ماب لنچنگ : بچوں کو کریمنل بنانے کا دور

اپوروا نند 

سینئر صحافی (دی وائر)

ترتیب: ساجد حلیمی چیف ایڈیٹر وائس آف انڈونیپال نیوز

نمائندہ: نیوز میکس ٹی وی مہراجگنج

یہ سوال ہندوستان کے ہر اس شخص کے سامنے ہے،جو یہ مانتا ہے کہ ہندوستان میں کسی بھی مذاہب کا کوئی بھی ہو اسکو برابری سے، عزت سے، رہنے کا حق ہے، یہ مسلمان کا معاملہ ہے اگر، آپ مسلمان کو مسلمان ہونے کے وجہ سے مارتے ہیں تو کہا جانا چاہیے کہ یہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے، یہ لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں ہے، اگر ہندوستان میں چھوٹی بڑی ایسی تنظیمیں پیدا ہوگئی ہیں سیکڑوں کی تعداد میں،  ''ہندو سنگھتی''  "ہندو سینا" الگ الگ ناموں سے یہ تنظیمیں کیسے پیدا ہوگئی ہیں؟ ان کو شہ کون دے رہا ہے؟ ان کو پیسے کہاں سے آرہے ہیں؟ ہندوستان کے بھیتر جو یہ کریمنلائزیشن ہو رہا ہے، اپرادھیکرن ہو رہا ہے، 15/14سال 16سال کے بچے، عورتیں، آپ تبریز پر ہوئے حملے کا ویڈیو دیکھئے، اس میں بچے ہیں، اس میں عورتیں ہیں، 

مسلمانوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کا ریڈیکلائزیشن ہو رہا ہے، ریڈیکلائزیشن بہت تیزی سے ھندؤں میں ہو رہا ہے، اور اس بات کو ہر ہندو ماں باپ کو اور ہر ہندو شہری کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے بچوں کو کریمنل بنانے کا جو یہ دور ہے اسکو وہ کیسے روکے گا، ہندوستان ایک بہت ہی انشچت دور سے گذر رہا ہے، نیشنل این.آر.سی.کو پورے دیش میں پھیلایا جا رہا ہے، اس طرح ہر کسی کو یہ حق ہو جائے گا کہ وہ آپ پر رپورٹ کر سکے، آپ شک کے دائرے میں آئیں گے، کسی کا ایڈمنسٹریشن آپ پر کارروائی کر سکتا ہے، فورن ایکٹریبیونل بنا سکتا ہے، پورے دیش میں تقسیم، بٹوارہ، شک، شبہ، نفرت کا ماحول بنایا جا رہا ہے، اور اس ماحول کے بل پر کچھ لوگ سرکار میں بنے رہنا چاہیے ہیں، اور اس ستا کو بنائے رکھنا چاہیے ہیں، کیا یہ ملک ایک راجنیتک دل کو ایک سنگٹھن کے لئے اپنا بلیدان کر دیگا؟ یا ملک اٹھ کے کھڑا ہو گا؟ اور یہ ملک بس اسی اتحاد کو قائم کریگا جس کے لئے دنیا میں اس کی تعریف کی جاتی تھی کہ اکثریت جہاں ٪ ٨٠فیصد ہندؤں کی ہوگی، لیکن ہندوستان میں اگر آپ٪ ١ فیصد بھی ہیں کسی بھی مذاہب کے، آپ کو برابری کا حق ہے، آپ برابری سے رہ سکتے ہیں،میں دہرانا چاہتا ہوں یہاں پر،اور یہ بات گاندھی کی ہے، جن کے جنم کا یہ ڈیڑھ سواں سال ہے، گاندھی نے ١٩٤٧میں کہا تھا، ہندؤں سے کھا تھا، یہ بات دہرانا چاہتا ہوں، ہندو تعداد میں زیادہ کیوں نہ ہوں، اور مسلمان تعداد میں کم کیوں نہ ہوں، ھندو مسلمانوں کے سرپرست نہیں ہیں، مسلمان ہندؤں کے ماتحت نہیں ہیں، یہ بات ہندوستان کے پولیٹیکل کلاس کو بھی میں کہنا چاہتا ہوں،  وہ ڈر گئے ہیں، گھبرا گئے ہیں، کس وجہ سے کیوں ان کی بولتی بند ہے؟ کیوں وہ نہیں بولناچاہتے ہیں، لوک سبھا میں، راجیہ سبھا میں، سڑک پر، ہندوستان کا تمام شہری یہاں اکٹھا ہے، ہندوستان کا پولیٹیکل کلاس کیوں نہیں اکٹھا ہے؟ کیا اسے لوگوں نے ووٹ نہیں دیا؟ اور کیا اسے یہ نہیں کہا کہ وہ ان کے حق کے لئے کھڑا ہو؟ پھر وہ راجیہ سبھا میں کیوں ہے؟ لوک سبھا میں کیوں ہے؟ اس لئے ہم سب کو مل کر واپس ہندوستان کو اپنے ہاتھوں میں لینا ہے، اور ہم سب کو مل کر بنا لابھ لپیٹ کے یہ کہنا ہے کہ ہندوستان آج مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہے، ہندوستان کو یہ کہنا پڑیگا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہے، امریکہ میں لوگ اگرکہہ سکتے ہیں جب ڈونالڈ ٹرمپ اسلامی دیشوں سے آنے والوں پر پابندی لگائیں، تو امریکہ کے لوگ پلے کارڈ لےکر نکل سکتے ہیں کہ ہم سب مسلمان ہیں، نیوزی لینڈ میں جب مسجد پر حملہ ہوتاہے نیوزی لینڈ کی پوری سرکار، پورا وپکش، ان مسجدوں کے باہر کھڑا ہے، وہ نماز میں شامل ہے، نیوزی لینڈ کی عورتیں یہ بتا رہی ہیں کہ وہ مسلمانوں کی طرح دکھنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتیں، نیوزی لینڈ کے مرد یہ بتلا رہے ہیں کہ سری لنکا میں جب مسلمان منتریوں کو استعفی دینے پر مجبور کیا گیا، سری لنکا کے تمل ہندو راجنیتگیوں نے کہا یہ غلط ہے، مسلمانوں پر یہ حملہ غلط ہے، ہندوستان کے باقی لوگ یہ کہنے سے گریز کیوں کر رہے ہیں، اس لئے ہم، اور ہم میں سے جو لوگ مسلمان نہیں ہیں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں اس وقت ہم ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں، اور اگر مسلمانوں کی بے عزتی ہوئی، اگر مسلمانوں کی بے حرمتی ہوئی، اگر مسلمانوں کا برابری سے اور عزت سے رہنے کا حق چھینا گیا تو ہندوستان کی دھرم نرپیکشتا اور ہندوستان کی یہ جو پوری عمارت ہے یہ برقرار نہیں رہےگی،اس لئے ہمیں اگر ہندوستان کو برقرار رکھنا ہے تو دھرم نرپیکشتا کی پہلی شرط کو برقرار رکھنا ہوگا، اور وہ شرط ہے اکثریت (اقلیت) کے حق کی عزت، اس کی حفاظت، اور اس کے لئے آخری قدم تک جانا، ہمیں اس آندولن کو تب تک جاری رکھنا ہوگا، جب تک سنسد اس پر کوئی رخ نہ لے،  اور جب تک ان ساری تنظیمیوں کو کام کرنے سے نہ روکا جائے، جو کہ جے شری رام کے نعرے کے آگے بھارت ماتا کی جے کے نعرے کے آگے لوگوں پر حملہ لوگوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام کر رہی ہیں، اگر آپ کسی کے زندہ باد کی بات نہیں ہے، یہ بہت ہی افسوس اور بہت ہی غم کی گھڑی ہے، نہ تالی بجائیں نہ زندہ باد کی بات کریں نہ مردہ باد کی بات کریں، گاندھی نے ایک اور بات کہی تھی، آگر آپ میرے ماتھے پر بندوق رکھ کر کہیں گے، اور یہ گاندھی کہہ رہا تھا، اسی دلی میں ٢٠ دسمبر ١٩٤٧ء اپنی پرارتھنا سبھا میں، کہ اگر آپ مرے ماتھے پر بندوق رکھ کے مجھے گیتا پڑھنے کے لئے کہیں گے تو میں گیتا پڑھنے سے انکار کر دونگا، میں کوئی بھی نعرہ لگانے سے انکار کرتا ہوں، جے شری رام، بھارت ماتا کی جے،کوئ بھی نعرہ، اگر وہ نعرہ مجھ پر دھمکی کی طرح استعمال کیا جاتا ہے، یہ بات ہم لوگوں کو بنا ہچک کے، بنا شرم کے، بنا ہچکچاہٹ کے کھل کر کے کہنی چاہئے،ہندوستان میں رہنے کے لئے کوئی بھی کسی بھی شرط کو ہمارے اوپر نہیں لگا سکتا، ہندوستان میں رہنے کا حق ہر کسی کو اتنا ہی ہے جتنا دوسرے کو ہے، اور اس کے لئے اس کو کوئی ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہے،

«
»

رویش کا بلاگ: تالے میں بند کشمیر کی کوئی خبر نہیں،لیکن جشن میں ڈوبے باقی ہندوستان کو اس سے مطلب نہیں

تین طلاق بِل کی بار بار منظوری، بی جے پی حکومت کا سیاسی ہتھکنڈا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے