معاشی معاملات میں رسول اللہ ﷺ کی رہنمائی

 

محمد عبد اللّٰہ جاوید

 

درو حاضر کی ترقی نے مغربی استعمار کا گھنائونا چہرہ بے نقاب کیا ہے۔ ترقی کے نام پر جو اصول او ر طریقے اختیار کئے جارہے ہیں ‘ وہ انسانوں کو ترقی سے نہیں بلکہ لازوال تنزل سے دور چار کردیں گے۔ مغربی استعماریت یو ں تو وسیع الاطراف تصورات اور رجحانات کا مجموعہ معلوم ہوتا ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعہ سے اپنے انہیں تصورات کو عام کرنے کا اس کا اپنا ایک مخصوص طریق کا ر رہا ہے۔ یعنی استعماریت کے مد مقابل، معاشی استعماریت (Capitalist Imperialism) آج کے دور کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ جس کے سبب انسانو ں کے روز مرہ کے معمولا ت میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ رہن سہن کا انداز بدل رہا ہے۔ کھانے، پینے کے طریقوں میں فرق نظر آرہا ہے۔ غرض لباس اور وضع قطع سے لیکر سفر و حضر کے مختلف معاملات میں تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ پھر معاشی میدان میں بھی ایسی پالیسیاں جاری و ساری معلوم ہوتی ہیں، جن سے مخصوص طبقات کی بالادستی،  دولت کا ارتکاذ ‘ قدرتی وسائل کا استعمال صرف چند افراد تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔

کاروبار کے فروغ کے لئے سود کا عام ہونا، قیاس آرائی کی بنیاد پر دولت اکٹھا کرنا    (Speculative Income)‘خرید و فروخت کے لئے اپنے منصوبوں کے لئے معاون ہونے والے طریقوں کو اختیار کرنا….عام ہوتا جارہا ہے۔ ضرورت ہے کہ اسلام کی نجات دہندہ تعلیمات سے واقفیت حاصل کرتے ہوئے، انسانیت کو مغربی استعمار کے ظالم شکنجوں سے بچایا جائے۔ اور ساتھ ہی ان ذہنوں کو بھی متوجہ کیا جائے ، جن کی تخریبی سوچ نے دنیا کی دولت اور وسائل سے انسانوں کو بڑی حد تک محروم کردیا ہے۔

ذیل میں رسول اکرم ﷺ کے چند ارشادات انہیں امور مسائل سے متعلق درج کئے جارہے ہیں۔ چوں کہ آپ ﷺ کے ارشادات اپنے مفہوم و منشا میں بالکل واضح ہوتے ہیں، اس لئے ان کی تشریح کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ بعض احادیث میں اصطلاحات بیان ہوئی ہیں، صرف ان ہی کی وضاحت کی جارہی ہے۔ دن بدن بدلتے معاشی معاملات کی وجہ سے نئی نئی اصطلاحات وجود میں آئی ہیں۔ زیر نظر احادیث کے مطالعہ کے وقت ان معاشی اصطلاحات کا لحاظ رکھنا، رسول اکرم ﷺ کے ارشادات کی صحیح اسپرٹ تک رسائی میں معاون ہوگا۔

(1)   نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنْ بَیْعِ الثِّمَارِ حَتیّٰ تُزِھِیَ

اللہ کے رسولﷺ نے پھلوں کو پکنے سے پہلے انہیں بیچنے سے منع فرمایا

قِیْلَ وَمَا تُزِھِیَ ؟

پوچھا گیا کہ پکنے سے مراد کیا ہے؟

وَقَالَ حَتّٰی تَحْمَرَّ

  آپﷺ نے فرمایا کہ یہاں تک کہ سرخ ہوجائیں

وَقَالَ اَرَاَیْتَ اِذَا مَنَعَ اللّٰہُ الثَّمَرَۃَ بِمَ یَاْخُذُاَحَدُکُمْ مَالَ اَخِیْہِ  (انس ؓ-   متفق علیہ)

اور پھر فرمایا غور کرو اللہ تعالیٰ پھلوں کو روک لے تو تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا مال کس چیز کے بدلے لے گا؟

(2)   اَمَّا الَّذِیْ نَھٰی عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ فَھُوَ الطَّعَامُ اَنْ یُّبَاعَ حَتّٰی یُقْبَضَ   (ابن عباسؓ-   متفق علیہ)

جس چیز سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا وہ ایسا اناج ہے جس کو قبضہ میں لینے سے پہلے بیچا جائے

(3)   لاَ تَلَّقُوْا السِّلَعَ حَتیّٰ یُھْبَطَ بِھَا اِلیَ السُّوْقِ  (ابن عمرؓ-   متفق علیہ)

آگے جاکر مال نہ خریدو یہاں تک کہ وہ بازار میں اتار لیا جائے

(4)   لاَ یَسِمُ الرَّجُلُ عَلٰی سَوْمِ اَخِیْہِ الْمُسْلِمِ  (ابو ھریرہؓ-   مسلم)

  تم میں سے کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے

(5)  لاَ یَبِعِ الرَّجُلُ عَلیٰ بَیْعِ اَخِیْہِ …(ابن عمر ؓ-   مسلم)

کوئی اپنے بھائی کی تجارت پر تجارت نہ کرے

(6)  لاَ یَبِیْعُ حَاضِرٌ لِّبَادٍ دَعُو النَّاسَ یَرْزُقُ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ مِنْ بَعْضٍ  (جابرؓ-   مسلم)

  شہری‘ دیہاتی کے ہاتھوں فروخت نہ کرے۔ لوگوں کو آزاد چھوڑدو کیونکہ اللہ تعالیٰ بعض کے ذریعہ بعض کو رزق دیتا ہے

(7)   نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنْ بَیْعِ ضِرَابِ الْجَمَلِ وَ عَنْ بَیْعِ الْمَآئِ وَالْاَرْضِ لِتُحْرَثَ  (جابرؓ-   مسلم)

اللہ کے رسولﷺ نے اونٹ کی جفی کرانے(- copulationنر کو مادہ پر چڑھانے) کی اجرت سے منع فرمایا اور اس پانی سے جو کھیتی کو دیا جائے

(8)   نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنْ بَیْعِ فَضْلِ الْمَآئِ   (جابرؓ-   مسلم)

اللہ کے رسولﷺنے زائد پانی کی تجارت سے منع فرمایا ہے

(9)  اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ نَھٰی عَنْ بَیْعِ الْکَالِیئِ بِالْکَالِی ئِ  (ابن عمرؓ-  دارقطنی)

نبی ﷺ نے اس تجارت سے منع فرمایا ہے جس میں دونوں جانب ادھار ہو

(10)  عَنْ حَکِیْمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ نَھَانِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَنْ اَبِیْعَ مَا لَیْسَ عِنْدِیْ  (ترمذی)

حکیم بن حزامؓ کہتے ہیں کہ مجھے اللہ کے رسولﷺ نے وہ چیز بیچنے سے منع فرمایا ہے جو میرے پاس نہ ہو

(11)   نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ  (ابو ھریرہؓ-   ترمذی‘ ابودائود‘ نسائی)

  اللہ کے رسولﷺ نے ایک چیز کی دو قیمتوں سے منع فرمایا ہے

(12)  اَیُّمَا عَبْدٍ اَبَقَ مِنْ مَّوَالِیْہِ فَقَدْ کَفَرَ حَتیّٰ یَرْجِعَ اِلَیْھِمْ  (جریرؓ-   مسلم)

جو غلام اپنے مالکوں سے بھاگ گیا اس نے ناشکری کی‘یہاں تک کہ وہ ان کے پاس لوٹ آئے

(13) لَا مُسَاعَاۃَ فِیْ الْاِسْلاَمِ (ابن عباسؓ-   ابوداؤد)

  اسلام میں عصمت کی خریدو فروخت کا کاروبار جائز نہیں ہے

(14)  مَنْ ضَآرَّ ضَآرَّ اللّٰہُ بِہٖ وَمَنْ شَآقَّ شَآقَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ (ابن عباسؓ-   ابوداؤد)

   جو نقصان پہنچائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے نقصان پہنچائے گا اور جو مشقت میں ڈالے گا تو اللہ تعالیٰ اسے مشقت میں ڈالے گا۔

(15)  اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ نَھٰی عَنْ بَیْعِ الْحَیْوَانِ بِالْحَیْوَانِ نِسَٔۃً  (سمرہ بن جندبؓ-  ابوداؤد‘ نسائی ‘ابن ماجہ)

  نبی ﷺ نے جانور کو جانور کے بدلے ادھار بیچنے سے منع فرمایا ہے

(16)   نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنِْ الْمُحَاقِلَۃِ وَالْمُزَابَنَۃِ (ابو ہریرہؓ-  ترمذی ج ۱- ابواب البیوع)

اللہ کے رسولﷺ نے محاقلہ اور مزابنہ کی تجارت سے منع فرمایا ہے.

مُحَاقِلَۃ-

   حقل(area) سے ہے جس کے معنی وہ کھیتی کے ہیں جس میں نرم نرم درخت نکلیں ہوں اور جڑیں سخت نہ ہوئی ہوں۔ محاقلہ کی تجارت سے مراد یہ کہ کوئی شخص کہے کہ سو من گہیوں مجھ سے لے لو اور اس کھیت کا غلہ میرے ہاتھ بیچ ڈالو۔ یہ تجارت اس لئے جائز نہیں ہے کہ کسی کو نہیں معلوم کھیت میں کتنا غلہ نکلے گا۔

مُزَابـَنـَۃ-

ان کھجوروں کی تجارت جو درخت پر لگی ہوں ان کے عوض میں جو زمین پر ہیں.

(17)  اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ نَھٰی عَنِْ الْمُحَاقِلَۃِ وَالْمُزَابَنَۃِ وَالْمُخَابَرَۃِ والثُّنْیَا (جابرؓ-  ترمذی ج ۱- ابواب البیوع)

اللہ کے رسولﷺ نے محاقلہ اور مزابنہ ‘مخابرہ اور مثنیا سے منع فرمایا ہے مگر جب کہ اندازہ اور مقدار معلوم ہو.

مُخَابَرَۃ-

  زراعت کے لئے زمین اس شرط پر دینا کہ جو اس میں پیدا ہو اس میں سے تین یا چوتھائی( ثلث او ربع) حصہ دیا جائے۔ یہ اس لئے کہ پیداوار کی صحیح مقدار دونوں کے علم میں نہیں ہوتی‘ زیادہ ہو تو لینے والے کو ناگوار معلوم ہو اور کم ہو تو دینے والے کو نامناسب معلوم ہو.

مُثْـنِیَا-

   ایک چیز بیچنا اوراس میں سے تھوڑی غیر معین شئے کو کہنا کہ یہ بیع میں داخل نہیں۔ اگر اس کا وزن بخوبی معلوم ہو تو جائز ہے۔ مثلا کہے کہ سومن گہیوں تولے ہوئے ہیں۔

جس میں کے بڑے ہاتھ بیچے مگر اس میں سے پانچواں حصہ نہیں بیچا تو جائز ہے۔ اور اگر کہے اس سو من گہیوں میں سے تھوڑے میں لے لوں گا وہ بیع میں داخل نہیں ‘ یہ درست نہیں.

(18)   نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنِْ الْمَنَابَذَۃِ وَالْمُلاَ مَسَۃِ (ابو ہریرہؓ-  ترمذی ج ۱- ابواب البیوع)

اللہ کے رسولﷺ نے منا بذہ اورملامسہ سے منع فرمایا ہے.

مَنَبابَذَہ-

    نبذ پھینکنے کو کہتے ہیں (fling‘to hurl ) ۔ بیع منابذہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے یہ کہے کہ جب میں تیری طرف کوئی چیز پھینکوں تو تجارت لازمی ہوگئی۔

مُلَامَسَہ-

   لمس(touch) سے ہے جس کے معنی چھونے کے ہیں۔ یعنی ملامسہ یہ کہ کوئی کہے کہ جب میں کوئی چیز چھو لوں تو تجارت واجب ہوگئی۔ اگرچہ اس چیز کو اس نے

نہ بھی دیکھا ہو جس کی تجارت واجب ہوئی ہے ‘رات ہو یا دن اس چیز کو خریدنا۔

(19)   اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ نَھٰی عَنْ الْمُحَاقَلَۃِ وَالْمُزَابَنَۃِ وَالْمُخَابَرَۃِ وَالْمُعَاوَمَۃِ…( ترمذی ج ۱- ابواب البیوع)

 اللہ کے نبی ﷺنے محاقلہ ‘ مزابنہ ‘ مخابرہ اور معاومہ کی تجارت سے منع فرمایا ہے۔

مُعَاوَمَہ-

   عام سے ہے۔ عام سال کو کہتے ہیں اور بیع معاومہ یہ ہے کہ ایک سال یا دو سال کے پھل ایک درخت کا بیچنا اس سے قبل کے وہ پیدا ہوں۔ اس میں دھوکہ ہے‘

شایدپھل ہی پیدانہ ہو یا کہ زیادہ  مقدار میں پیدا نہ ہو

(20)   نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنِْ التَّحْرِیْشِ بَیْنَ الْبَھَآئِمِ (ابن عباسؓ-  ترمذی ج ۱- ابواب الجہاد)

  اللہ کے رسولﷺ نے جانوروں کو لڑانے سے منع فرمایا ہے۔

(21)  لَا تَتَّخِذُوْاالضَّیْعَۃَ فَتَرَغَبُوْافِیْ الدُّنْیَا (عبد اللہؓ-  ترمذی ج ۱- ابواب الزھد)

الضیعہ مت جمع کرو ورنہ دنیا سے تم کو رغبت ہوجائے گی۔

ضَیْعَہ-

   سے مراد باغ ‘ کھیت اور غیر منقولہ جائداد (estate

«
»

تیرے حسن خلق کی ایک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی

ملک کی تقسیم کا ذمہ دار کون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے