ہوگا اور سڑکوں پر نکل آئے گا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، علیگڑھ یونیورسٹی کے طلباء اور طالبات جائز حق کے لئے احتجاج کررہے تھے، وہ دستور ہند کی خلاف ورزی کی مخالفت کررہے تھے، ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ امیتازی سلوک پر احتجاج کررہے تھے۔ مسلمانوں کے حق کیلئے احتجاج کرنے والوں میں غیر مسلم طلبا اور طالبات بھی شامل تھے، مگر پولیس کے لئے جامعہ ملیہ کے سبھی طلبہ ”دشمن“ تھے، کیونکہ جامعہ کے ساتھ اسلامیہ بھی ہے۔ انہوں نے ان نوجوان لڑکے لڑکیوں پر جس طرح سے حملے کئے اس نے ہندوستانی عوام کو مشتعل کردیا۔ اور نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے گوشے گوشے میں اس کے خلاف احتجاج کیا جانے لگا۔
19/ دسمبر کو تو جنتر منتر دہلی، کرانتی آزاد میدان ممبئی میں ہزاروں افراد دفعہ 144کے باوجود اکھٹا ہوئے، تلنگانہ، آندھراپردیش، کرناٹک، اترپردیش، بہار، میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ منگلور میں پولیس نے دروازے توڑ کر طلبہ کو باہر نکالا… بے دردی سے مظاہرین کو مارا گیا۔ فائرنگ سے دو افراد کی ہلاکتوں کے بعد کرفیو نافذ کیا گیا۔ لکھنو میں بھی پرتشدد واقعات اور فائرنگ میں ایک شخص کی ہلاکت کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے۔ پولیس کا روے یہاں بھی جارحانہ اور عوام دشمن رہا ہے۔ یہاں بھی خاکی وردی والوں کے درمیان جینز اور ریڈ ٹی شرٹ میں لاٹھی بردار نظر آئے۔
ممبئی میں پولیس نے نرم رویہ اختیار کیا، جس پر احتجاجی مظاہرین نے ممبئی پولیس زندہ باد کے نعرے لگائے۔
ملک گیر احتجاج نے مودی حکومت کو ہلاکر رکھدیا، امیت شاہ کی ساکھ بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ 2014اور 2019کے انتخابات میں بی جے پی کی شاندار کامیابی کے بعد شاہ کا قدر بہت زیادہ بلند ہوگیا تھا۔ کشمیر میں دفعہ 370کی برخواستگی، اور مسلم مخالف قوانین کی منظوری کے بعد یہ امیج بن گیا تھا کہ شاہ جو کہتے ہیں، وہ کرتے ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون کی منظوری اور این آر سی کے نفاذ کے اعلان پر احتجاج تو کیا جارہا ہے مگرجب احتجاجی طلبہ پر پولیس نے ظلم کیا تو جو غم و غصہ چھ برس سے اپنے سینوں میں دبائے ہوئے تھے وہ جووالامکھی بن کر پھٹ پڑا اور اس کے لاوے میں برسر اقتدار جماعت کو اپنے بہہ جانے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔ اگرچہ کہ یہ وقتی خیال ہے‘ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے کردار کو متاثر کرنے کی کوشش کے خلاف ہندوستانی عوام کی اکثریت ہے، حالانکہ اسی اکثریت نے مودی کو دوبارہ مسند اقتدار پر لابٹھایا تھا مگر انہیں اس بات کا یہ احساس ہوگیا کہ مودی۔شاہ کی جوڑی اپنی متواتر کامیابی کا کریڈٹ اپنی مقبولیت کو دیتے ہوئے من مانی کرنا چاہتی ہے۔ نوٹ بندی کے معاملہ میں من مانی کی گئی، ہندوستانی عوام ابھی تک سنبھل نہیں سکے، معیشت بری طرح سے تباہ ہوگئی۔ کالے دھن کی واپسی کا وعدہ ہوا؟ مگر کئی دھوکہ باز ہزاروں کروڑ کی رقومات کے ساتھ ملک سے فرار ہوگئے، اور وہ حکومت کی مدد کے بغیر باہر نہیں جاسکتے تھے۔
مسلم مخالف بعض فیصلوں پر عام ہندوستانی کا ردعمل کچھ خاص نہیں رہا، مگر جب شہریت کے بارے میں امتیاز کیا گیا تو مسلمانوں سے زیادہ احتجاج غیر مسلم بھائیوں نے کیا، مسلم قائدین تو دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں، ویسے مصلحت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ شہریت کے مسئلہ کو مسلمانوں کا مذہبی مسئلہ نہ بنایا جائے بلکہ اسے ہندوستانیوں کا مسئلہ بنایا جائے۔ او راگر غیر مسلم حضرات احتجاج میں حصہ لیتے ہیں تو انہیں سیکولرزم کی سند بھی ملتی ہے اور ان کے خلاف کوئی کاروائی بھی نہیں ہوتی۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی لڑائی، سیکولر ہندوستانی لڑرہے ہیں۔ ہرش مندر ہوں یا کے گوپی ناتھن آئی اے ایس‘ یوگیندر یادو، رویش کمار ابھیشیک شرما جیسے صحافی ہوں‘ تاریخ داں رام چندر گوہا بالی ووڈ سے مہیش بھٹ، یا انگریزی ادبکی نامور ہستیاں شوبھاڈے اور اروندھتی رائے… انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے آواز اٹھائی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے غیر مسلم طلباء اور طالبات نے آج مسلمانوں کے ساتھ یگانگت کا اظہار کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انہیں انسانیت کی تعلیم ملی‘ یہاں کیمپس نے بھائی چارگی، فرقہ وارانہ اتحاد، یکجہتی کے جذبو ں کو پروان چڑھایا، بالکل اُسی طرح جیسے جے این یو میں کنہیا کمار، عمر خالد، شہلا رشید نے ایک دوسرے کے لئے اتحاد کا مظاہرہ کیا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے غیر مسلم طلبہ، جنتر منتر، ممبئی کے کرانتی میدان میں حصہ لینے والے احتجاجیوں نے ایک بار پھر ہندوستانی مسلمانوں کے حوصلوں کو نئی توانائی عطا کی۔ گذشتہ چھ برس کے دوران مسلمان اپنی بے وزنی، بے وقتی پر مایوس تھے، ان کے خلاف قوانین کی منظوری، عدالتی فیصلوں نے ان کے حوصلے پست کردیئے تھے، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس ملک کی زمین ان کے لئے تنگ ہوگئی ہے مگر دسمبر 2019ان کے لئے ہمت بندی کا پیغام ساتھ لایا۰۰۰
پورا ہندوستان ان کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۰۰ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کی مخالفت میں مظاہروں میں شامل ہوا۰۰۰ یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے۰۰۰ کہتے ہیں کہ ہر تخریب میں تعمیر کا پہلو ہوتا ہے۔ انسان لاکھ منصوبے بنائے، ہوتا وہی ہے جو اللہ رب العزت چاہتا ہے۔ جسے اقتدار دیا، اسے وہی چھین سکتا ہے۰۰ اور اس طرح کے جھٹکے دیکر انہیں اپنے محاسبہ کا موقع دیتا ہے۔
بعض سیاسی مبصرین کا احساس ہے کہ مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کو شہریت قانون پر احتجاج اور مخالفت کی توقع تھی‘ سیاسی جماعتوں سے، سیول سوسائٹی سڑکوں پر آجائے گی… ”کاویری بزمی“ کا نگہبان ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے جتنی مخالفت ہوگی‘ مودی۔شاہ کی مقبولیت بڑھے گی۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فصل گجرات میں بوئی گئی تھی‘ اور اس کی فصل پورے ملک میں کاٹی جائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بڑے پیمانے پر پورے ملک میں فسادات کروائے جائیں۔ اس وقت پریوار کے غنڈے تربیت یافتہ لڑاکو مختلف بھیس میں حملے کررہے ہیں‘ فسادات کا آغاز کولکتہ سے ہوسکتاہے کیوں کہ وہاں ممتابنرجی کو اقتدار سے بے دخل کرنا ہے۔ ایسے وقت مسلم جماعتوں کو ممتابنرجی کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے، کیوں کہ اس سے غیر ضروری اندیشے، غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔
پریوار مسلم دشمنی کی بنیاد پر اقتدار میں ہے‘ آج مسلمانوں کے لئے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ انہیں برداشت نہیں کرسکتے۔ اس لئے اس اتحاد کو دوبارہ انتشار میں بدلنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں کو یہاں دانشمندی، ہوش مندی سے کام لینا ہوگا۔ اس وقت یہ لڑائی، جدوجہد صرف مسلمانوں کی نہیں‘ ہندوستان کی ہے اس سے مذہبی نعروں کی بجائے ایسے نعرے لگائیں جس سے آپسی اتحاد کو تقویت و استحکام ملے۔
بدترین حالات میں بھی ہم مودی۔شاہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ان کی بدولت مام ہندوستانی ایک بار پھر ایک ہونے لگے… شکریہ امیت شاہ‘ ہم سب کو ا یک کیا۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں