ابھی ہم انہیں الجھنوں سے بر سر پیکار تھے اور یہ سوچ رہے تھے کہ مادی تغیرات اور روحانی جمود کے تسلسل نے موضوعات میں یکسانیت پیدا کر دی ہے … اور افکار و قلم کے درمیان ربط خاص بھی نہیں رہا…. اور جسکی وجہ سے احباب بھی اب شکوہ سنج رہتے ہیں ..یہ کیا دل لگی ہےکہ پے در پے وہی طرز تحریر، وہی موضوع، وہی جلی کٹی….. الغرض کیا دیکھتے ہیں کہ "وہاٹس اپ ” پر بقراط اور شیفتہ کی چپقلش نمودار ہورہی ہے….اسی غارت گر آئینہ پر جو ہمیں اپنی صورت اور اپنے اعمال تو نہیں دکھاتا لیکن دنیا کے اعمال دکھانے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتا ….اور اس کا یہی وصف ہمیں بے حد پسند ہے… ہمیں کیا سب کو پسند ہوگا…..بقراط کا پیام پڑھا تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ ماجرا کیا ہے…وہی گھسا پٹا شعر لکھ بھیجا تھا کہ ..یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح ….کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا…… شیفتہ کے جواب سے کچھ کچھ پتا چلا کہ ماجرا کیا ہے … انہوں نے لکھ مارا کہ……. یہ وہاں ں کی دوستی ہے، جو ہوئے ہیں ہم ناصح….. تو جو ایک بار سنتا ، تو نہ خوار خوار ہوتا….. اس کے آگے لکھ بھیجا کہ جو چیز انسان کی اپنی نہیں ہے وہ اس پر اپنا دعوی کیسے کر سکتا ہے؟ اور اگر وہ اس کی اپنی ہے تو اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اسکی اپنی ملکیت ہے، خریدی ہوئی ہے یا پیدا کردہ ہے…. یا کسی نہ کسی طور اس کا اس چیز کے مکمل تحفظ پر اختیار ہے …صرف تسلط جمانے سے ملکیت کہاں ثابت ہوتی ہے….. شام چمن میں ملیے گا اور اس بات کا تصفیہ کر لیجیے گا…..ہمیں خیال گزرا ہو نہ ہو یہ ماجرا سیاست غلیظہ سے جڑا ہے …ہندوستان کی بی جمالو سیاسی پارٹی سے بھی ہوسکتا ہے یا ساٹھ سالہ سرکاری خرد برد میں ملوث ہاتھ ہلاتی سیاسی جماعت سے بھی..یا سچا ئی کی بگھی کو باطل کے گھوڑے سے گھسیٹتی عاپ پارٹی سے… یا پاکستان کی ان سیاسی جماعتوں سے جو اہل مغرب کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں ہیں …یا ان مغربی اہل قتدار سے جو اپنی لگا ئی ہوئی آگ میں اب خود جل رہے ہیں اور اپنی محبوبہ "ایکانومی” کو جلا رہے ہیں..یا ان نام نہاد مسلم ممالک سے جہاں خلافت راشدہ کے اسباق عقیدتوں اور ایں آں اور گویا کہ چنانچہ کی نذر ہوگئے…پھر سوچا کہیں کسی نے کسی کا حق غصب کر لیا ہوگا… لیکن یہ تو بہت ہی عام سی بات ہے اور ایک ایسا موضوع ہے جس میں ازل سے تسلسل ہے….. یا شاید شیفتہ اور بقراط کی مراد حسن و عشق، شادی، نکاح، طلاق، جہیز یا امانت و خیانت کے معاملات سے ہے جہاں انسان سب کچھ جائز سمجھتا ہے اور ہاتھ لگی چیز کو اپنی ملکیت….یا پھر یہ کوئی روایتی زر زن زمین کا قصہ ہوگا جس پر شیفتہ برہم نظر آرہے ہیں، اور بقراط دوستی کا واسطہ دے کر نصیحت سے پلا جھاڑ رہے ہیں…. الغرض سوچتے سوچتے شام ہوگئی……اور ہم چمن میں جا پہنچے ..
شیفتہ بقراط کو تنبیہ فرما رہے تھے .. جناب زندگی انسان کی اپنی نہیں ہے کہ وہ جیسے تیسے چاہے گزاردے ..نہ ہی یہ جان اسکی اپنی ہے، نہ یہ جسم اور نہ ہی یہ اعضا……..اگر یہ سب اسکی اپنی ہے تو اسے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ان کا مکمل تحفظ کرنے پر قادر ہے…..آفات نا گہانی سے، حادثات سے، عمر رفتہ کی تراش خراش اور جذبات و احساسات میں رد و قدح سے، اور دیگر خارجی اور باطنی عوامل سے…..اور سب سے اہم موت سے ….جہاں اسکا اختیار یا تصرف اور تسلط سب بے بس و مجبور نظر آتا ہے….وہ دئے گئے محدود اختیار کو خود مختاری سمجھ رہا ہے…..زندگی گر کسی کی صرف اسکی اپنی ہے تو اسے اس خود مختاری و خود اختیاری کو ثابت کرنا ہوگا . . بقراط نے کہا حضور ہم تہذیب جدیدہ کی پروردہ خواتین کے مطالبات کی بات کررہے تھے .. جو شوشہ انہوں نے خود مختاری و خود اختیاری کے ضمن میں حالیہ دنوں میں چھیڑا ہے….فرمایا ….کیا خوب چھیڑا ہے … مردوں کو، دنیا کو قانون کو اور قدرت کو چھیڑا ہے….. فرمایا… کیا یہ خواتین اپنے آپ کو انسانوں کے زمروں میں نہیں پاتیں …. یا خود کو کوئی آسمانی یا ماورائی مخلوق سمجھنے لگی ہیں… یا ادبی و شعری استعاروں اور تشبیہات کو جو انکی تعریف و توصیف میں کہے گئے تھے ، کسی خوش گما نی میں حقیقی سمجھ بیٹھی ہیں…. یا احساس خود مختاری کو احساس ذمہ داری کا متبادل سمجھ بیٹھی ہے…. یا ماضی میں اپنی صنف پر کئے گئے ظلم کا ازالہ اب برہنہ خود مختاری میں تلاش کرنے نکلی ہیں…. بلکل ایسے ہی جیسے اٹھارویں انیسویں صدی میں انقلابات سے ہارے اور تہذیبی ارتقا کے مارے مغربی مرد نے جعلی جمہوریت، دین بیزاری اور آزادئ انساں کے نعروں میں ظلم کا مداوا تلاش کرلیا تھا….بقراط نے کہا .. جناب بات دراصل یہ ہے کہ چند آزاد خیال خواتین نے مغرب کی اقتدا میں اپنے مطالبات معاشرے کے منہ پر دے مارے ہیں کہ … یہ میری زندگی ہے.. میری مرضی. میرا جسم ہے….. میرے کپڑے ہیں…. میرا دل ہے….. میرا مزاج ہے.. میری جنسی اور جسمانی ضرورتیں ہیں … میں میں ہوں… میں عورت ہوں…. جو چاہوں جہاں چاہوں کروں..کوئی نہیں روک سکتا …وغیرہ وغیر…. اور اسے انگریزی میں "ویمنس ایمپاورمینٹ” کے نعروں اور جھنڈوں تلے ذرائع ابلاغ میں نشر بھی کردیا گیا ہے… … شیفتہ نے فرمایا …. ان میں کسی نے حسن و ناز و اندام کے زعم میں خدا ئی کا دعوی تو نہیں کردیا …. آزادی اور اختیار پر خواتین نے کوئی پہلی بار دعوے نہیں کیے ہیں ….ایسی خواتین نے مغربی انقلابات کے مختلف ادوار میں ایسے دعوے برملا کیے ہیں…. اور سر عام اور بے پرواہ و بے پردہ ہو کر کیے ہیں….. ایسے دعوے بے پردہ ہوکر بلکہ برہنہ ہو کر ہی کئے جاسکتے ہیں …..اور ان کا ساتھ دینے بلکہ ان کا ساتھ نباہنے کے لئے انکی آغوش میں پروردہ نسلیں اور انکے پلو سے چمٹے زن مرید اور چند برہنہ جسم و خیال و اظہار کے مارےکبھی دولت کے حمام میں تو کبھی شہرت کے تالاب میں ان خواتین کے ساتھ کود پڑتے ہیں …..چند سیاست غلیظہ اور تہذیب جدیدہ کے مارے اہل علم و ہنر، انسانیت کے علمبردار اور سرمایہ دار تو ویسے بھی ان بہتی گنگا میں ہاتھ پیر کے علاوہ نہ جانے کیا کچھ دھو لیتے ہیں…..پھر ذرائع ابلاغ سے خریدی ہوئی شہرت کے غسل آفتابی میں انکے گناہ بھی دھو دئے جاتے ہیں…جسکی عکاسی پردہ سیمیں و رنگیں پر ہوتی رہتی ہے… پھر کروڑوں معصوم، غیر اور نیم تعلیم یافتہ، بے بس و مجبور و بے روز گار لوگ اخلاقی اقدار، تہذیب و تمدن اور آزادی کا غلط مطلب اخذ کر لیتے ہیں…..
بقراط نے کہا حضور وہ خواتین سب مہذب اور اعلی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں … فرمایا اعلی خاندان کا مفہوم تہذیب جدیدہ میں اب وہ نہ رہا جب شرفا کی آنکھیں اپنی نوجوان پردہ دار بہو بیٹیوں کے سامنے بھی جھکی رہتی تھیں …. بہو بیٹیاں صدف میں پوشیدہ موتیوں کی طرح گھروں میں رہتی یا ضرورتا بازاروں میں نکلتیں، یا تجارت، سیاست، تعلیم و تدریس، سماجی خدمات اور راہ خدا میں آبلہ پائی کرتیں…. لیکن انکے دامن پھر بھی کانٹوں سے نہیں الجھتے…..اب تو حال یہ ہے کہ نام نہاد شرفا اپنی بہو بیٹیوں کے ساتھ کولھے مٹکانے اور انہیں اغیار کی بانہوں میں لوٹتے اور لٹتے دیکھنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے ……تہذیب جدیدہ نے اعلی خاندان اور اعلی نسلوں کا مفہوم دولت و شہرت، نمائیش و آرائیش بلکہ بے پردگی و بے باکی و بے حیا ئی میں مقید آزادئ نسواں سے اخذ کر رکھا ہے… کھلے عام آراستگی و پیوستگی، دل فریبی و دل ربائی، دل بستگی و وارفتگی سب اخلاقی اقدار کا حصہ بن گئے ہیں …. اخلاق عالیہ تو دور کی بات ہے اخلاق کے مفہوم میں اجنبیوں سے چاو، اختلاط بے جا و بے پردہ، مختلف اقسام کی دوستیاں، قربتیں، مواقع، وابستگیاں، وارفتگیاں، واماندگیاں، نا دانیاں اور نا فرمانیاں جیسی تمام کجی اوصاف کے درجہ میں شمار ہوتی ہیں…….اب اہل فکر و نظر، اہل علم و فن اور شعرا و ادبا حضرات ان برائیوں پر قلم اٹھانے میں شش و پنج میں مبتلا رہتے ہیں کہ مبادا تشبیہات و استعارات اور صنائع و بدائع اپنی اہمیت اور پنا مفہوم ہی نہ کھو بیٹھیں…..
فرمایا، جمہوریت اور تہذیب جدیدہ میں انسانی قانون نے ابھی آزادی کو اسقدر آزاد نہیں رکھ چھوڑا ہے کہ تتلیاں آگ لگانے نکلے اور بھنوروں کے ساتھ ستی ہوتی رہے…. اگر ایسا ہوتا تو انسانی قانون میں خود کشی کا مفہوم کچھ اور ہوتا…..چند شقیں چند دفعات ایسی بھی ہیں جو آگ لگانے اور آگ تاپنے کے عمل کو گھر کی چار دیواری تک محدود رکھتی ہے…..مبادا لوگ باگ ان کا غلط استعمال سرعام نہ کرنے لگیں… آگ سنگ ذلالت و ملامت اور شرافت کی موم میں تمیز کہاں کرتی ہے….کوئی آگ اور چھری برہنہ سر عام لے نکلے تو قانون ایسی آزادی و خود مختاری پر قدغن لگاتا ہے.. اور کہیں کہیں اسے پاگل پن بھی قرار دیا جاتا ہے…تہذیب جدیدہ اور قانون جمہوریہ ولانگلیشیہ الامریکیه میں بھلے ہی شراب حلال کردی گئی ہو لیکن شراب پی کر گاڑی چلانا جرم قرار دیا گیا ہے…اور شراب پی کر عوامی ذرائع نقل و حمل کا استعمال اور غنڈہ گردی کو سنگین جرم …..البتہ دولت و حسن و شباب اور شہرت و آزادی کے نشے میں ڈوب کر انسانی احساسات کا، تہذیب و تمدن کا، صنف نازک کے وقار کا کوئی آزاد خاتون قتل عام کرنے نکلے تو کیا کیا جاسکتا ہے …….انسانی قوانین کے پاس ایسے پیمانے کہاں ہیں کہ وہ تہذیب جدیدہ اور خود مختاری کے نشے میں چور جوانی کو کٹہرے میں کھڑا کرسکے اور انصاف کرسکے….البتہ قانون قدرت کے پاس ایسے پیمانے ہیں جس کا ثبوت آئے دن مختلف نشانیوں میں جب جب ظاہر ہوتا ہے تب تب تہذیب جدیدہ اور سیاست غلیظہ بے بس و معذور نظر آتی ہے….. لیکن حیف صد حیف مہذب انسان تجھ پر کہ تیرے ہاتھوں کا آئینہ تجھے حق سے واقف نہیں کرا پاتا….. آزادئ نسواں کے نام پر اگر کوئی مادر پدر آزاد خاتون یہ کہے کہ یہ میری مرضی ہے…میری بلا سے گر میں برہنہ نکلوں یا آوارہ پھروں اور شریف انسانوں کے ارمان سلگنے لگے …. میری بلا سے اگر انکے اخلاق کا قصر پارہ پارہ ہوتا رہے اور انسان کی فطری شرافت و حیا جاتی رہے …… یا بظاہر تو سب شریف رہیں مگر بہ باطن چاہے جو کچھ بھی رہیں….یا میری بلا سے اگر میری برہنہ خود مختاری پر کوئی ذلیل مرد منہ مارتا رہے…. اور اسکی حسرتیں گندگی پر منڈلاتی مکھیوں کی طرح بھنبھناتی ر ہے …اور وہ پھرنامراد ہو کر حبس بے جا میں قید جذبات کا صفرا کسی معصوم مجبور و بے بس خاتون کی عصمت تار تار کر اتارے …پھر یہی برہنہ خود مختار خاتون اسے مردوں کے ظلم و جبر سے تعبیر کر کے خود کو پاک صاف کرلے !! …پتہ نہیں ایسی عورتیں اگر رشتہ ازدواج میں بندھ بھی جائے تو شاید حجلۂ عروسی میں بھنبھناتی مکھیوں کے قصے سناتے سناتے رات بتا دیگی….الغرض مادر پدر آزاد یہ خواتین مردوں کو اس آگ کاذمہ دار مانیں گی جو تہذیب جدیدہ نے جسم کے معبد میں لگا ئی ہے اور جسے سیاست غلیظہ اور تہذیب جدیدہ کے پجاری ہوا دیتے رہتے ہیں…..
جواب دیں