ظاہر ہے کہ دنیا کے ہر اخبار میں اس خبر کو انتہائی اہمیت کے ساتھ چھپوانے کا انتظام اسی پاکستان نے کیا ہوگا جو 1947 ء کے بعد سے آج تک ہندوستان میں ہونے والے ہر اُس واقعہ کو جس میں مسلمان نشانہ بنے ہوں اس طرح عالم اسلام کے اخبارات میں خصوصیت کے ساتھ اور امریکہ اور یوروپ کے تمام ملکوں میں اہمیت کے ساتھ برابر چھپوا رہا ہے۔
اب مودی ہوں یا جیٹلی سب راج سنگھاسن پر بیٹھے ہیں اور ایسے ہر واقعہ سے اُن کی گردن شرم سے جھک رہی ہے لیکن وہ اپنے ہی بنے ہوئے جال میں ایسے پھنسے ہیں کہ صرف پھڑپھڑا تو سکتے ہیں اس سے نکل نہیں سکتے۔ جیٹلی نے امریکہ میں کہا ہے کہ دادری جیسے واقعات سے حکومت کی شبیہ کو نقصان پہونچتا ہے۔ شری راج ناتھ سنگھ نے محمد اخلاق کے قتل کو نہایت افسوسناک واقعہ قرار دیتے ہوئے سخت الفاظ میں کہا ہے کہ کسی کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہم نہیں جانتے ’’کسی کو‘‘ سے ان کی کیا مراد ہے؟ ان کی پارٹی کے ایک ممبر پارلیمنٹ جو سر سے پاؤں تک بھگوا بنے رہتے ہیں انہوں نے اخلاق مرحوم پر الزام لگادیا کہ وہ بغیر اجازت پاکستان گئے تھے اور وہیں اس کی ذہنیت تبدیل ہوگئی تھی۔ یعنی اسے قتل کرنا ٹھیک تھا۔ دوسرے ممبر پارلیمنٹ وہ بھی مہاراج کہلاتے ہیں انہوں نے کہہ دیا کہ جیسے بھارت ماں ہے ایسے ہی گائے ماں ہے کوئی اسے دُکھ پہونچائے گا تو ہم مرنے مارنے کے لئے موجود ہیں۔
ان سب کا نشانہ مسلمان ہیں وہ کھٹک نہیں ہیں جن کی سبزی پر جیسے ہی ساکشی مہاراج کی ماں منھ مارتی ہے اس کی کمر پر لاٹھی پڑتی ہے اور نہ وہ ہیں جو اتنا بھی کھانے کو نہیں دیتے کہ اس کا پیٹ بھر جائے اور وہ پلاسٹک کی تھیلیاں نہ کھائے جس سے اس کی موت ہوجاتی ہے۔ ساکشی جی نے ایک اور ماں کا ذکر نہیں کیا جس کے متعلق انہیں ایم پی بنوانے والے مودی صاحب نے کہا تھا کہ میں نہ خود کاشی آیا ہوں، نہ مجھے کسی نے بھیجا ہے مجھے تو ماں گنگا نے بلایا ہے۔ اور اس کے بعد سے ہم نے یہ تو دیکھا کہ ماں گنگا کے کناروں پر جو گندی مٹی کے ڈھیر تھے انہیں پھاوڑے سے مودی صاحب ہٹا رہے ہیں اور سرکار کا ایک محکمہ گنگا کا مخصوص کررہے ہیں جس کے لئے ہزاروں کروڑ روپئے سرکاری خزانے سے دے رہے ہیں اور جب ان کا سوٹ 435 کروڑ روپئے میں نیلام ہوتا ہے تو وہ سارا روپیہ ماں گنگا کی صفائی اور سولہ سنگھار کے لئے دے دیتے ہیں۔ لیکن ہندوؤں کا حال یہ ہے کہ وہ ہر چیز ماں گنگا میں بہانا چاہتے ہیں وہ چاہے کوئی رشتہ دار کی لاش ہو یا مرا ہوا کتا ہو یا گنیش جی کی مورتی ہو۔ اور اسے ایک دن میں ایک لاکھ روپئے خرچ کرکے جتنا صاف کیا جاتا ہے اس میں اس سے زیادہ گندگی ڈال کر اُسے ہندو گندہ کردیتے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ وہ ہندو جو وہاں غلاظت دھوتے ہیں اور اسی میں پیشاب کرتے ہیں۔
دوسری طرف ساکشی مہاراج گائے کے لئے مرنے مارنے کو تو تیار ہیں لیکن یہ اعلان نہیں کیا کہ اُناؤ میں ایک گؤ شالہ بنائیں گے جس میں بوڑھی ماؤں کو رکھا جائے گا اسے ٹھنڈا رکھنے کے لئے اے سی لگائیں گے ان کے کھانے کے لئے اپنی پوری تنخواہ اور فنڈ سب ان کو کھلا دیں گے اور اعلان کرادیں گے کہ پورے حلقہ میں جس کی گائے دودھ کے قابل نہ ہو اُسے ساکشی مہاراج کے ماتا بھون میں داخل کرادیا جائے اور اس کی قیمت ان سے لے لی جائے۔
کوئی نہیں جانتا کہ ایسے ہر موقع پر مودی صاحب بولنا کیوں بند کردیتے ہیں؟ جبکہ باہر کی دنیا میں اپنی نیک نامی کی وہ جتنی کوشش کررہے ہیں اور اس کے لئے بے تحاشہ خرچ کررہے ہیں اس دنیا کے میڈیا میں دادری کی خبر جس قدر نمایاں طریقہ سے شائع ہوئی اور جس طرح اسے سوشل میڈیا میں بین الاقوامی شرم کا نام دیا گیا اس سے ہر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہمارا ملک اور مرکزی حکومت دنیا کے پلیٹ فارم پر کہاں کھڑی ہے؟
ایک خبر یہ آرہی تھی کہ گاؤں کے کچھ شریف لوگ یہ کوشش کررہے تھے کہ مرحوم اخلاق کے گھر کے لوگ گاؤں چھوڑکر نہ جائیں۔ ہم نے بھی لکھا تھا کہ اگر اپنی جان کے خوف سے انہوں نے گاؤں چھوڑ دیا تو یہ داغ ہوگا۔ لیکن یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ جن لوگوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی کیا انہوں نے یہ ہمت دکھائی کہ وہ حلفیہ بیان دے کر بتاتے کہ کس کے کہنے سے ہزاروں آدمی چڑھ دوڑے؟ اور کون کون تھا جنہوں نے مکان کی مضبوط چوکھٹ اور کواڑ توڑ ڈالے؟ اور کون کون تھا جو اوپر چڑھ کر دانش کو مارنے کے لئے دروازہ اور انتہائی مضبوط لوہے کی جالیوں کو توڑکر اُسے کمرہ سے گھسیٹ کر لایا؟ اور اسے اتنا مارا کہ وہ لہولہان ہوگیا۔ ان کو روکنے کی کوشش کے پس پردہ یہ منصوبہ نظر آتا ہے کہ اب جو ہوگیا وہ ہوگیا جانے والا واپس نہیں آتا اس کے لئے ہم سب شرمندہ ہیں اور آپ لوگ بھی اب ان کو معاف کردیں جنہیں گرفتار کیا گیا ہے۔
محمد اخلاق کے چھوٹے بیٹے سرتاج جو ایئرفورس میں انجینئر ہے اسے کسی بات پر بھروسہ نہیں ہوا اور اس نے گھر میں اکیلے بھائی بوڑھی دادی دل شکستہ ماں اور بہن کو چھوڑنا مناسب نہیں سمجھا اور وہ سب کو لے کر دہلی کے سبرتو پارک کے محفوظ علاقہ کے ایک مکان میں آگیا جو اُسے ایئرفورس کی طرف سے دیا گیا ہے۔ یوں تو یہ ایک معمولی بات ہے کہ ایک خاندان کسی شہر سے دوسرے شہر آجائے جیسے ہمارا پورا خاندان 1946 ء میں اپنے پورے سامان کے ساتھ بریلی سے لکھنؤآگیا تھا۔ لیکن ہم اس لئے آئے تھے کہ ملک کی تقسیم کے بعد بریلی کے جس علاقہ میں ہم رہتے تھے وہاں کے 75 فیصدی لوگ پاکستان جارہے تھے اور ظاہر ہے کہ ان کے جاتے ہی وہاں پاکستان سے آنے والے ہندو اور سکھ ان مکانوں میں آکر بس جائیں گے۔ ان کے درمیان میں ایک اردو رسالے کے دفتر اور بک ڈپو کا رکھنا مناسب نہ ہوگا۔ لیکن مرحوم اخلاق کے گھر والوں نے اس لئے چھوڑا کہ نریندر مودی نے آکر یہ یقین کیوں نہیں دلایا کہ آج کے بعد اُن کی ایک انگلی کے بدلے میں دوسرے کی گردن کٹوادی جائے گی بلکہ ان کے سب سے زیادہ قریب سمجھے جانے والے اور صرف ان کی حکومت کے بل پر کودنے والے مرحوم اخلاق کے پاکستان سے رشتے جوڑنے لگے اور وہ منھ پر ٹیپ لگائے بیٹھے ہیں۔ جبکہ انہیں خوب معلوم ہے کہ ایک صوبہ کے عام الیکشن کی طرح ہونے والا بہار کا الیکشن 2014 ء کے لوک سبھا کے الیکشن جیسا ہوگیا ہے۔ اس طرح کسی ایک گھر پر ہندوؤں کا حملہ جس میں ایک کی موت دوسرا سنگین زخمی اور چار کی چوٹیں ایسا واقعہ ہے جیسے آئے دن ملک میں ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن گاؤں سے باہر یا ضلع سے باہر کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ مگر صرف مندر سے پجاری کے کئے گئے ایک اعلان پر سیکڑوں برس سے ساتھ رہنے والے ہزاروں کی تعداد میں دشمنوں کی طرح ٹوٹ پڑیں اور مرکزی حکومت کے ممتاز لیڈر یہ کوشش کریں کہ کسی ایک ہندو پر الزام بھی نہ آئے یہ بہار کے الیکشن کی طرح بین الاقوامی معاملہ بن گیا ہے اور ان کے لئے مکان کا انتظام ایئرفورس نے کیا ہے جو سرکاری مکان ہے۔ اس نے صوبائی اور مرکزی حکومت دونوں پر اعتماد نہ کرنے کے فیصلے پر اپنی مہر لگادی ہے۔ کاش مودی صاحب اس پہلو سے غور کریں کہ انہوں نے سیکڑوں کروڑ روپئے خرچ کرکے دنیا میں جو مقام بنایا تھا اسے گاؤں کے ان لونڈوں اور ایک پجاری نے جنہوں نے ہندوؤں کو للکارکر اخلاق کو مروا دیا انہوں نے مودی کی ساری محنت پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔ جس کی تلافی خاموشی سے کرنے کے بجائے انہیں دہاڑکر کرنا چاہئے۔
جواب دیں