آخر اس ملک میں پروین توگڑیا اور اس جیسے زہریلے لوگوں کو کس بنیاد پر زہر اگلنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور کوئی مسلمان سچ بول دیتا ہے تو اسے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جاتا ہے؟ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی جماعتوں کو کیوں قانون سے بالاتر رکھا گیا ہے اور انھئیںؓ اس بات کی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ کچھ بھی کریں ،کہیں بھی آگ لگائیں ، کہیں بھی شہریوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کریں جب کہ ان کی اس ذلیل حرکت کے خلاف بولنے والوں کو جیل بھی ج دیا جاتا ہے؟ کیا اب فرقہ پرست اس قدر آزاد ہیں کہ اس ملک کے ہندو اور مسلمان مل کر تیج تیوہار بھی نہیں منا سکتے ہیں؟ کیا اب دسہرہ کی خوشیاں اور ہولی دیوالی کے تہوار صرف ہندووں کے ہونگے اور عید و بقرعید میں مسلمان کو کوئی ہندو مبارک باد پیش نہیں کرے گا؟ آخر اس ملک میں فرقہ پرستی کا ننگا گربا کیوں کھیلا جارہا ہے اور اس پر حکومت پابندی لگانے میں ناکام کیوں ہے؟ فرقہ پرستوں کی ’’تقسیم کرو اور راج کرو‘‘ پالیسی اس ملک کے لوگوں کو کہاں لے جائے گی؟ کیا اس قسم کی حرکتیں کرکے فرقہ پرست جماعتیں لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں؟
مہدی حسن کو جیل، توگڑیا کو بیل
ان دنوں فرقہ پرستوں کی فرقہ پرستی کا بہانہ بن گیا ہے گربا۔ گربا جسے ایک کلچرل تیوہار کی طرح منایا جاتا تھاآج اس پر بھی فرقہ پرستوں کی گندی نظریں ہیں اور اسے بھی ہندو۔مسلم کے بیچ منافرت پھیلانے کا ذرعیہ بنا لیا گیا ہے۔ گجرات اور مدھیہ پردیش میں فرقہ پرستوں نے اعلان کیا ہے کہ کسی مسلمان کو گربا کے مقام تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ اندر داخل ہونے سے پہلے شناختی کارڈ دیکھے جائیں اور مسلمانوں کی شناخت کر کے پہلے انھیں ہندو بنایا جائے پھر گربا میں آنے دیا جائے۔ اس پر اظہار خیال کرنے والے مولوی مہدی حسن کو گجرات پولس نے گرفتار کرلیا ۔ ان کے خلاف وشو ہندو پریشد اور بجرنگدل نے شکایت کی تھی کہ انھوں نے گربا پر ایسا تبصرہ کیا تھا جو توہین آمیز تھا۔ بس اسی جرم میں انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ ممکن ہے ان کا تبصرہ ایسا رہا ہو یا وہ اپنے خیالات کو مناسب الفاظ دینے سے قاصر رہے ہوں کیونکہ وہ ایک نیم خواندہ قسم کے انسان ہیں اور بے روک ٹوک بولتے ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اگر یہ جرم ہے اور اس پر کسی کی گرفتاری ہوسکتی ہے تو پروین توگڑیا اور وشو ہند وپریشد کے لیڈروں کو کیوں گرفتار نہیں کیا جاتا جو کہ پورے ملک میں اشتعال زنگیزیاں کرتے رہتے ہیں۔ جن کی تقریریں فسادات کا سبب بنتی ہیں اور بے گناہوں کی جانیں جاتی ہیں۔ مولوی مہدی حسن اس وقت خبروں میں آئے تھے جب نریندر مودی کی خیرسگالی مہم کے دوران انھوں نے مودی کو اسلامی ٹوپی پہنانے کی کوشش کی تھی مگر مودی نے پہننے سے انکار کردیا تھا۔ اس پر میڈیا سے لے کر سیاسی گلیاروں تک خوب واویلا مچا اور ہر کسی نے اپنے نظریے کے مطابق اس پر تبصرہ کیا۔حالانکہ مودی نے بعد میں اس پر صفائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں چاپلوسی میں نہیں۔ یہی مہدی حسن بنارس میں اس وقت نظر آئے جب مودی یہاں سے لوک سبھا الیکشن لڑ رہے تھے۔ وہ کانگریس امیدوار کے ساتھ پریس کانفرنس میں نمودار ہوئے تھے اور مودی کی مخالفت میں بیان دیا تھا مگر میڈیا کے سوالوں سے بچتے ہوئے نظر آئے تھے۔
کیا قانون صرف مسلمان کے لئے ہے؟
اگر مہدی حسن نے واقعی اپنے بیان کے ذریعے ہندووں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچایا ہو تو ان کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہئے، اگر انھوں نے اشتعال انگیزی کی ہو اور فرقہ وارانہ ماحول نگاڑنے کی کوشش کی ہوتو ان کے خلاف پولس اور قانون کو اقدام کرنا چاہئے مگر سوال یہ ہے کہ اس قسم کی کارروائی صرف مسلمانوں کے خلاف ہی کیوں کی جاتی ہے؟ ہندو فرقہ پرست لیڈروں کے خلاف ایسا سخت قدم کیوں نہیں اٹھایا جاتا؟ کیا ملک کا قانون صرف مہدی حسن، اسدالدین اویسی اور اکبرالدین اویسی کے لئے ہے یا پروین توگڑیا، یوگی آدتیہ ناتھ، ساکشی مہاراج اور منیکا کانگدھی کے لئے بھی ہے؟ ابھی اتر پردیش کے ضمنی انتخابات میں مفروضہ ’’لوجہاد‘‘کے بہانے مسلمانوں کو تارگیٹ کیا گیا۔ یوگی نے اپنی تقریروں میں خوب زہر افشانی کی اور ہندووں کو بھڑکانے کی کوشش کی کہ مسلمان ان کی بیٹیوں کو بہلا پھسلاکر شادیاں کر رہے ہیں اور ان کا مذہب تبدیل کرا رہے ہی۔ ملائم سنگھ یادو کے دوست اور بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے دینی مدرسوں کے خلاف زہر اگلا اور ’’لوجہاد‘‘ کا ریٹ کارڈ پیش کیا ۔ مرکزی وزیر منیکا گاندھی نے گوشت کے کاروبار کے بہانے مسلمانوں کو نشانہ بنایا اور انھیں دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی مگر یوپی سرکار نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ پروین توگڑیا تو پورے ملک میں آگ اگلتا رہتا ہے اور فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑتا رہتا ہے مگر اس کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی جاتی۔ ایسے میں یہ سوال بجا ہے کہ اس ملک میں قانون کا دوہرا پیمانہ کیوں ہے؟ ہندووں کے لئے الگ اور مسلمانوں کے لئے الگ قانون کیوں ہے؟ نریندر مودی سے لے کر ملائم سنگھ یادو تک فرقہ پرستوں کے ساتھ نرم رویہ کیوں اپناتے ہیں؟ کیا وہ مسلمانوں کو دوسرے نمبر کا شہری سمجھتے ہیں جو ان کے ساتھ بھید ب ھاؤ کا برتاؤ کرتے ہیں اور صرف انھیں کو جیل بھیجتے ہیں؟ کیا ان کی نظر میں آج مسلمانوں کا وہی مقام ہے جو کبھی اس ملک میں دلتوں کا تھا؟ نریندر مودی کا وہ وعدہ کہاں گیا جو انھوں نے مسلمانوں کو برابر کا شہری سمجھنے اور ان کے ساتھ مساوی برتاؤ کرنے کی بات کہی تھی؟ کیا وہ وعدہ الیکشن کا وعدہ تھا لہٰذا الیکشن کے ساتھ ہی رخصت ہوگیا؟ ان کے آبائی صوبے گجرات میں توگڑیا تو کچھ بھی کرنے کے لئے آزاد ہے مگر مسلمان آہ کرنے کے لئے بھی آزاد نہیں۔ انھوں نے یوپی کے ان لیڈروں کو اشتعال انگیزی سے کیوں نہیں روکا جو ضمنی الیکشن میں زہر پھیلانے میں مصروف تھے؟
ہندوستانی تہذیب سے بغاوت
بھارت ایک کثیر مذہبی ملک ہے اور یہاں الگ الگ مذاہب، زبان اور تہذیب کے لوگ ایک ساتھ مل جل کر پیار محبت سے رہتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے تیج تیوہار میں شریک ہوتے ہیں اورآپس میں خوشیاں بانٹتے ہیں۔ یہ روایت صدیوں سے اس کی تہذیب وثقافت کا حصہ ہے ۔ انگریزی عہد حکومت میں پہلی بار ’’تقسیم کرو اور راج کرو‘‘ کی پالیسی شروع ہوئی اور یہاں کے سیدھے سادے عوام کو آپس میں لڑایا جانے لگا تاکہ ان کے اختلافات کا فائدہ اٹھاکر حکومت کو طول دیا جاسکے۔ خیر انگریزوں کی پالیسی کو ہندوستانیوں نے سمجھا اور ان کی کوشش کو ناکام بنایا مگر اب فرقہ پرست قوتیں اسی پالیسی کو زندہ کر رہی ہیں اور لوگوں کو بانٹنے کے لئے طرح طرح کے بہانے ڈھوند رہی ہیں۔ ہمارے ملک کے تیج تیوہار وں کی حیثیت عموماًقومی تیوہاروں کی رہی ہے۔ اگر مسلمان اپنے ہندو پڑوسیوں کے ساتھ ہولی اور دیوالی میں شریک ہوتے ہیں تو ہندو برادران وطن بھی عید اور محرم میں عام طور پر مسلمانوں کی خوشیوں میں شریک ہونے آتے ہیں۔ بعض ہندوانہ رسوم کی علماء مخالفت کرتے رہتے ہیں مگر مسلمان پھر بھی انھیں نہیں چھوڑتے کیونکہ وہ اسے رواداری کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اسی طرح گربا اور ڈانڈیا بھی گجرات میں ایسے ہی ہوتے ہیں جن میں ہندووں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی شریک ہوکر اپنے ہندو دوستوں کی خوشیوں میں اضافہ کرتے ہیں مگر آج وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل اس رشتۂ محبت کو ختم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ انھوں نے ایسے احکامات جاری کئے ہیں کہ کسی بھی مسلمان کو گربا میں نہ آنے دیا جائے اور آنے والوں کا شناختی کارڈ دیکھا جائے۔ یہ پابندی گربا میں مسلمانوں کی شرکت پر پابندی نہیں ہے بلکہ ہندوستانی کی ہزاروں سال پرانی محبت کی تہذیب پر بندش ہے۔ علماء دین اس قسم کے مواقع پر مسلمانوں کی حاضری کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔ وہ دسہرہ، درگا پوجا، دیوالی، ہولی، پونگل، گربا وغیرہ کو قومی تیوہار نہیں ہندووں کا مذہبی تیوہار مانتے ہیں اور ان سے مسلمانوں کو دور رہنے کی نصیحت کرتے ہیں مگر اس کا کم ہی اثر ہوتا ہے۔ جس کام کو علماء نہ کرسکے اسے فرقہ پرستوں نے اپنے طریقے سے کردیا اور ان مسلمانوں میں دہشت پیدا کردی جو ان میں شرکت کرتے ہیں۔
الگ الگ راستہ
ہماری اطلاعا ت کے مطابق آر ایس ایس کی طرف سے اس کی تمام ذیلی تنظیمیوں کو کہا گیا ہے کہ بی جے پی سرکار میں ہے لہٰذا اس کا راج دھرم اشتعال انگیزی اور کھلے عام فرقہ پرستی پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا ہے مگر وہ اس سلسلے میں آزاد ہیں۔ انھوں نے اگر فرقہ پرستی کا راستہ چھوڑ دیا تو ان کی پہچان ختم ہوجائے گی ۔ یہی سبب ہے کہ بی جے پی سرکار الگ راہ اپناتی ہے اور اس کی ساتھی سنگھی جماعتوں کا الگ راگ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ اس ملک کا مسلمان ملک کے لے جیتا ہے اور ملک کے لئے مرتا ہے مگر وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی جماعتیں اسے غیرملکی قرار دیتی ہیں اور اسے مشتعل کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔
جواب دیں