مودی کا اسرائیل دورہ ۔قومی مفاد میں یا نظریاتی؟

اور ہندوستان کا کون سا سامان اور مال ہے جو اسرائیل کی مارکیٹ میں کھپ سکے گا۔اسرائیل اور یہودی کمپنیوں کا جو مال ہے وہ پہلے سے ہندوستان کی مارکیٹ میں بھرا پڑا ہے۔اور اس کے لئے کسی وزیر اعظم کے دورے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ کمپنیاں کاروبار میں ماہر ہیں کہ ان کی پہونچ دنیا کے ہر کونے تک ہے۔
اسرائیل دورے کے بعد یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اب ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں اولیت عرب ممالک کے بجائے اسرائیل کو ہوگی ۔لیکن مودی کے دورے کو دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو بڑھاوا دینے کے لئے کیا جانے والا دورہ کہا جا رہا ہے ۔لیکن مودی تجارت کو بڑھانے کے لئے آخر ان عرب ممالک کا دورہ کیوں نہیں کر رہے ہیں جہاں پر لاکھوں ہندوستانیوں کو روزگار ملا ہوا ہے۔اور غیر ملکی زر مبادلہ ہندوستان میں سب سے زیادہ عرب ممالک سے آتا ہے ۔جو ہندوستان کی معیشت کو مضبوط اور ترقی یافتہ بنانے میں مدد کرتی ہے۔ایران اور عرب ممالک سے ہم اپنا80فیصد تیل برآمد کرتے ہیں 76فیصد گیس ہندوستان قطر سے برآمد کرتا ہے۔تیل اور گیس کی قیمتوں کارشتہ ہماری رسوئی تک پہونچتا ہے لیکن مودی جی نے ان ممالک کے اوپراسرائیل کوترجیح دی یہ مودی کے نظریات کی ترجمانی ہے نہ کہ ملک کے مفادات کی ترجمانی ہے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ملک کے مفاد سب سے اوپر ہوتے ہیں اور اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے مصر اور اردن جیسے اسلامی عرب ملکوں نے اسرائیل سے اپنے تعلقات بحال رکھے ہیں اس لئے ہم کو بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا چاہئے نہ کہ مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے اسرائیل سے دوری بناناچاہئے تو اس بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اٹل بہاری باجپئی نے کہا تھا کہ دوست بدل سکتا ہے لیکن ہمسایہ نہیں ہو سکتا ہے جن عرب ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ رشتہ قائم کیا ہے وہ اس سچائی کے شکار ہوئے ہوں ۔کبھی کبھی عالمی ڈپلومیسی میں وقت اور ضرورت کے حساب سے بھی مخالفین کی مدد کی جا سکتی ہے جیسے آج کل سننے میں آرہا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب میں ایران کو لیکرکافی ذہنی ہم آہنگی بن رہی ہے۔اسی طرح ایران اور عراق کی جنگ کے دوران اور امام خمینی کی زندگی میں ایران نے عراق سے لڑنے کے لئے اسرائیل سے اسلحے اور کل پرزے خریدے تھے۔لیکن ہندوستان کے ساتھ نہ تو ایسے حالات ہیں اور نہ ہندوستان کی کوئی ایسی مجبوری کیوں کہ جو لوگ اسرائیل کے ساتھ رشتوں کی بات کرتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ ہم کو اسرائیل سے جدید ہتھیارملیں گے جو ہمارے دفاع کے لئے ضروری ہے۔شاید اس لئے ہندوستان اس وقت اسرائیلی اسلحوں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔اسرائیل ہندوستان کو اپنے60فیصد اسلحے فروخت کرتا ہے ۔ہماری سرکار کو لگ رہا ہے کہ اسرائیلی اسلحوں اور اسرائیل کی فوجی ٹریننگ سے ہم ایک بہت مضبوط ملک بن جائیں گے لیکن اس کے پس منظر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس کی کتنی ضرورت یے۔ہندوستان اپنے ہمسایہ ممالک میں چین کے بعد سب سے بڑا ملک ہے اس کی فوج سب سے بڑی ہے اس کی فوج کا بجٹ چین کو چھوڑ کر سبھی پڑوسیوں سے5سے10گنا زیادہ ہے ۔ایسے میں ہم کو کسی ملک سے خطرہ نہیں ہے جہاں تک چین کا سوال ہے تو وہ آئندہ کی فوجی اور معاشی عالمی سپر پاور ہے اور اگر ہندوستان اپنی روایتی خارجہ پالیسی کو جاری رکھے تو چین سے بھی تصادم کا کوئی امکان نہیں ہے۔اب اگر ہم کو خود ہی بڑا دکھانے کے لئے طاقتور بننا ہے تو بہت سی حرکتیں کرنا ہی ہو گا۔
اب ہم ذرا اسرائیل کے اسلحوں اور ٹریننگ کا حال بھی دیکھ لیں تو سب سے پہلے ہم یہی دیکھ لیں کہ اسرائیل اپنے ملک کے اندر آباد18لاکھ فلسطینیوں کو کیا اپنی طاقت سے ختم کر سکا کیا ان کے اندر سے آزادی کے جذبے کو ختم کر سکا جب کہ اس کے لئے امریکہ اور یوروپ کے ممالک ہر طرح سے اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔18لاکھ فلسطین جو8کلو میٹر چوڑے اور تقریباً40کلو میٹرطویل غزہ پٹی میں آباد ہیں ان کو دبانے کے لئے اسرائیل نے اپنے امریکہ اور یوروپ کے بنے تمام جدید ترین اسلحے استعمال کر لئے اپنی پوری قوم کو فوجی ٹریننگ دے دی سارا اسرائیل ہر وقت حالت جنگ میں رہتا ہے۔دس لاکھ لوگ ہر وقت فوجی ٹریننگ لیتے رہتے ہیں پھربھی فلسطینیوں کو آزادی کی جدوجہد سے باز نہیں رکھ سکا۔
ہندوستان میں ایک طبقہ ایسا ہے جو اسرائیلی اسلحوں کو فتح کی ضمانت سمجھتا ہے لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں اسرائیل سے جو اسلحے اور ٹریننگ حاصل کی گئی اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔جیسے سرھدی در اندازی روکنے کے لئے ہندوستان نے اسرائیل سے اٹل بہاری باجپئی کے زمانے میں تین ایسے بیلون خریدے تھے جو راڈرا کا کام کرتے ہیں اور سرحد پر دراندازی کو ناممکن بنادیتے ہیں اور ان بیلونوں کی قیمت4ہزار کروڑ روپئے تھی جو جاسوسی کے آلات میں دنیا کا سب سے مہنگا سامان تھا۔لیکن آپ سبھی لوگ جانتے ہیں کہ گزشتہ پندرہ سالوں میں دراندازی بڑھی ہے گھٹی نہیں جبکہ اسرائیل نے یہ کہکراسلحہ فروخت کیا تھا کہ اس سے دراندازی ناممکن ہوگی اسی طرح فوجی تربیت کا جہاں تک سوال ہے تو ہندوستان نے اپنی فوج کے اسپیشل کماندوذ کو اسرائیل تربیت کے لئے بھیجا تھا اور اسرائیل نے اس کی کافی اورنچی قیمت بھی اصولی تھی اور یہ بتایا تھا کہ یہ دنیا کے سب سے قابل کمانڈوز ہیں لیکن جب11؍26کے ممبئی حملے کے وقت ان کمانڈوز کو قصاب اور اس کے ساتھیوں کے خلاف اتارا گیا تو 400اسرائیل کے تربیت یافتہ کمانڈوز دس لوگوں سے دو دنوں تک لڑتے رہے یہ ہے اسرائیل کے اسلحوں اور تربیت کی ہندوستانی ماحول میں اہمیت اسی طرح سری لنگا میں تمل باغیوں کے پاس اسرائیل کے ہتھیار تھے اور ان کے سامنے سری لنکا کی فوج کے پاس چین کے بنے ہوئے اسلحے تھے لیکن تملوں کا کیا حشر ہوا اس سے پوری دنیا واقف ہے۔
اسرائیل میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور فوجی خرچ بھی دن بدن بڑھ رہا ہے ایسے میں اسرائیل کو روزگار اور پیسے کی سخت ضرورت ہے اور اسرائیل کو لگتا ہے کہ اگر ہندوستان جو کہ دنیا کا ہتھیاوں کا سب سے بڑا خردیار ہے اور تیسرے نمبر کی عالمی فوج ہے اگر وہ اسرائیلی اسلحوں کا خریدار بن جائے تو اسرائیل کی معیشت کو طاقت دینے کے لئے امریکہ اور یوروپ کے بعد ایک متبادل مل جائے گا جس سے وہاں روزگار کے مواقع بھی بڑے پیمانے پرحاصل ہوں گے اسی لئے اسرائیل اپنے اسلحوں کے بارے میں بڑھا چڑھا کر بات کرتا ہے اور بہت اونچی قیمت پر ہندوستان کو فروخت کرتا ہے اسرائیل کے سوداگر ہندوستان کے حکمراں طبقے کی دکھتی رگ کو پہچان گئے ہیں اوروہ اس کا استعمال کرنا جانتے ہیں۔
مسٹر مودی ہوں یا باجپئی رہے ہوں یا نرسمہا راؤ سبھی نے ملکی مفادات کے بجائے مسلم دشمنی میں اسرائیل سے روابط بڑھائے ہیں جب کہ اگر نظریات کے طور پر دیکھا جائے تو آر ایس ایس کے بانی رہے گوالکر اور ہیڈ گوار اسرائیلی ریاست کے قیام کے مخالف رہے ہیں کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ ہٹلر چوں کہ نسلی طور پر آرین ہے اور ہندوستان میں رہنے والے برہمن راجپوت اور بنئے بھی آرین ہیں اس لئے وہ ہٹلر کی تائید کرتے تھے جو کو یہودی اپنا سب سے بڑا دشمن مانتے تھے ہٹلر کا کہنا تھا کہ ہماری ساری پریشانیوں اور مصیبت کی جڑ یہودی ہیں ۔یہ ہمارے ملک کو دیمک کی طرح سے کھوکھلا کرتے ہیں ۔لیکن یہی آر ایس ایس آج مسلم دشمنی میں اپنے بانیوں کے نظر یات سے انحراف کرنے پر آمادہ ہے۔
ہندوستان کے حکمراں طبقے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ ہندوستان ایک زرعی ملک ہے اور ہمارے یہاں کھیتی برسات پر منحصر ہے اس معاملے میں اسرائیلی تکنالوجی بہت کامیاب ہے خاص طور پر کم پانی کی فراہمی کے علاقوں میں اور ریگستانی علاقوں میں ۔نرسمہاراؤ سے لیکر اٹل بہاری واجپئی کی سرکار تک میں اسرائیل سے بہت سے ماہرین کا وفدہندوستان آیا اور اس نے یہ دعوہ کیا کہ جس طرح اسرائیل نے ریگستان میں انگور اور سنترے کی کھیتی کرکے کرشمہ کیا ہے اسی طرح پورے راجستھان میں پھلوں کی زراعت کر ذریعہ خوشحالی لائی جاسکتی ہے۔گزشتہ دو دہائیوں سے اسرائیل کے ماہرین راجستھان میں انگور اور سنترے کی کھیتی میں اپنی صلاحیت خرچ کر رہے ہیں نتیجہ آپ خود ہی دیکھ سکتے ہیں ہمارے اترپردیش میں جب مسلمانوں کو ووٹوں سے سماجوادی پارٹی کی حکومت بنی تو شیوپال یادو جی نے ایک مہینے کے اندر اسرائیل کا دورہ کیا اور بتایا کہ بندیل کھنڈ میں جو سوکھے کی وجہ سے پانی کی قلت ہے اس کو اسرائیل کی مدد سے اور اس کی تکنالوجی سے دور کیا جا سکتا ہے اور بندیل کھنڈ بھی بہت جلدپنجاب کی طرح ہرا بھرا ہو سکتا ہے تین سال سے زیادہ وقت گزرگیا بندیل کھنڈ میں پانی ملنا عوام کے لئے پہلے سے مشکل ہو گیا ہے لیکن ٹنڈر اسرائیل کی کمپنی کو مل چکا ہے۔وزیر اعظم مودی کو اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ملکی مفادات ملکی عوام کے جذبات کواحترام دئے بغیر مناسب نہیں ہے۔اگر ان کی سرکار ایسا کام کریگی جس سے ملک میں رہنے والی اقلیتوں کو لگے کہ ہماری اپنی سرکار ہمارے جذبات کا خیال نہیں رکھ رہی ہے۔تو ملک کے اتحاد اور سماجی اتحاد کو ہی نقصان پہونچے گا۔کیونکہ آج کے دور میں جب آپ عالمی منڈی سے جدید ترین ہتھیار خرید سکتے ہیں امریکہ اور یوروپ سے اسرائیل کے معیار کے اور اس سے بہتر اسلحے خرید سکتے ہیں اور یہ ممالک ہندوستان کو اسلحے فروخت کرنے کے لئے بیتاب بھی ہیں ایسے میں زبردستی مہنگے اسلحے خریدنے کے لئے اسرائیل کو ترجیح دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ویسے بھی اسرائیل کے اسلحوں کی ضرورت ہندوستان کے علاوہ کسی بھی ایشیائی اور افریقی ملک کو نہیں ہے،لیکن وزیر اعظم مودی آر ایس ایس کے منصوبے کے تحت اسرائیل کا دورہ کر رہے ہیں اور آر ایس ایس اسرائیل کی مدد سے ہندوستان کی اسپین بنانا چاہتے ہے لیکن اگر یہ افغانستان بن گیا تو کیاہوگا اس کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے اسرائیل کا ہندوستان سے کوئی مذہبی یا ثقافتی رشتہ نہیں رہا ہے۔ہاں اگر مودی چاہیں تو ایک رشتہ جوڑ سکتے ہیں وہ بہت تاریخی ہے۔جس طرح اوبامہ کے دورے پر مودی نے براک لفظ کا معنی سب کو بتایا تھا سی طرح اسرائیل میں جاکر رام لفظ کا معنی بھی بتانے کی زحمت کریں کیونکہ ان کی پارٹی کی ساری ترقی اور حکومت تک پہونچ رام کے نام پر ہوئی ہے اور اب ان کو یہ انکشاف کردینا چاہئے کہ رام لفظ بنیادی طور پر عبرانی زبان کا ہے جو یہودیوں کی مذہبی زبا ہے اور اس وقت اسرائیل کی قومی زبان ہے۔یہی ایک لفظ ہندوستان اور اسرائیل کے روابط کو تاریخی مذہبی اور لسانیاتی رشتے میں باندھے گا۔(یو این این)

«
»

روزہ عبادت ہی نہیں،مہلک بیماریوں کاشافی علاج بھی

کاسہ لیس رہنما۔۔۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے