جمال عبدالناصر کے بعد انور سادات، انکے بعد حسنی مبارک یکے بعد دیگرے ا?تے گئے اور ملت مصر کی بدبختیاں بھی بڑھتی گئیں، انور سادات اور حسنی مبارک نے اسرائیل، امریکہ اور دیگر اسلام دشمن قوتوں کی اتنی حمایت کی کہ جس سے مظلوم فلسطینی عوام اور دیگر ا?گاہ مسلمان کبھی بھی فراموش نہیں کر پائیں گے، 25 جنوری 2011ء4 کا انقلاب حقیقی طور پر ایک الٰہی معجزہ تھا جب مصری عوام نے 30 سالہ فوجی ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا تختہ الٹ کر رکھ دیا، انقلاب کے بعد فوراً ملک کا ا?ئین بنا اور کئی دھائیوں کے بعد دوسرے مرحلے میں پارلیمانی انتخابات ہوئے اور لوگوں کی اکثریتی رائے سے اخوان المسلمین کے محمد مرسی ملک کے پہلے منتخب صدر بن گئے، مصر کا یہ اسلامی انقلاب، مشرق وسطٰی اور شمالی ا?فریقا کے بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں کے لئے ایک زبردست طمانچہ تھا جنہوں نے تقریباً ایک صدی سے اپنی قوموں کو یرغمال بنا رکھا ہے، لہذا مصری انقلاب سے شاہی محلوں میں زلزلہ آنے لگا اور موروثی بادشاہ اور امراء4 حضرات اس فکر میں پڑھ گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری قومیں بھی ہمسایوں سے سبق حاصل کر کے ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور سالہا سال سے چلی آ رہی شاہی اور عیاشی رو بہ زوال ہو جائے۔
مصری انقلاب کے تین مضبوط دشمن تھے، ایک لیبرل طاقتیں جو حسنی مبارک کے دور اقتدار کی پیداوار ہیں، دوسرے علاقہ پر مسلط استبدادی حکمران اور تیسرے اسرائیل اور مغربی طاقتیں، لہذا یہ تینوں طاقتیں مصر میں تازہ مولود جمہوری حکومت کے خاتمے کے لئے متحد ہوگئیں ان قوتوں کو منتخب حکومت گرانے کے لئے بہانہ درکار تھا وہ بہانہ بھی انہیں اس وقت فراہم ہوگیا جب قاہرہ میں صدر محمد مرسی کے خلاف عوامی مظاہروں میں شدت ا?گئی ان مظاہروں نے ا?گ پر پٹرول کا کام انجام دیا اور مصر کے حقیقی دشمنوں کو انکے منحوس اہداف کے نزدیک پہونچا دیا، افسوس ہے کہ جہاں قرا?ن کریم امت مسلمہ کو دشوار، حساس اور ا?ئندہ ساز حالات و مسائل میں عقل و شعور سے کام لینے کا حکم دیتا ہے وہاں مسلمان برعکس ان فرمودات کو بھول کر اپنی نادانیوں کی وجہ سے دشمنان اسلام کے ہاتھ مضبوط کرکے اپنی نابودی اور تباہی کا خود ہی انتظام کرتے ہیں یا سامان فراہم کرتے ہیں، تاریخ ان نادان حرکتوں سے بھری پڑی ہے جنہیں دھرانے کی ضرورت بھی نہیں ہے اور طوالت کا باعث بھی ہوگا۔
مصر میں بھی ایسا ہی ہوا، جہاں محمد مرسی کو 30 سالہ مشکلات حل کرنے کے لئے 2 برس کی فرصت بھی نہیں دی گئی اور انکے مخالفین فقط اس بات پر ڈٹ گئے کہ وہ اقتدار کو چھوڑ دیں، البتہ اس مسئلہ میں غیر ملکی میڈیا جیسے الجزیرہ، العربیہ کا رول بھی بہت ہی افسوس ناک رہا اور میڈیا نے بھی لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسانے میں کوئی کسی باقی نہیں چھوڑی، ہم جانتے ہیں کہ محمد مرسی سے بھی کچھ غلطیاں ہوگئی تھیں اور کچھ مسائل میں انہوں نے اخوان المسلمین کے اصولوں سے انحراف بھی کیا لیکن ان غلطیوں کی اتنی بڑی سزا مناسب نہیں ہوا کرتی حالانکہ وہ خود اپنی غلطیوں پر ناراض لوگوں سے معافی مانگ کر ا?ئندہ اصلاح کرنے کا وعدہ بھی کرچکے تھے، بہرحال مصری عوام کے دشمنوں نے اپنا کام کردیا، 60 سال کے ظلم و ستم اور شاہی دور کے بعد مصری عوام نے اپنے ووٹوں سے ایک جمہوری نظام کو تشکیل دیکر اپنی رائے اور اعتماد سے اپنے لئے ایک حکومت تشکیل دی تھی لیکن اس وقت وہی منتخب حاکم (صدر مملکت) قید و بند کی زندگی بسر کررہا ہے۔
ہزاروں سیاسی کارکن گرفتار کر دئے گئے ہیں، فوجیوں نے ابھی تک 1400 سے زائد افراد کا قتل عام کیا ہے، مصر میں اب دوبارہ عملی طور پر فوج کا راج نافذ ہوگیا ہے، یہ سارے واقعات مدنظر رکھتے ہوئے شاید یہ کہنا مناسب ہوگا کہ مصری عوام وہاں ہی دوبارہ پہونچ گئی جہاں سے انہوں نے آج سے 30 سال قبل سفر کا آغاز کیا تھا، ان کا عزیر انقلاب ان سے جبراً چھینا گیا، حسنی مبارک، فوجی جنرل عبدالفتاح السیسی کے روپ میں پھر نمودار ہوگیا ہے، مسلط فوج نے نام نہاد ریفرنڈم کرکے ملک کے ا?ئین کو بھی بدل دیا ہے، یہاں مغربی ممالک کی اس مکاری پر بھی تعجب ہو رہا ہے کہ جمہوریت کے اس لوٹ مار میں ان سے کوئی فریاد سنی نہ گئی، البتہ انکے منافقانہ رویے سے شاید ہمارے کچھ غافل لوگ خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں ہم یہی تمنا کرتے ہیں،ابھی معلوم نہیں کی مزید مصر کی تاریخ کو کیا کچھ دیکھنا باقی ہے۔
جواب دیں