یہ تمام سوالات وزیر اعظم کے بیان کے بعد زیادہ شدومد سے اٹھ رہے ہیں کیونکہ ان کا ماضی مسلمانوں کے ساتھ کسی دوستانہ تعلقات میں نہیں بیتا ہے اور آج وہ کہہ رہے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان ملک کے لئے جیتا اور مرتا ہے۔ یہ بیان انھوں نے ایک انٹرویو کے دوران دیا ،جو کہ امریکہ کے مشہور ٹی وی چینل سی این این کے لئے فرید زکریا نے کیا ۔ مودی نے انٹرویو کے درمیان کہا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی دیش بھکتی پر سوال نہیں اٹھنا چاہئے وہ ملک کے لئے جیتے اور مرتے ہیں۔ اگرکوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ القاعدہ کے بہکاوے میں آجائینگے تو غلط فہمی میں ہے۔ مودی نے دہشت گردی کو انسانیت اور غیر انسانی برتاؤ کے نظریے سے دیکھنے پر زور دیا نیز بھارت اور امریکہ کو ایک دوسرے کا فطری دوست بھی کہا۔ اسی بات کو انھوں نے امریکہ میں بھی اپنی ایک تقریر کے دوران دہرایا۔امریکہ میں ان کے دوست اور مخالف دونوں ہی موجود ہیں جو انھیں آج بھی گجرات کے مسلم کش فسادات کے لئے ذمہ دار مانتے ہیں۔ ان کی نظر میں وہ آج بھی ایک ایسے شخص ہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ہے۔
سیاسی پارٹیوں کاردعمل
وزیر اعظم کا بیان ایسے وقت میں آیا تھا جب وہ امریکہ کے دورے پر جانے والے تھے اور یکے بعد دیگرے انھیں عالمی لیڈران سے ملاقات کرنی تھی۔ ابھی چند دن قبل تک وہ چینی صدر کے ساتھ تھے اور ملک کے مفاد میں کئی معاہدے ہوئے ہیں۔ دنیا میں مسلم ممالک بھی خاصی تعداد میں ہیں جن کے ساتھ بھارت کے تعلقات عموماً دوستانہ رہے ہیں۔ ان کے بیان کو اس وقت بین الاقوامی حالات کے تناظر میں دیکھا گیا ۔ اس پر مختلف سیاسی پارٹیوں نے اظہار خیال کیا۔ اگر این ڈی اے کی پارٹیوں نے ان کے بیان کی حمایت کی تو بھاجپا مخالف سیاسی پارٹیوں نے مخالفت کی ۔ مسلمانوں کے اندر اس پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ کچھ مسلمان اس کی تعریف کرتے ہیں اور اسے مودی کے نظریے میں تبدیلی قرار دیتے ہیں تو بعض اسے شک وشبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مرکزی سرکار کی واحد مسلم وزیر نجمہ ہبت اللہ کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کا بیان قابل تحسین ہے اور اس کا استقبال ہونا چاہئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مودی کے بیان کے بعد القاعدہ کی طرف جانے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور وہ نہیں جائینگے جبکہ بی جے پی کا مسلم چہرہ کہے جانے والے سید شہنواز حسین کہتے ہیں کہ مودی نے جو کچھ کہا ہے وہ دل سے کہا ہے اور اسے مثبت انداز میں لیا جانا چاہئے ۔ ایک دوسرے پارٹی ترجمان کیپٹن ابھیمنیو نے کہا کہ جو مودی نے کہا وہی ان کی پارٹی کی لائن ہے، یوگی آدتیہ ناتھ اور ساکشی مہاراج جو کچھ کہہ رہے ہیں ان سے پارٹی نے اتفاق ظاہر نہیں کیا ہے۔کیرل کے وزیر اعلیٰ وومن چنڈی کا کہنا ہے کہ اس قسم کے بیانات کانگریس لیڈران کی طرف سے آتے رہے ہیں اور نریندر مودی اسی کی نقل کر رہے ہیں۔جب کہ سماج وادی پارٹی کے ترجمان اور ممبرپارلیمنٹ نریش اگروال نے کہا کہ ہماری پارٹی سمجھتی ہے کہ وزیر اعظم کا بیان درست ہے اور ’’لوجہاد‘‘ جیسے موضوعات جو بھاجپا اٹھاتی رہی ہے ،وہ غلط ہے۔ دوسری طرف اترپردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی اس بیان پر شدید نکتہ چینی کرتی ہیں اوران بیانات کی طرف توجہ دلاتی ہیں جو نریندر مودی کی پارٹی اور سنگھ پریوار کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف آتے رہے ہیں۔سماجی کارکن سوامی اگنی ویش نے بھی کہا ہے کہ مودی نے آر ایس ایس کے نظریے سے خود کو علاحدہ کرلیا ہے اور ان کا بیان اس سوچ سے بالکل الگ ہے جس کا اظہار اب تک آرایس ایس کی طرف سے ہوتا رہا ہے۔
مسلمانوں کی طرف سے وزیر اعظم کے بیان کا استقبال
سیاسی پارٹیوں کے برخلاف مسلمانوں کے حلقے میں نریندر مودی کے بیان کا استقبال کیا گیا ہے۔ عام مسلمان اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور ان کے دل میں جو مودی کے تعلق سے شکوک وشبہات تھے وہ دور ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کی طرف سے بھی اس بیان کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔دوسری طرف فتح پوری مسجد کے امام مفتی مکرم احمد کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا بیان اچھا ہے اور اس سے ان لوگوں کو سبق ملنا چاہئے جو’ لوجہاد‘ جیسے موضوعات اٹھاکر ملک میں فرقہ وارانہ فضا بگاڑ نا چاہتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی مانتے ہیں لکھنو کے شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران اس کا استقبال کیا اور اترپردیش میں جو لوگ فرقہ پرستی کی سیاست کر رہے ہیں نیز مسلمانوں کے خلاف ماحول تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے بیانات سے بی جے پی خودکو الگ کرے۔ اے یو ڈی ایف کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل نے بھی مودی کے بیان کی تعریف کی ہے۔کلکتہ کی ٹیپو سلطان مسجد کے امام اور ترنمول کانگریس کے حمایتی مولانا نورالرحمٰن برکتی اسے عالمی سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بیان دنیا بھر کے مسلم ممالک کو نظر میں رکھ کر دیا گیا ہے۔ جب کہ ممبئی کے بزنس مین اور نریندر مودی کے حمایتی ظفر سریش والاکا کہنا ہے کہ نریندر مودی کا بیان ان کے دل کی آواز ہے۔ میں انھیں قریب سے جانتا ہوں اور ان کی ایسی سوچ کوئی نئی نہیں ہے۔ وہ مسلمانوں کے تعلق سے ایسا ہی سوچتے ہیں۔ ان بیانات کے برخلاف دلی کی جامع مسجد کے امام مولاناسید احمد بخاری نے سخت لب ولہجے میں کہا ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کو نریندر مودی سے حب الوطنی اور دیش بھکتی کی سند نہیں چاہئے۔ وہ اپنے وطن سے پیار کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔حالانکہ مودی نے کوئی سرٹیفکٹ نہیں دیا تھا بلکہ انٹرویو کے درمیان ایک سوال کا جواب دیا تھا۔ بخاری صاحب کی طرف سے سیاسی پارٹیوں کے خلاف بیانات اکثر آتے رہے ہیں مگر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ الیکشن کے وقت وہ انھیں پارٹیوں کی حمایت بھی کرتے رہے ہیں۔ دس سال قبل انھوں نے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔
سوالوں کے گھیرے میں وزیر اعظم
وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے آئے بیان میں کوئی عجیب بات نہیں ہے مگر پھر بھی میڈیا میں اس پر جس طرح سے بحث ہوئی اسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ بیان سب کو حیرت انگیز لگا ہے۔
اصل میں مودی کی پوری تربیت آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں ہوئی ہے،جہاں مسلم دشمنی کا پاٹھ پڑھایا جا تا ہے۔ آر ایس ایس کا لٹریچر مسلم دشمنی سے بھرا ہوا ہے۔ بی جے پی کی سیاسی تاریخ کی بنیاد مسلم مخالفت کے ذریعے ہندووں کو متحد کرنے پر مرکوزرہی ہے۔ اس وقت بھی اترپردیش کے ضمنی الیکشن میں لوجہاد، دینی مدرسوں کی مخالفت اور گوشت کے اکسپورٹ سے ہونے والی آمدنی کا دہشت گردی میں استعمال جیسے موضوعات اٹھائے گئے۔ ظاہر ہے کہ جو پارٹی خود کو مسلم دشمنی کی شناخت کے ساتھ آگے بڑھاتی رہی ہے، اس کی طرف سے اس قسم کا بیان یقیناًحیرت میں ڈالتا ہے۔ مودی نے ان لوگوں کو روکنے کی کوشش نہیں کی جو یوپی اور جھارکھنڈ میں الیکشن میں فرقہ وارانہ موضوعات اٹھا رہے تھے ۔یہاں تک کہ انھوں نے اپنی کابینہ میں وزیر منیکا گاندھی کو بھی اپنا بیان واپس لینے کو نہیں کہا اور نہ ہی ان کی سرزنش کی۔ اسی کے ساتھ نریندر مودی پر گجرات میں مسلم کش فسادات کرانے اور مسلمانوں کی بازآبادکاری نہ کرانے کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔ گجرات میں مسلم نوجوانوں کو فرضی مڈبھیڑ میں مارنے کا الزام بھی ان کی سرکار کے سر آتا رہا ہے جس میں ان کے قابل اعتماد دوست امت شاہ جیل بھی گئے اور اب وہ ضمانت پر باہر ہیں۔ ان تمام حالات کے پیش نظر نریندر مودی کی طرف سے اس قسم کے بیانات مسلمان ہی نہیں بلکہ حالات کے جانکار سبھی لوگوں کے لئے تعجب خیز ہیں۔ البتہ اگر انھوں نے یہ بات کسی سیاسی غرض کے بغیر دل سے کہی ہے تو اسے مثبت بدلاؤ کا نتیجہ کہنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ سرکار کی یہ لائن ہو جو مودی نے ظاہر کی ہے اور پارٹی کی لائن وہی پرانی والی مسلم مخالفت کی ہو۔ آرایس ایس، بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد وغیرہ کی بنیاد مسلم مخالفت پر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نریندر مودی نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اس سے، ان جماعتوں کو کتنا اتفاق ہے اور کیا اب مسلم مخالفت کی سیاست پر بند بند ھے گا؟ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ کانگریس سرکار کی بھی ایسی ہی لائن ہواکرتی تھی مگر خوش نمابیانات کے سوا مسلمانوں کے حصے میں کچھ بھی نہیں آیا۔ منموہن سنگھ نے تو کہہ دیا تھا کہ اس ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے تب بی جے پی نے خوب واویلا مچایا تھا،اب مودی کا بیان بھی صرف مسلمانوں کے دل کو خوش کرنے کے لئے ہے ،اور عالمی حالات کے تناظر میں ہے یا اس کی کوئی حقیقت بھی ہے؟ اس سوال کا جواب مستقبل میں ملے گا۔(یو این این )۔مضمون نگار ٹی وی پروڈیوسر اور رائٹر ہیں)
جواب دیں