تو یہ کانگریسی وزرائے اعظم تھے اور امید تھی کہ غیر کانگریسی وزیراعظم آئے گا تو یہ روایت ٹوٹے گی، نریندر مودی سے تو بالخصوص کچھ زیادہ ہی امید تھی کیوں کہ وہ پارلیمانی انتخابات کی مہم میں دن ’رات بولتے ہی رہتے تھے‘لگ یہی رہا تھا کہ مودی کو چونکہ بولنے کی عادت پڑگئی ہوگی اس لیے وہ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی بولیں گے، ہر مسئلے پر نہ سہی مگر سنگین مسائل پر ، ایسے مسائل پر جن کا تعلق ملک اور شہریوں کی ذات سے ہوگا ان پر تو ضرور بولیں گے۔۔۔ مگر ساری امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔
مودی بھی سنگین مسائل پر زبان کو سئے ہوئے ہیں۔
سنگین مسائل فی الحال کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب سامنے ہے ۔ فی الحال ملک کی فرقہ وارانہ فضا بڑی ہی خراب ہے۔ اترپردیش سمیت کئی ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زبردست پرچار شروع ہے۔ وی ایچ پی کے دو لیڈر اشوک سنگھل اور پروین توگڑیا سیدھے سیدھے مسلمانوں کو دیکھ لینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ دھمکی دی جارہی ہے کہ مسلمان کاشی اورمتھرا کی مسجدوں سے دست بردار ہوجائیں ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔ یرقانی ٹولے کو سیدھے سیدھے یہ حکم دیا جارہا ہے کہ اگرمسلمان کسی بھی ہندو اکثریتی علاقے میں زمین، جائیداد خریدتے ہیں تو نہیں جبراً اس سے روکا جائے بلکہ ان کی جائیداد پر قبضہ کرلیا جائے۔۔۔یہ سب اُس سنگھ پریوار کے ٹھیکیداروں کے ذریعہ کیاجارہا ہے جو مودی اور بی جے پی کو کامیاب بنانے کے لیے خوب سرگرم تھے لہذا یہ سوال اٹھتا ہے اور اس وقت تک اٹھتا رہے گا جب تک جواب نہ مل جائے کہ ان فرقہ وارانہ حرکتوں اور اشتعال انگیزیوں پر وزیر اعظم مودی کیوں خاموش ہیں؟
ایک مثال مزید لیں، وی ایچ پی کے ذریعہ ’ہندو ہیلپ لائن‘ کے قیام کی۔ اس ہیلپ لائن کے جو مقاصد بتائے جارہے ہیں وہ خالص فرقہ وارانہ ہیں۔ ہندو لڑکیوں کو مسلم لڑکوں کی ’شرارتوں، سے محفوظ رکھنا، مدرسوں سے گائیوں کو برآمد کرنا، ان ہندوخواتین کی بازیابی جنہوں نے مسلمانوں سے شادیاں کی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کیا ان شرارتوں سے ملک کی فضا نہیں خراب ہوگی؟ مودی کی خاموشی کا کہیں یہ مطلب تونہیں کہ جو کچھ کیاجارہا ہے اسے بی جے پی کی مرکزی سرکار کی حمایت حاصل ہے؟ سنگھل، توگڑیا، وی ایچ پی اور ہندو ہیلپ لائن یہ سب مرکزی حکومت کے ہی مہرے ہیں؟ مودی کو اپنا ’مون‘ توڑنا پڑے گا اور ملک کو سچائی بتانا ہوگی کیوں کہ جمہوریت کا یہی اصول ہے او رہندوستان جمہوری ملک ہے، کوئی ’ہندوراشٹر‘ نہیں ہے۔
جواب دیں