نریندر مودی جنہوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیا‘ یہ جانتے ہیں کہ اکیسویں صدی انفارمیشن ٹکنالوجی ہی کی صدی ہے۔ ستیہ نادیلا نے مائیکرو سافٹ اور سندر پچائی نے گوگل‘ شنتانو نارائن (اڈوب) کے سی ای او کا عہدہ سنھالتے ہوئے اس کا ثبوت دے دیا ہے۔ فیس بک اور گوگل کو اندازہ ہے کہ ہندوستان کی قدر و قیمت کیا ہے‘ چنانچہ فیس بک کے بانی موجد ذکربرگ اپنے ہیڈ کوارٹرس میں مودی سے بات چیت کے دوران ان سے متاثر و مرعوب نظر آئے… ٹِم کوک (ایپل)، پال جیکبس ( کوالکم)، جان چیمبرس (سسکو) نے بھی ہندوستانی وزیر اعظم کی ایسی پذیرائی کی کہ جو شاید ہی کسی اور ایشیائی مملکت کے سربراہ کے حصہ میں آئی ہوگی۔ اور امریکی سرزمین پر خدمات انجام دے رہے ہندوستانی ایک بار پھر کثیر تعداد میں ہندوستانی وزیر اعظم کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ ان کے جوش و خروش اور نعروں سے مودی تو خوش ہوئے ہی اس کا اثر یقیناًعالمی برادری پر بھی مرتب ہوا۔ ایک اچھے لیڈر کی سب سے اچھی خصوصیت اس کی تقریری صلاحیت ہے۔ مودی بہترین مقرر ہیں۔ لفظوں کا انتخاب خوب کرتے ہیں۔ مختصر سے معنی خیز جملوں میں پوری بات کہہ جاتے ہیں۔ ایسے جملے کہتے ہیں جس پر سامعین و ناظرین واہ واہ کرنے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں… اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ اپوزیشن پر تنقید اپنی تعریف اس انداز میں کی کہ کسی کو اس کا احساس تک نہ ہوا… انہوں نے سلی کان ویلی کے سرکردہ اداروں کے سربراہوں سے بہت سارے تیقنات حاصل کرلئے۔ گوگل‘ اگلے سال کے اواخر تک ہندوستان کے 500 بڑے ریلوے اسٹیشن پر وائی فائی کی سہولت فراہم کرے گا۔ مائیکروسافٹ‘ پانچ لاکھ مواضعات کو براڈ بیانڈ سرویسز فراہم کرے گا۔ امکان ہے کہ ایپل جن دھن یوجنا اور اس کے صارفین کے درمیان رابطہ قائم رکھنے میں مدد دے گا… کوالکم 150ملین ڈالرس کا اسٹارٹ اَپ فنڈ فراہم کرے گا۔ تمام اہم بڑی کمپنیوں نے ہندوستان میں سرمایہ کاری سے اتفاق کیا ہے۔ وہ ’’ڈیجیٹل انڈیا‘‘ کے خواب کو روبہ تعبیر کرنے میں مدد کرنا چاہتے ہیں جبکہ مودی نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہندوستان کی مستقل رکنیت کے لئے طاقتور ممالک کے سربراہوں کی حمایت حاصل کی جائے۔ انہوں نے ان ممالک کے ساتھ سلامتی‘ انسداد دہشت گردی‘ دفاع‘ اقتصادیات اور ماحولیاتی تبدیلی کے لئے امریکہ کے ساتھ باہمی تعاون کو مستحکم کیا۔
ہندوستان میں اپوزیشن جماعتیں مودی کے بیرونی دوروں پر تنقید کررہی ہیں۔ جبکہ مودی کے حامیوں اور بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے نریندر مودی نے پڑوسی ممالک کا دورہ کرکے ان کے ساتھ اپنے روابط و رشتوں کو بہتر بنایا ہے۔ انہیں مالی امداد بھی دی اور ساتھ ہی ان کے ساتھ ایسے معاہدات کئے جس کی بدولت مستقبل میں یہ ممالک جن میں پاکستان شامل نہیں ہے‘ ہندوستان اپنی طاقت بن جائیں گے۔ چاہے وہ بھوٹان ہو یا نیپال۔ اِن ممالک کے ساتھ بجلی کی پیداوار کا معاہدہ کیا گیا۔ جس کے تحت ہندوستان کو بجلی کا بڑا حصہ ملے گا۔ بھوٹان ہندوستان کا دوست ملک ہے۔ چین کے ساتھ جنگ یا تنازعات کے موقع پر یہ کام آتا ہے۔ اسے مودی نے ہندوستانی مارکیٹ میں رسائی کے مواقع فراہم کئے اور اس کے لئے انہوں نے ایکسپورٹ امپورٹ پر ٹیکس سے مستثنیٰ کیا۔ ہائیڈرو الکٹرک پاور پراجکٹ سے ہندوستان کو بجلی کی زیادہ مقدار حاصل ہوگی۔ نیپال سے معاہدہ کیا کہ اس کے داخلی یا خارجی معاملات میں وہ اب مداخلت نہیں کرے گا۔ ورنہ 1950ء سے نیپال کو ایک معاہدہ کے تحت اپنی داخلی اور خارجی پالیسی کے لئے ہندوستان سے اجازت لینی ہوتی تھی۔ جس کا نیپالی سیاستدان استحصال کرتے رہے ہیں۔
جاپان نے 1999ء کے نیوکلیر تجربات کے بعد کئی ہندوستانی کمپنیوں پر امتناع عائد کردیا تھا جو مودی نے ختم کروایا۔ اب ایچ اے ایل اور چھ ہندوستانی کمپنیاں جاپان کے ساتھ ریسرچ کررہی ہیں۔ جاپان نے 34بلین ڈالرس کی سرمایہ کاری کا بھی وعدہ کیا ہے۔ آبدوز ٹکنالوجی میں فجی نے خلائی کھوج کے میدان میں مکمل تعاون کی پیشکش کی۔ پاور، آئی ٹی، ایجوکیشن میں مشترکہ پراجکٹس شروع کئے گئے۔ برکس BRICS کانفرنس کے موقع پر برازیل کے دورہ کے بارے میں مودی کے حامیوں کا دعویٰ رہا کہ برکس بنک ہندوستان میں غربت کے خاتمہ میں مدد کرے گا۔ کناڈا، فرانس، یوروپ، جرمنی کے دوروں سے ہندوستان کو شمسی توانائی، نیوکلیائی توانائی کے شعبوں میں مدد ملے گی۔ چین سے تعلقات کبھی بہتر تو کبھی کشیدہ رہے۔ ہندی چینی بھائی بھائی کانعرہ لگاکر دھوکہ دینے والے چین نے بار بار سرحدی معاہدات کی خلاف ورزی کی ہے۔ چین کنزیومر پراڈکٹس کاگلوبل لیڈر ہے۔ اور خود ہندوستانی مارکیٹ میں اس کا غلبہ ہے۔ ہندوستان اس سے مسابقت کررہا ہے‘ تاہم ابھی بہت پیچھے ہے۔ مودی حکومت نے ہند۔چین تجارتی تعلقات کو ترجیح دی۔ چین نے 20بلین ڈالرس کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا۔ سوپر پاور امریکہ کو متاثر کرکے اس سے چاربلین ڈالرس کی سرمایہ کاری کا تیقن حاصل کیا جبکہ امریکی سرمایہ کار بھی 41بلین ڈالرس کی سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ آسٹریلین حکومت نے 28برس میں پہلے ہندوستانی وزیر اعظم کے دورہ کے موقع پر ہندوستان کو یورانیم کی سربراہی کا وعدہ کیا تاکہ بجلی اور دیگر توانائیوں کی پیداوار کی جاسکے۔
بہرحال وزیر اعظم نریندر مودی نے ڈیڑھ برس کے دوران لگ بھگ دنیا کے بیشتر ممالک کا دورہ کرلیا۔ جن میں متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے۔ اس مرتبہ ان کے دورہ امریکہ پر جس قدر ان کی پذیرائی ہوئی اتنی ہی عوامی سطح پر مخالفت بھی کی گئی۔ ہندوتوا طاقتوں کی جانب سے جبری مذہبی تبدیلی کے واقعات، اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی کے واقعات کے خَاف نیویارک اور سان جوزے میں احتجاجی بیانرس لگائے گئے۔ فیس بک ہیڈ کوارٹر پر مارک ذکربرگ سے ملاقات کا جہاں خیر مقدم کیا گیا وہیں سلی کان ویلی کے شہریوں نے جو پیغامات ذکربرگ کو روانہ کئے ہیں ان میں مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ نریندر مودی سے مصافحہ کے بعد ہاتھ دھولیں کیوں کہ ان کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعہ بیانر لٹکایا گیا جس پر سکھوں کے ساتھ انصاف کا مطالبہ کیا گیا۔ مودی کا کہنا ہے کہ وہ ٹکنالوجی کی مدد سے ہندوستان کے دیہی علاقوں کو ایک دوسرے سے مربوط کریں گے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی اور بجلی غربت کے خاتمہ کے لئے ضروری ہیں۔ اور وہ دونوں شعبوں میں کامیاب ہیں۔ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ہندوستان کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی غریب ترین افراد پر مشتمل ہے۔ اب بھی لاکھوں نوجوان بیروزگار ہیں۔ ہزاروں مواضعات بجلی، پینے کے پانی، بیت الخلاء کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ہندوستان کی دولت مٹھی بھر افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ ملک کی سیاست بھلے ہی کسی جماعت کے ہاتھ میں ہو مگر ریموٹ کنٹرول تجارتی گھرانوں کے پاس ہے۔ ایک طرف نریندر مودی اپنے غیر ملکی دوروں سے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہندوستان ایک ترقی یافتہ ملک ہے‘ سلی کان ویلی یا آئی ٹی سیکٹر میں ملازم ہندوستانی، بھارت کے نمائندے ہیں۔ جبکہ اندرون ملک کی تصویر اور کہانی اس سے مختلف ہے۔
ہندوتوا کی بڑھتی طاقت‘ تعصب پرستی‘ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے عقائد رسومات پر پابندیاں بلکہ ان کی خوراک پر بھی پابندی عائد کرنے کی کوششیں،قانون اور انصاف کے ایوانوں میں بے ایمانی کی بڑھتی ہوئی روایات سے ملک کا داخلی نظام کمزور ہوتا جارہا ہے۔ اچھے دن کے وعدے پورے کب ہوں گے۔ 2019 کے الیکشن سے پہلے یہ کہا نہیں جاسکتا۔ کالادھن سوئز بنکوں سے واپس لانے کا وعدہ تو وعدہ محبوب ثابت ہوا۔ نئی اسکیمات کا اعلان اپنی جگہ‘ ان پر عمل آوری اپنی جگہ…
نریندر مودی کی تقریر کو جہاں سراہا گیا وہیں فیس بک ہیڈ کوارٹر پر ان کے جذباتی انداز‘ لب و لہجہ سے بھی دنیا متاثر نظر آئی۔ جب انہوں نے اپنی ماں کی دکھ بھری داستان گلوگیر لہجہ میں سنائی‘ کانگریس کے آنند شرما نے اس پر تنقید کی تو اسے آڑے ہاتھوں لے لیا گیا۔ تاہم خود گجرات سے تعلق رکھنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ مودی اپنی ماں کی تکالیف کو یاد کرکے روپڑے… کاش وہ ان ماؤں کو بھی یاد کرتے جن کے جوان بچوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے ذبح کردے گیا‘ یا شعلہ پوش گھروں‘ جلتی کاروں یا دہکتے ٹائروں پر پھینک دیا گیا اور زندہ جلادیا گیا۔ اُن ماؤں کو… جن کے پیٹ چیر کر پیدا ہونے والے بچوں کو بھالوں، نیزوں سے ماردیاگیا…
مودی نے اپنی بقید حیات ماں کو جذباتی انداز میں یاد کیا تو کئی آنکھیں اشکبار ہوئیں… خاص طور سے 2002ء کو یاد کرکے… کچھ ذہنوں میں یہ سوال بھی اٹھے… اتنا نرم دل انسان 13برس پہلے اس قدر سفاک انسان کیسے تھا۔ جسے نہ تو فرضی انکاؤنٹرس میں شہید کئے جانے والوں کی چیخیں سنائی دیں… نہ بلقیس بیگم کی آہ و بکا… نہ احسان جعفری کی بیوی کی… ہزاروں ذہنوں میں یہ سوال شاید ہمیشہ ابھرتے رہیں گے!(
جواب دیں