مودی کا مون اور پارلیمنٹ

بد عنوانی دور کر اچھے دن لانے کے وعدے پر عوام نے مودی کو تاریخی اکثریت سے منتخب کیا مودی نے جس زور شور سے کالی دولت بد عنوانی کا معاملہ اٹھایا تھا اس سے ایسا لگنے لگا تھا کہ اچھے دن آئے یا نہ آئے رشوت خوروں ، بدعنوانوں ، دلالوں اور اختیارات کا بے جا استعمال کرنے والوں کے برے دن ضرور آجائیں گے ۔سرکار کا ایک سال پورا ہونے پر نومبر میں بھاجپا نے جن کلیان پرو منایا جس میں پورے ہفتہ مودی اور ان کے رفقاء نے چیخ چیخ کر کہا کہ ملک بد عنوانیوں سے آزاد ہو چکا ہے ۔دیش کے بھولے بھالے عوام یقین بھی کر لیتے لیکن اسی وقت ویاپم گھوٹالہ سامنے آگیا ۔ بی جے پی کو اپنی جن چار ریاستوں گجرات ، راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ پر سوساشن اور ایمانداری کے لئے فخر تھا ان میں سے تین کے بدعنوانی کے کالے کارنامے سامنے آچکے ہیں ۔ چوتھی ریاست کے طور پر گجرات کی جگہ مہاراشٹر نے لے لی ہے جہاں پنکجا منڈے اور ونود تاوڑے نے بغیر ٹینڈر کے کروڑوں روپے کے ٹھیکے دےئے ہیں ۔ چھتیس گڑھ کے چاول گھوٹالہ نے کانگریس کے گھپلوں کو پھیکا کر دیا ۔ وسندرا راجے سندھیا پر للت مودی کو غیر معمولی فائدہ پہچانے اور ششما سوراج پر ان کی سفارش کرنے کا سنگین الزام لگا ہے جس کا بی جے پی سرکار سے جواب نہیں بن پا رہا ۔ بدعنوانی کے معاملہ ورن گاندھی کے دامن تک بھی پہنچ گئے سدھانشو متل پر حوالہ کاروباری وویک ناگپال سے تعلقات رکھنے کا الزام لگا ہے ۔ ویاپم کے ذریعہ بی جے پی و آر ایس ایس کے بڑے لوگوں کو فائدہ پہچانے کا معاملہ اب جگ ظاہر ہو چکا ہے ۔ ویاپم سے جڑے لوگوں کی پر اسرار اموات نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دےئے ہیں خبر آرہی ہے کہ مدھیہ پردیش کا ڈی میٹ گھوٹالہ ویاپم سے بھی بڑا ثابت ہوگا ۔ 

وزیر اعظم کے مون اور کوئی فیصلہ نہ لینے کو سمجھنے کے لئے ان دنوں کویاد کیجےئے جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے انہوں نے اپنے بارہ سال کے دور حکومت میں کب کس کی بات مانی ؟ یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے راج دھرم نبھانے کی نصیحت کو بھی ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا تھا ؟ کیا یہ آئینہ کی طرح صاف نہیں کہ مودی نے رائے عامہ کی کبھی پرواہ نہیں کی ؟ اعتراض مودی کے فیصلوں پر کیا گیا ہو یا ان کی ذاتی زندگی پر انہوں نے ہر موقع پر خاموش رہنے کو ترجیح دی ۔آج وزیر اعظم رہتے ہوئے بھی وہ اسی پرانے آزمائے ہوئے نسخے پر عمل کررہے ہیں ۔ یہ کتنا کامیاب ہوگا یہ کہنا مشکل ہے لیکن آج ان کی سوچ یہی ہے کہ جو چلا رہے ہیں انہیں چلانے دو ، ایک دن تھک کر سب اپنے آپ چپ ہو جائیں گے وہ عوام میں جاکر اس کو بھنانے کی کوشش کریں گے کیونکہ وہ آج جس مقام پر ہیں انہیں نہ کوئی خطرہ ہے نہ کسی کا چیلینج ۔ 

بھاجپا میں ایک گروہ مودی کو پسند نہیں کرتا ترتھوی راج چوہان ، وسندھرا راجے ، ششما سوراج وغیرہ اسی خیمہ سے تعلق رکھتے ہیں مودی نے کچھ کو اپنے ساتھ ملا کر اس گروپ کو پارٹی و سرکار میں کنارے کردیا ۔ اس میں ان کے استاد اڈوانی بھی شامل ہیں ۔ مودی کے بد عنوانیوں کا الزام جھیل رہے ساتھیوں سے استعفیٰ نہ لینے کے پیچھے بہار کا چناؤ مانا جا رہا ہے جس میں اب بہت کم وقت بچا ہے اس وقت اگر استعفیٰ لیا جاتا ہے تو اس کا سیدھا اثر بہار کے انتخاب پر پڑے گا اور پارٹی میں پھر سے گروپ بندی شروع ہو جائے گی ۔ مودی یہ جانے ہیں کہ استعفیٰ نہ لینے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس ہنگامے کی نذر ہو جائے گا ۔ ہو سکتا ہے کچھ بل اگلے اجلاس کے لئے ٹل جائیں مگر من کا فیصلہ لاگو کرنے کے لئے آر ڈیننس کا راستہ تو موجود ہے ۔ بہار میں پارٹی کی نا کامی بھاجپا کو راجیہ سبھا میں اکثریت سے دور رکھے گی جو آئندہ کے لئے اس کے حق میں نہیں ہے ۔ 

جمہوری ملک میں پارلیمنٹ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اسے قانون کا مندر بھی کہا جاتا ہے ملک کی تمام ضرورتوں کے قوانین یہیں پاس ہو کر عمل میں آتے ہیں ۔ آر ڈیننس کی بنیاد پر ملک نہیں چل سکتا پھر آر ڈیننس ایک مقررہ مدت کے لئے ہی ہوتا ہے اسے بل کی شکل میں پارلیمنٹ سے پاس کراکر مستقل قانون میں بدلا جاتا ہے یا پھر اس کی مدت میں توسیع کی جاتی ہے لیکن آر ڈیننس کی بنیاد پر چلنے والی سرکار کو کمزور مانا جاتا ہے ۔ مانسون اجلاس بغیر کسی کام کے اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے پارلیمنٹ کی موجودہ صوررت حال پر مرلی منوہر جوشی کا بیان اہم ہے ’’ پارلیمنٹ نہ چلنے دینے میں کئی مرتبہ سرکار کی منشا ء بھی شامل ہوتی ہے سوال پوچھنے کا ممبران پارلیمنٹ کا قانونی حق ہے اس کو نہیں چھیننا چاہئے سوال سے کئی مسئلے حل ہو جاتے ہیں تو کئی بڑے معاملے سامنے آتے ہیں انہوں نے ٹو جی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہنس راج اہیر کے سوال سے ہی اتنے بڑے گھوٹالے کا پردہ فاش ہوا تھا ۔

برسر اقتدار پارٹی کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ پارلیمنٹ بنا رکاوٹ کے چلے اور پارلیمنٹ سے زیادہ سے زیادہ وہ بل پاس کرائے اس کے لئے اپوزیشن کو اعتماد میں لیکر کام کرنے کی روایت رہی ہے پارلیمنٹ کے باہر حزب اختلاف لیڈران سے ملاقات کی جاتی ہے کئی مرتبہ سرکاری نمائندے کے طورپر انہیں دوسرے ممالک میں بھیجا جاتا ہے خود اٹل جی کے زمانے میں پرمود مہاجن اس کام پر معمور تھے ۔ ضرورت پڑنے پر اٹل جی خود بھی بات کیا کرتے تھے موجودہ سرکار نے حزب اختلاف کے ساتھ مل کر کام کرنے کے بجائے پہلے اس کی آواز دبانے کی کوشش کی پھر اس کے سوالوں کے جواب میں الٹے سوال کئے گئے یعنی جب اپوزیشن نے بد عنوانیوں کے مسئلہ پر سرکار کو گھیرنے کی کوشش کی تو سرکار نے اس کے زمانے میں ہوئے گھوٹالوں کو گنانا شروع کر دیا ۔بھاجپا کی صوبائی حکومتوں پر سوال ہوا تو بھاجپا نے اتراکھنڈ اور ہماچل کی سرکاروں پر الزام لگائے ۔ جب کالی دولت پر سرکار سے جواب مانگا گیا تو یہ کہا گیا کہ کالی دولت جن لوگوں کی ہے ان میں کانگریس کے بھی بڑے بڑے لوگ شامل ہیں یا پھر یہ کہ کانگریس کے زمانے میں ہی یہ دولت باہر گئی یعنی تم میرے داغ دکھاؤ میں تمہارے دھبے گنواتا ہوں والی پالیسی اختیار کی گئی ۔ بھاجپا کو پارلیمنٹ نہ چلنے دینے کے لئے کانگریس سے بہت شکایت ہے لیکن جب وہ حزب اختلاف میں تھے تب ان کا رویہ بھی کچھ اسی طرح کا تھا ۔یو پی اے کی سرکار پر دس سال میں بی جے پی نے جو کیچڑ اچھالی تھی اتنی ہی کیچڑ صرف ایک سال میں ہی ان کے دامن پر نظر آنے لگی ہے کانگریس نے تو پھر بھی پارلیمنٹ سے کئی بل پاس کروالئے لیکن بی جے پی کانگریس کے سوالوں سے بچتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے ۔ بھاجپا کے اسی رویہ نے حاشیہ پر جا چکی کانگریس میں روح پھونک دی ۔

مودی سرکار نے جب بھی حزب اختلاف کے سوالوں کے جواب دےئے ایسا لگا جیسے انتخاب چل رہا ہو حد تو ت ہو گئی جب بی جے پی کے تمام ممبران پارلیمنٹ کے باہر دھرنے پر بیٹھ گئے مودی جی کا ریلیوں میں خطاب سن کر ایسا نہیں لگتا کہ ملک کا وزیر اعظم بول رہا ہے بلکہ ان کی ہر تقریر پارلیمنٹ انتخاب کے وقت کے وزیر اعظم کی کرسی کے دعویٰ دار مودی کی یاد دلاتی ہے مگر افسوس مودی گفتار کے چیمپئن تو بن گئے لیکن کچھ عملی کام کر نہ سکے پارلیمنٹ کی سیڑھی پر ماتھا ٹیکنے اور اپنے آپ کو پردھان سیوک بتانے والے مودی سے عوام اب بھی یہ امید کررہے ہیں کہ وہ اپنے خدمتگار ہونے کا فریضہ نبھائیں کل کو بہتر بنانے کا خواب دکھانے کے بجائے آج کو سنوارنے کی کوشش کریں بدعنوانی سے کیسے نپٹیں گے ملک کو یہ بتائیں اپنا مون توڑیں اور ملک کو بتا دیں ان کی خاموشی بد عنوانوں کی حمایت نہیں بلکہ اظہار ناراضگی ہے ۔

«
»

دشمن کا دشمن دوست

بھاگلپور فساد کمیشن کی رپورٹ مسلمانوں کے ساتھ ایک بڑا فراڈاور بھونڈہ مذاق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے