خود مغربی میڈیا اور ارباب اقتدار کو اس بات کا گمان تک نہ تھا کہ لیبیا میں معمر قذافی کو ہلاک کرنے والے عوام خود امریکی سفیر کو ہلاک کردیں گے۔ مصر میں حسنیٰ مبارک کی معزولی کے بعد اخوان المسلمین اقتدار حاصل کرے گی۔ ان کی یہ خوش فہمی تھی کہ جن عرب ممالک میں تبدیلیاں رونما ہوئیں‘ وہاں کے عوام مغری سامراج کے احسان مند رہیں گے۔ شام میں شورش جاری ہے اور شامی عوام اور مخالفین کا قتل عام بھی۔ وہ ممالک جو انسانی حقوق کے تحفظ کے نام پر مختلف ممالک میں دخل اندازی کرتے ہوئے وہاں پر اپنے قدم جمالئے۔ شام میں بظاہر بے بس نظر آتے ہیں۔ دراصل وہ بے بس، بے حس یا انجان رہنا چاہتے ہیں کیوں کہ شامی حکومت جس کی پشت پناہی سے قتل عام کررہی ہے‘ اسے مغربی طاقتیں نہ صرف شام میں برقرار رکھنا چاہتی ہیں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی ان کے ہم قبیل عناصر کو مسلط کرنا چاہتی ہیں۔
مصر میں حسنیٰ مبارک کا بدترین دور ختم ہوا۔ 8دہائیوں سے جدوجہد کرنے والی اخوان المسلمین کو اقتدار کی شکل میں ثمر ملا۔ محمد مرسی کے روپ میں اسلام پسندوں کو تمام عرب ممالک اور اسلامی دنیا میں اسلامی دورِ حکومت کی واپسی کی امید نظر آئی۔ مگر مغربی دنیا اور ان کے رحم و کرم پر مسند نشین عرب ممالک کے آمرین کو بھلا یہ کب گوارا ہوسکتا ہے کہ دور فاروقی کے عہد کا احیاء کیا جاسکے۔ خلافت کا دور تو ختم کیا جاچکاہے ملوکیت یا نسل درنسل بادشاہت کا دور ان عرب حکمرانوں نے جاری رکھا ہے۔ جسے برقرار رکھنے کے لئے وہ ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ مصر میں فوجی بغاوت محمد مرسی کی معزولی‘ ان کے حامیوں کے قتل عام پر عرب ممالک بجائے مذمت کرنے‘ عبوری حکومت کی مکمل تائید، حمایت اور معاشی امداد کے لئے تیار ہیں۔ عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب میں عوام ارباب اقتدار کے اس موقف اور فرعونیت کی حمایت کے خلاف ہیں‘ کسی بھی وقت غم و غصہ کی چنگاریاں شعلوں میں بدل سکتی ہیں اور حالات بگڑ سکتے ہیں۔ جو ہوائیں مصر اور دوسرے ممالک میں چل رہی ہیں اس کا اثر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، عمان، بحرین، مراقش اور قطر میں بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بات طئے ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے بغیر مصر کے حالات بگڑ نہیں سکتے۔ مگر بارک اوباما نے عالمی رائے عامہ کے پیش نظر بہت ہی مصلحت کے ساتھ مصر کے حالات کی مذمت کی اور معاشی امداد میں تخفیف کا بھی اعلان کیا۔ دوسری طرف سعودی عرب اور ان کی حلیف ممالک متحدہ عرب امارات، کویت نے امریکہ کی جانب سے امداد کی مسدودی کی صورت میں بارہ ملین ڈالرس کی معاشی امداد کا اعلان کیا ہے۔ اس سے عالم کے مسلمانوں میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ آیا امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات تو نہیں ہیں؟ امریکہ کی خوشنودی کے لئے سعودی عرب پر مسلمانوں کی عالمی برادری تنقید کرتی رہی ہے۔ اگر مصر کے موجودہ حالات سے ہٹ کر کسی اور وجہ سے سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے تو دنیا بھر کے مسلمان سعودی عرب کی حمایت میں متحد ہوجاتے۔ تاہم اب مسلمانوں کی اکثریت کو جو انفارمیشن ٹکنالوجی کی بدولت ایک دوسرے سے رابطہ میں ہیں اور ایک دوسرے کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے‘ دکھاوے کی دشمنی، اختلافات سے شاید زیادہ عرصہ تک بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ سعودی عرب اور امریکہ کے مصر پر متضاد ردعمل سے عام مسلمانوں میں امریکہ کے لئے ہمدردی پیدا ہوسکتی ہے اور ان میں یہ احساس بیدار ہوسکتا ہے کہ امریکہ واقعی انسانیت کا علمبردار ہے۔ سعودی عرب پر یہ الزام عائد ہوسکتا ہے اور ہورہا ہے کہ یہ اپنی مسندوں کو بچانے کیلئے اخوان المسلمین کی آواز کو ختم کرنے میں مدد کررہا ہے۔
امریکہ کس حد تک درست ہے اور سعودی عرب اور دیگر ممالک کا موقف کس حد تک واجبی ہے اس کا صحیح اندازہ نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ہر علاقے میں جو خبریں پہنچتی ہیں وہ اُن ممالک سے متعلق مغربی پالیسی کے مطابق ہوتی ہیں ان میں حقیقت پسندی کتنی اور غلو پسندی یا منفی پروپگنڈہ کے ساتھ کتنا ہوتا ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ مثال کے طور پر سی آئی اے نے لگ بھگ 60برس بعد یہ اعتراف کیا کہ 1953ء میں ایران میں مصدقے کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے وہ ذمہ دار ہے۔ اسی طرح کس ملک میں کس جماعت کس کی حکومت کے خلاف کون سرگرم ہے‘ اس سے ہر کوئی واقف نہیں ہے۔ مصر کے موجودہ حالات میں اصل رول موساعد‘ سی آئی اے اور دوسری اسلام دشمن تنظیموں کا ممکن ہے۔ سعودی عرب راست یا بالراست ان کی حمایت کررہا ہے۔ یہ کتنی حقیقت اور کتنا فسانہ ہے یہ طئے نہیں ہے۔ البتہ یہ بات طئے شدہ ہے کہ مغرب کا منصوبہ ہے کہ دوسرے عرب ممالک کی طرح سعودی عرب پر بھی قبضہ کرلیا جائے اب بھی سعودی عرب انہی کے قبضہ میں ہے۔ ہر بڑے ادارے، کمپنی، محکمہ میں ان کے نمائندے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ وہ پالیسی ساز ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر عرب ممالک میں ایک پتہ بھی نہیں ہلتا۔ کرنل قذافی، صدام حسین، حسنیٰ مبارک اور تقریباً سبھی امریکہ اور اس کی حلیف ممالک کے وفادار رہے۔ انہیں استعمال کیا گیا اور پھر پھینک دیا گیا۔ سعودی عرب کے حکمرانوں کا بھی یہ حال ہونے والا ہے۔ موجودہ حالات میں میڈیا کے ذریعہ منظم طریقہ سے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے خلاف عالمی مسلمانوں کی رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے۔ جس وقت مسلمانوں کا سعودی عرب اور عرب ممالک کے خلاف غم و غصہ اپنی انتہا پر ہوگا سعودی عرب میں بھی شورش شروع کی جائے گی اسے جمہوریت کی بحالی کے نام پر انقلاب کا نام دیا جائے گا۔ مغرب اپنے مقصد کی تکمیل کے بالکل قریب ہے۔ اس لئے اقطائے عالم کے مسلمانوں کو ان کی سازشوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کی یہ کمزوری رہی ہے کہ جوش میں ہم ہوش کھو بیٹھتے ہیں۔ اس وقت دونوں کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ اخوان المسلمین کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے مغرب کوشاں ہے اور عالم عرب کو وہ اخوان المسلمین سے خوفزدہ کرتے ہوئے ان سے دولت اینٹھ رہی ہے۔ اور عالم عرب اپنے اقتدار کی برقراری کا ٹیکس انہیں ادا کررہی ہے۔
جمہوریت اسلامی اصولوں پر مبنی ہے۔ شہنشاہیت زیادہ عرصہ تک برقرار نہیں رہ سکتی۔ جمہوریت اقدار اور اصولوں پرقائم رہے تو عوام خود انہیں اپنا خلیفہ یا بادشاہ تسلیم کرلیتے ہیں مگر اپنی بادشاہت کو برقرار رکھنے کیلئے جبر و ستم کو اختیار کرتے ہیں تو انہیں فرعون،نمرود اور شداد اور ان کے ہم خیالوں کے انجام کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔
مصر میں جو کچھ ہورہا ہے مغربی میڈیا اس کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کیلئے کوشاں ہے۔ گرجا گھروں پر حملے کے واقعات اتنے نہیں ہوئے جتنے میڈیا کے ذریعہ پیش کئے گئے۔ جس کی وجہ سے مقامی میڈیانمائندوں نے غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں پر حملے بھی کئے۔ بعض ٹی وی چیانلس نے دیانتداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقائق کو پیش کیا تو انہیں مصر کی فوجی حکومت کا معتوب ہونا پڑا۔
مصر کے حالات اور سعودی عرب کے موقف پر مسجد نبوی ا کے امام اور سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز الشیخ نے تنقید کی۔ ان کے خلاف ارباب اقتدار کب کاروائی کریں گے یہ نہیں کہا جاسکتا۔ متحدہ عرب امارات میں 60 اسلام پسندوں کے خلاف کاروائی کی گئی ہے۔ مگر یہ کاروائی حق و صداقت کی آوازوں کو آسانی سے دبا نہیں سکتی۔
مصر کے حالات اس قدر تباہ کن ہے کہ اس کی معیشت تاراج ہوچکی ہے۔ اس وقت 33بلین ڈالرس کا مقروض ہے سیاحت کا شعبہ مفلوج ہوچکا ہے۔ 20سال سے 30سال کی عمر تک کے 80فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ عرب ممالک میں گیسولین کی قلت پیدا ہوئی ہے کہ کیونکہ ہمسایہ ممالک میں گیسولین کی سربراہی مصر سے ہی ہوتی ہے۔
مصر کے حالات عبرتناک بھی ہے اور افسوسناک بھی۔ پیشرو ارباب اقتدار نے جو غلطیاں کی تھیں اس کا خمیازہ مصری عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ مشرق وسطیٰ پالیسی میں مصر نے ہمیشہ اہم رول ادا کیا۔ اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کا یہ گنہگار ہے۔ اقتدار میں تبدیلی آئی۔ محمد مرسی کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیا گیا ان پر الزام عائد کیا کہ وہ ملک کی غربت دور کرنے‘ معیشت کو مستحکم کرنے میں ناکام رہے۔ چند مہینوں میں انہیں معزول کیا گیا۔ البرداعی نے فوجی کریک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اقتدار سے استعفیٰ ضرور دیا مگر وہ بھی مصر کی حالت کیلئے ذمہ دار ہے۔ جو جو عناصر اور طاقتیں مصر میں فرعونی دور کی واپسی کے لئے ذمہ دار ہیں نہ تو انہیں تاریخ معاف کرے گی اور نہ ہی تاریخ ساز۔۔۔خالق کائنات۔
جواب دیں