اپنی نوعیت کا یہ دوسرا واقعہ ہے جسے وزیر اعظم نریندر مودی نے منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔اس سے قبل روس کے شہر اوفا میں بھی وزیر اعظم نریندر مودی نواز شریف سے بغل گیر ہوکر سفارتی اور سیاسی امور کے ماہرین کر تذبذب کا شکار کرچکے ہیں۔وہ گرم جوش ملا قات ایسے وقت میں ہوئی تھی جب ہند پاک سرحد پر جنگ جیسے حالات پیدا ہوگئے تھے اور امن کے دشمنوں نے اپنے اپنے مفادات کی روٹیاں سیکنے میں کوئی کمی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔بہرحال اس اچانک دورہ کو کون کس نگاہ سے دیکھ رہا ہے اسے تو رہنے دیا جائے ۔البتہ نریندر مودی نے منفرد انداز میں اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر افغانستان کے دورے سے واپسی پر لاہور میں مختصر قیام کی اطلاع دی تھی۔جس کے بعد انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے پاکستانی ہم منصب نوازشریف کو ان کی سالگرہ پر مبارکباد کیلئے فون کیا تو انہوں نے کابل سے ہندوستان جاتے ہوئے لاہور میں ان کے ساتھ ایک کپ چائے پینے کی خواہش ظاہر کی جس کا اخلاقاً انکار نہیں کیا جاسکا اور اس طرح اپنی وسعت قلبی کامظا ہرہ کرانے کیلئے انہوں نے لاہور میں اترنے کااچانک فیصلہ کر لیا۔حالاں کہ سیاسی مداریوں نے اس مختصر اور اچانک دورہ پر اپنے اپنے مفادات کے ڈمرو بجانا شروع کر دیے ہیں۔دیرینہ حریف کانگریس نے تو آسمان سرپر اٹھا رکھا ہے۔مگراس کے اعترا ضات کو ملک کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں۔
بہرحا ل سیاسی دوست ودشمن کو نظر اندازکردیجئے اور اس وقت دونوں ممالک کے میڈیا مہاجنوں کی بات کی جائے یہی منا سب معلوم ہوتا ہے۔پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی میڈ یا نے بھی وزیراعظم ہند کے اس دورہ کا استقبال کیا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کے اچانک ہونے والے پاکستان دورے پر بین الاقوامی میڈیا میں مثبت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے جوہری توانائی کے حامل دو پڑوسی ممالک کے تعلقات میں ایک نیا باب قرار دیاگیا ہے۔بی بی سی نے مسٹر مودی کے اس دورے کو چونکانے والا قدم بتایا ہے ،لیکن ساتھ ہی کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اصل میں امن قائم کرنے میں ابھی طویل وقت لگے گا۔امریکہ کے اہم اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مسٹر مودی کے اس قدم سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بحال ہونے والے جامع مذاکرات کو نئی قوت مل سکتی ہے جوآئندہ برس جنوری میں ہونے والے ہیں، لیکن دونوں ممالک کے تعلقات کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچنا ابھی جلد بازی ہوگی۔
دریں اثنا اطلاعات ہیں کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے وزیر اعظم نریندر مودی کے پاکستان دورہ اور وزیر اعظم نواز شریف سے ان کی ملاقات کا خیرمقدم کیا ہے اور دونوں ممالک کے مابین بات چیت آئندہ بھی جاری رہنے کی امید ظاہر کی ہے۔اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا کہ سکریٹری جنرل طویل عرصہ سے دونوں ممالک کے لیڈروں کو بات چیت کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔انہوں نے مسٹر مودی کے اچانک پاکستان پہنچنے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے صحیح سمت میں اٹھایا گیا ایک قدم قرار دیاہے۔اقوام متحدہ کے خیر مقدم سے واضح پیغام مل رہا ہے کہ اس وقت ساری دنیا قیام امن اورمعنوی ترقی کیلئے ہندوپاک تعلقات کی استواری ضروری تصور کررہی ہے اور امید بھری نگاہوں سے دونوں ممالک کی قیادتوں کی جانب دیکھ رہی ہے۔مسرت انگیز بات یہ ہے کہ ہندوستان کے دیرینہ حریف اورپاکستان کے حلیف پڑوسی کے طورپر معروف دنیاکے تیسرے سپرپاور ملک چین نے نریندر مودی کے دورۂ پاکستان کا کھل کر خیرمقدم کیا ہے۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)چیئر مین اور سابق مایہ ناز کرکٹرعمران خان نے مودی نواز ملاقات کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا ہے اوراس دورہ کی تعریف کی ہے۔البتہ امن مخالف قوتوں کی بے چینی کو دونوں ممالک کے عوام ہی نہیں بلکہ عالمی برادری نے حقارت کے ساتھ مسترد کردیا ہے۔دونوں ممالک کے سفارتی ماہرین اوراقتصادیات نے ملاقات کا اہتمام کرنے میں کسی صنعت کار کے رول پر سوالات اٹھائے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر اسی بہانے ہی دونوں ممالک کے درمیان تلخیاں دورہوکر امن ومحبت کی فاختائیں اڑنے لگتی ہیں تو اس میں برائی کیا ہے۔اس کا جواب کانگریس پارٹی کے زبان دراز لیڈروں سے کرنا چاہئے ،جس کے دس سالہ دور اقتدارمیں ایک بار بھی اس قسم کی مثبت پہل نہیں کی گئی اور نہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اس کو مناسب سمجھا۔اس موقع پر مسٹرعمران خان نے کہاکہ’’ہم ہندو پاک کے درمیان نئی پہل کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
یہ دورہ اس لئے بھی قابل مسرت ہے کہ کسی ہندوستانی وزیراعظم کا ایک عشرے سے زیادہ عرصے کے بعد پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے۔نریندر مودی کی آمد کے پیش نظر لاہور کے علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈے کے اندر اور باہر سکیورٹی سخت کردی گئی تھی۔قبل ازیں نریندر مودی نے ٹویٹر پر ایک پیغام میں میاں نواز شریف کو ان کی سال گرہ کے موقع پر مبارک باد دی اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے نریندر مودی کے پاکستان کے مختصر دورے کے اعلان پر کہا ہے کہ ’’یہ ایک مدبر سیاست دان کاایسا معاملہ ہے جسے ہرطرف سے تائید مل رہی ہے۔ہمسایوں کے ساتھ ایسے ہی تعلقات ہونے چاہئیں‘‘۔
وزیراعظم ایک روزہ دورے پر جمعہ کی صبح افغان دارالحکومت کابل پہنچے تھے جہاں انھوں نے افغان پارلیمان کی نوتعمیرشدہ عمارت کا افتتاح کیا۔ حکومت ہندنے 2007ء میں افغانستان کی تعمیر نو کے منصوبے کے تحت یہ عمارت تعمیر کی ہے۔واضح رہے کہ اس سے پہلے وزیراعظم میاں نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان نومبر میں پیرس میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اکیسویں موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کے موقع پر ملاقات ہوئی تھی اور اس میں انھوں نے دوستانہ اور خوش گوار انداز میں بات چیت کی تھی۔دونوں ملکوں نے دسمبر کے اوائل میں اسلام آباد میں منعقدہ’’ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس کے موقع پر جامع مذاکرات کا عمل دوبارہ بحال کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ وزیر اعظم کا حالیہ دورہ اس لئے بھی نیک فال معلوم ہوتا ہے کہ اس کی متنازع ریاست جموں کشمیر میں بھی پذ یرائی کی جارہی ہے ۔علیحد گی پسند رہنماؤں نے بھی اس قدم پر خوشی کا اظہا رکیاہے۔جبکہ وادی کی حکومت اورحزب اختلاف بھی اطمینان کا اظہار کررہا ہے۔جس سے یہی پیغام ملتا ہے کہ اب دونوں ممالک کے عوام کئی دہائی پر محیط خونریزی کی بہیمیت سے تنگ آ چکے ہیں اور کسی بھی حال میں اس سے نجات چاہتے ہیں۔اب امید ہے کہ اس دورہ کے بعد امن کے دشمنوں کی ایک بھی چلنے نہیں دی جائے گی اور ایک بار پھر ہر طرف امن و محبت اور خیر سگالی کا بول بالا ہوگا۔اللہ کرے ایسا ہی ہو۔’’چشم بددور‘‘
جواب دیں