یہ ملاقات اردو پریس کے ساتھ ساتھ انگریزی اور ہندی پریس میں بھی نمایاں طور پر نظر آئی۔ البتہ اسے اس نظر سے نہیں دیکھا گیا جس سے پہلی ملاقات کو دیکھا گیا تھا۔ ہاں ان دونوں وفود میں ایک نمایاں مماثلت رہی۔ وہ یہ کہ کسی میں بھی روایتی مسلم قیادت نظر نہیں آئی۔ یہ بات فطری بھی تھی۔ کیونکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات نہیں کی جائے گی۔ پھر یہ اعلان آیا کہ ابھی اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے صدر مولانا عمیر الیاسی کی یہ خواہش تھی کہ مسلمانوں کا ایک وفد مودی جی سے ملے۔ لہٰذا انھوں نے اپنی سطح پر جو ہو سکتا تھا اس کا انتظام کیا۔ اس وفد کی ایک اور خاص بات رہی کہ اس میں کچھ ممبران سابقہ ’’اٹل بہاری واجپئی حمایت کمیٹی‘‘ کے بھی شامل تھے۔
اس ’’اعلیٰ سطحی‘‘ ملاقات کے تعلق سے اخبارات اور سوشل میڈیا میں جو کچھ آیا ہے وہ یکطرفہ ہے۔ یعنی وزیر اعظم ہاوس سے جاری ہونے والا بیان ہی سامنے آیا ہے۔ البتہ بعض اخبارات نے کچھ دوسرے ممبران سے بھی گفتگو کی او ران کے بھی خیالات شائع کیے۔ لیکن پھر بھی ایک یا سوا گھنٹے کی گفتگو کی تفصیلات سامنے نہیں آسکی ہیں۔ میں نے تفصیلات معلوم کرنے کی غرض سے وفد کے بعض ممبران سے فون پر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ کسی نے فون اٹھایا کسی نے نہیں اٹھایا۔ جن لوگوں سے میری بات ہوئی وہ تمام لوگ اس ملاقات پر بہت خوش ہیں۔ بلکہ بعض تو بے حد مسرور و نازاں ہیں۔ البتہ بعض نے محتاط انداز میں اپنا رد عمل ظاہر کیا۔ لیکن وزیر اعظم کے اخلاق اور ان کے طرز گفتگو کے سبھی قائل نظر آئے اور سب مطمئن ہو کر دربارِ عالی سے باہر آئے۔ اس سے متعلق خبر میں وزیر اعظم کی اس بات کو کافی اچھالا گیا کہ انھوں نے وفد سے کہا کہ ’’اگر آپ کو رات میں بارہ بجے بھی میری ضرورت پڑتی ہے تو میں حاضر ہوں‘‘۔ دوسری بات یہ کہ مودی نے یہ بھی کہا کہ اکثریت اور اقلیت کی سیاست سے ملک کو بہت نقصان ہوا ہے اور اقلیتوں کے مسائل کا حل روزگار اور ترقی سے ہی ہو سکتا ہے۔ وہ نہ تو فرقہ واریت کی بنیاد پر لوگوں کو بانٹنے کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ کبھی فرقہ وارانہ زبان استعمال کریں گے۔ وہ فرقہ وارانہ کارڈ نہیں بلکہ صرف اور صرف ہندوستان کا کارڈ کھیلنا چاہتے ہیں۔ بات چیت کے دوران یوگا پر بھی تبادلہ خیال ہوا اور یوم یوگا کے مجوزہ انعقاد پر اراکین وفد نے مسرت کا اظہار کیا۔ مسلمانوں کی تعلیم پر بھی گفتگو ہوئی اور مودی جی نے کہا کہ فرقہ واریت کا مسئلہ تعلیم سے ہی حل ہوگا۔
وفد کے بعض اراکین نے ان کے سامنے آثار قدیمہ کی مساجد، اوقاف کی زمینوں اور عمارتوں پر ناجائز سرکاری قبضہ اور قبرستانوں کی چہار دیواری کے مسائل، ائمہ کی تنخواہوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا نفاذ، فرقہ وارانہ فسادات اور سنگھ پریوار کی جانب سے نفرت انگیز تقریروں کے معاملات بھی رکھے اور یہ مطالبہ کیا کہ ملک میں فرقہ واریت پھیلانے والوں اور فسادات برپا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ان باتوں پر نریندر مودی نے جو جواب دیا اس سے بہت سے ممبران مطمئن نظر آئے۔ البتہ بعض نے کہا کہ وزیر اعظم نے ان معاملات پر کارروائی کرنے کی بات تو کہی لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قیام کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی کے اقدامات کرنا چاہتے ہیں لیکن بعض عناصر ان کی کوششوں کو ناکام بنانے کے درپے ہیں۔ جب راقم الحروف نے ایک ممبر سے اس کی وضاحت چاہی اور یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ کیا وزیر اعظم جو کرنا چاہتے ہیں وہ کر نہیں پا رہے اور وہ ملک کا ماحول خراب کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر رہے ہیں تو انھوں نے بہت واضح الفاظ میں کہا کہ در اصل وزیر اعظم کا ان عناصر پر کوئی کنٹرول ہی نہیں ہے۔ وہ کچھ کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ اس کا اظہار بھی انھوں نے یہ کہہ کر کر دیا کہ ان کی کوششوں کو کچھ لوگ ناکام بنانا چاہتے ہیں۔
اس ایک سال کے دوران پورے ملک میں لاتعداد فسادات کرائے جا چکے ہیں۔ لیکن دنگائی اور بلوائی آزاد ہیں۔ تازہ ترین معاملہ ہریانہ میں اٹالی کا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ وزیر اعظم یہ اعلان تو کرتے ہیں کہ ان کی حکومت میں مذہب کی بنیاد پر کسی کے خلاف ہنگامہ آرائی کی اجازت نہیں دی جائے گی اور یہ کہ وہ فرقہ واریت کا نہیں بلکہ ہندوستانیت کا کارڈ کھیلنا چاہتے ہیں، لیکن سچائی یہ ہے کہ مذکورہ تمام معاملات میں سے ایک بھی معاملے میں اس طرح کارروائی نہیں ہوئی جس طرح ہونی چاہیے۔ اٹالی میں تو جاٹوں کے علاوہ پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے بھی مقامی مسلمانوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ان کے گھروں کو نذر آتش کرنے والوں کی گرفتاری کا مطالبہ نہ کریں اور واپس اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ وفد کے اراکین کے مطابق یہ مسئلہ بھی مودی کے سامنے رکھا گیا اور انھوں نے کہا کہ ہاں وہ اس سے آگاہ ہیں۔ لیکن انھوں نے یہ یقین دہانی نہیں کرائی کہ ایسی حرکتوں کا ارتکاب کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ جس روز یہ ملاقات ہوئی اسی روز بجرنگ دل کے لیڈر اور بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ونے کٹیار نے دھمکی دی کہ اگر اجودھیا میں جلد از جلد رام مندر کی تعمیر نہیں ہوئی تو رام بھکتوں کا غصہ جوالہ مکھی کی مانند پھٹ پڑے گا۔ کس کس لیڈر کے کس کس بیان کی یاد دلائی جائے۔ خود ملاقات کے دوران موجود رہنے والے اقلیتی امور کے وزیر مملکت مختار عباس نقوی یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ جن کو بیف کھانا ہے وہ پاکستان چلے جائیں۔
بہر حال مسلمانوں کے ایک وفد سے، جسے نمائندہ وفد کہیں یا نہ کہیں، وزیر اعظم کی ملاقات ہوئی، یہ بہت اچھی بات ہے۔ ملاقات اور بات چیت کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ صرف وزیر اعظم سے ہی نہیں بلکہ دوسرے وزرا سے بھی مسلمانوں کو ملنا چاہیے اور ان کے سامنے اپنے مسائل رکھنے چاہئیں۔ نریندر مودی کی یہ بات بالکل درست ہے کہ وہ کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کے نہیں بلکہ تمام لوگوں کے اور پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کریں اور یہ ثابت کریں کہ وہ مسلمانوں کے بھی وزیر اعظم ہیں۔ صرف کہہ دینے سے بات نہیں بنتی۔ یہ بات تو وہ ایک سال کے دوران کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کے وزیر اعظم ہیں اور ان کی حکومت میں سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے۔ سب کو آزادی حاصل ہے۔ اگر ہے تو اٹالی کے مسلمانوں سے یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی مسجد وہاں سے ہٹا کر گاؤں سے باہر بنائیں۔ اگر وزیر اعظم اس قسم کی شرانگیزیوں سے واقف ہیں تو ان لوگوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے۔ کیا واقعی ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ کیا وہ اس حکومت کا نقلی چہرہ ہیں اور حکومت ناگپور سے چلائی جا رہی ہے۔ اب اگر مسلمانو ں کا کوئی وفد ان سے ملتا ہے اور ملنا بھی چاہیے تو اسے اپنی گفتگو کا محور فرقہ وارانہ اتحاد و یگانگت کو بنانا چاہیے اور وزیر اعظم سے ملک کا ماحول خراب کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کا آرڈر نکلوانا چاہیے۔
بہر حال اراکین وفد سے گفتگو کے دوران ایسا محسوس ہوا کہ شاید وہ کچھ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں جس پر کشور کمار کا گایا یہ نغمہ یاد آگیا کہ یہ دنیا والے پوچھیں گے، ملاقات ہوئی کیا بات ہوئی، یہ بات کسی سے نہ کہنا۔ شاید مودی نے بھی وفد کو ہدایت دے دی تھی کہ ہمارے درمیان کیا باتیں ہوئیں یہ کسی کو مت بتانا۔
[email protected]
جواب دیں