اس کے برعکس دوسرے رُخ کو بھی ملاحظہ فرمائیے!فلسطین ،کشمیر ،چیچنیا ،برما اور افغانستان میں بھی مسلمان مارا جا رہا ہے اور یہاں مارنے والے جہاں غیر مسلم ہیں وہی مسلمان بھی مسلمانوں کو مارنے میں پیچھے نہیں ہیں ،اور غیر مسلم دُنیا میں مسلمانوں کی پستی کے ذمہ دار غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی ہیں،مگر اس صورتحال میں سب سے پریشان کُن امر یہ ہے کہ جب مسلمان مسلمان کو مارتا ہے اور اس کے عزت و احترام اور مال و جان کو اپنے حلال سمجھتا ہے تو غیر مسلم حکومتوں کے جبر میں اضافہ ہونا ایک فطری معاملہ ہے ۔
ہمارا مزاج ہی بگڑ چکا ہے ہم جب ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں تو ایک طرح سے اس کے قابل برداشت ہونے کا تاثر اپنے عمل سے دیتے ہیں مگر جب غیر مسلم یہی ظلم کرتے ہیں تو ہمارے چیخنے چلانے میں قوت آجاتی ہے ،غیر مسلم قوتیں اگر مسلمانوں پر ظلم کرتی ہیں تو وہ اپنے زاویۂ نگاہ کے مطابق اس کو درست خیال کرتے ہیں جیسا کہ ہم صدیوں سے ایک خوفناک صورتحال کا مشاہدہ کرتے آرہے ہیں ،مگر المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کے جھوٹے دعویدار ’’مسلمانوں کے ہاتھوں‘‘ہر جبر کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے آرہے ہیں کیوں؟کیا غیر مسلم قوتوں کے ہاتھوں ظلم ظلم ہوتا ہے اور جب یہی فاجرانہ اور جابرانہ کام مسلمان کرتا ہے تو وہ قابل قبول جرم بن جاتا ہے ،اس سے بھی شرمناک بات یہ کہ بعض اسلام پسند لوگ اس وحشیانہ رویہ کی تاویلات کے ذریعے تائید کرتے ہو ئے بھی کسی ذہنی کوفت کو محسوس نہیں کرتے ہیں جیسا کہ مصر میں اخوان المسلمون کے قتلِ عام پر ہم نے مشاہدہ کیا کہ پوری عرب دنیا نے مصری فوج کی دہشت پسندی کی حمایت اس لئے کی کہ ان کے اخوان کے ساتھ بعض اعتقادی اور فکری اختلافات ہیں ،غیر مسلم حکومتوں نے مصر کے جرنل السیسی کے وحشیانہ اور غیر انسانی اقدامات کی سخت مذمت کی مگر مسلم دنیا کے عرب حکمرانوں نے’’فکری اختلافات کے پسِ منظر‘‘میں ہر قدم پر مصر کی ظالم فوج کی حمایت کی اور یہ صرف اس لیے کیاگیاکہ کہیں مصر ، تیونس اور لیبیا کے بعد ان کی عوام بھی ان کی مطلق العنانیت کے لیے اٹھ کھڑے نہ ہو جائیں رہی عجمی تنظیموں اور ملاؤں کی حمایت کی حقیقت تو اس سے کون واقف نہیں ؟یہ درہم و دینار کا فتنہ بہت پرانا ہے اور حضورﷺ نے اُمت کے متعلق اس میں مبتلا ہونے کے اندیشے کا اظہار بہت پہلے کیا تھااب تنظیموں میں اس دولت کے ریل پیل نے اس قدر مسائل پیدا کر دیئے ہیں کہ یہ لوگ خود ایک دوسرے کے بھی دشمن بن جاتے ہیں ۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی قیادت سے شیخ حسینہ واجد پرانا حساب چکا رہی ہے اور اس کے لیے اُس نے سبھی انسانی اور اخلاقی قدروں کو پامال کرنے میں گذشتہ سبھی ریکارڈ توڑ دیئے ہیں ،وار کرائم ٹریبونل کے ذریعے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے اہم ا فراد کو پھانسی کی سزادلائی جا رہی ہے اور سپریم کورٹ کے ذریعے ان سزاؤں کی تائید کرائی جاتی ہے تاکہ جماعت اسلامی کو خوفزدہ کر کے عملی سیاست سے دور رکھا جائے ،بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ اس میں بھی بھارتی حکومت ملوث ہے اس لیے بھارت کو کچھ عرصے سے ہر طرف دشمنوں کی سرحدوں کا مسئلہ پریشان کر رہا ہے اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلمان ہی ایک دوسرے سے گتھم گتھا کیوں ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو غیروں کے ایجنٹ ہونے کا الزام کس قاعدے اور اصول سے دے رہے ہیں ،ہمیں اس عادت سے باز آنا چاہئے کہ’’ کارِ سیاہ کرے انسان اور لعنت کرے شیطان پر ‘‘ اس غیر شرعی اصول پر عمل کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ہمارے اپنے ’’بد باطن اور بد عقیدہ‘‘لوگ اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی دنیا آباد کر تے ہیں ،شیخ حسینہ اپنے سیاسی فائدے اور کرسی کے لیے جماعت اسلامی کے لیڈروں اور کارکنوں کا قتلِ عام کرتی ہے اورشاید بھارت ان اقدامات سے یک گونہ راحت محسوس کرتا ہو اس لیے کہ وہ بخوبی سمجھتا ہے کہ ایک سیکو لربھارت نواز حکو مت سے معاملات طے کرنے کے برعکس اسلام پسند پاکستان نواز حکومت سے طے کرنے انتہائی دشوار ہے اور پھر بھارت ایک بڑی علاقائی طاقت ہے جس کو پاکستان سے ہی نہیں بلکہ چین سے بھی خطرات ہیں اور بھارت کو خدشہ ہے کہ چین غیر محسوس انداز میں بھارتی سرحدوں میں پیش قدمی کر رہا ہے اور بھارت کی پوزیشن چین کے مقابلے میں اتنی کمزورہے کہ وہ چینی مداخلت پر دو لفظ بھی بول نہیں پاتا ہے ۔
ہمیں سبھی معاملات میں مثبت انداز میں تنقید کرنی چاہئے اور مثبت و تعمیری طریقہ اختیار کرتے ہو ئے اصل ملزموں اور مجرموں کو بے نقاب کرنا چاہئے یہ دیکھے بغیر کہ وہ مسلم ہے یا غیر مسلم تاکہ کسی ملزم اور مجرم کو راہ فرار میسر نہ ہو جائے ،ہماری امریکہ،اسرائیل،برطانیہ،جرمنی،روس،فرانس اور بھارت پر یک طرفہ آخری درجہ کی تنقید کے نتیجے میں صورتحال کافی مبہم اور مجمل بن جاتی ہے ، بڑی غیر مسلم طاقتوں کی سازشوں سے انکار نہیں مگر اس تنقید کے نتیجے میں جو ہمیں ہمارے اپنے ’’ ابن ابیوں‘‘ کی پوری کھیپ کو راحت اور سکون میسر ہو جاتا ہے وہ قابل توجہ ہے اگر امریکہ ،اسرائیل اور بھارت مصر اور بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں کا راستہ روکنے کے لیے سرگرم ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ ان طاقتوں کے ہاتھوں میں کون کھیلتا ہے اور کیوں کھیلتا ہے یہ کوئی سرسری مسئلہ نہیں بلکہ خاصا گھمبیر معاملہ ہے جس کو روکنے کی واحد صورت یہی ہے کہ مسلمان دوسروں کو گالیاں دینے کے بجائے آپ اپنا محاسبہ کریں اس لیے کہ آپ غیروں کو سازشوں یا ان کے اپنے قومی اور ملی کاز سے انھیں روک نہیں سکتے ہیں ۔
جواب دیں