ان کی رگوں میں جوانی کا کھولتا ہوا خون تھا۔ ان کا ضمیر بے دار ہوچکا تھا۔ آخرت کی نعمتوں پر ایسا یقین تھا ، جس کی نظیر ماضی قریب میں نہیں ملتی۔ ایکبڑی تعداد ایسے جوانوں کے ساتھ آگئی کہ الموت فی سبیل اللہ اغلیٰ امانینا (راہ خدا میں موت ہماری بہترین آرزو ہے) کا آوازہ بلند کرنے لگی۔برطانیہ اور امریکا نے محسوس کیا کہ اگر یہ طاقت ابھر آئی تو یہودیوں کی مذہبیت جو چند رسوم وروایات پرستی( تقالید و طقوس) کا مجموعہ ہے، مات کھا جائےگی۔ اس لیے شاہ فاروق کے ہاتھوں(جو برطانیہ کے دست نگر شاہ شطرنج کی حیثیت رکھتے تھے) الاخوان کی تحریک کو پوری قوت کے ساتھ کچل دیا۔اگر یہ تحریک زندہ رہ جاتی تو وہ کام جو سات حکومتیں مل کر نہیں کرسکیں ، یہ جوان اپنی ایمانی قوت سے انجام دیتے۔ مگر مقدرات کا فیصلہ کچھ اور ہی تھا۔‘‘
(نگارشات از مولانا عبداللہ عباس ندوی، ص ۳۱۶)
ایک درد مند اور جہاں دیدہ شخص کے قلم سے نکلے ہوئے یہ جملے جس طرح آج سے دودہائی قبل حرف بہ حرف سچے تھے، اُسی طرح موجودہ حالات پر بھی صد فی صد صادق آرہے ہیں۔ اگر آپ موجودہ دور میں ان جملوں کی صداقت سمجھتے ہیں ، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ مصر میں فوجی بغاوت اور اسرائیل کے موضوع کا بھی ادراک رکھتے ہیں۔ آپ اس کے بغاوت کے پس منظر کو بھی سمجھتے ہیں اور پیش منظر کو بھی۔
ماضی اور حال میں یکسانیت
ماضی اور حال کے جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ جس طرح تحریک اخوان ۱۹۴۸م میں وجود اسرائیل کے لیے خطرہ تھی، اُسی طرح آج بھی ہے۔ صہیونی مشرق وسطیٰ میں جس طرح کل اخوان کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے، اُسی طرح آج بھی سمجھتے ہیں۔ کل انہوں نے شاہ فاروق کو اپنا مہرہ بنایا تھا تو آج ایک غدار فوجی جنرل عبدالفتاح سیسی کو خرید کر اخوان کی بربادی کی ٹھانی ہے۔ لیکن ان عقل و خرد کے اندھوں کو اتنا نظر نہیں آرہا ہے کہ اخوان ان کے ذریعے نیست و نابود کیے جانے کے باوجود پھر ابھرے۔ نہ صرف یہ کہ ابھرے بل کہ ملک کے اقتدار کو بھی اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ ان شاء اللہ وہ پھر اٹھیں گے اوردیر یا سویر دوبارہ ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔
فوجی بغاوت اور اسرائیل
اگر موجودہ منظر نامے کو یہودی رنگ میں رنگے ہوئے میڈیا کی نظر سے نہ دیکھ کر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو چند باتیں بہت صاف نظر آتی ہیں۔ ہم ان کو نکات (Points) کی شکل میں بیان کرتے ہیں:
(۱) یہ عوامی بغاوت نہیں ، بل کہ فوجی بغاوت ہے۔ فوجی بھی سب نہیں، بل کہ کچھ بکے ہوئے فوجی۔ عوام کو حفظ و امان چاہیے ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک سب سے اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ پرامن حالات میں اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے رہیں۔وہ ملک میں بلاوجہ انتشار نہیں چاہتے۔ پھر جس حکومت کو انہوں نے خود منتخب کیا ہو، اس کی کارکردگی پر صرف ایک سال کی مدت میں ناکامی کی مہر لگاکر اسے ختم کرنا عام انسانی مزاج کے خلاف ہے۔ پھر مرسی حکومت کے ساتھ جو ہوا،عوام سے اس کی امید رکھنا قطعاً ناممکن ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ عوام کوئی حکومت منتخب کرے اور پھر اسی دن سے اس حکومت کے خلاف احتجاجات شروع کردے۔ اسے گرانے کی آواز لگانے لگے۔ اس انداز سے غوروفکر کیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہ جاتا کہ مصر میں جمہوری حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کا عوام کی اکثریت سے کوئی تعلق نہیں۔
(۲)جب یہ بات طے ہوگئی کہ اس بغاوت میں صرف فوج کے چند بکے ہوئے اعلیٰ افسران ملوث ہیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان افسران نے کس کے اشارے پر اپنے دین اور ضمیر کا سودا کیا؟مصر کے پڑوسی ممالک اور پورے مشرق وسطیٰ پر ایک نظر ڈالتے ہی، شک کی سوئی مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کی
طرف گھوم جاتی ہے۔ ساتھ ہی ایسے متعدد ٹھوس ثبوت بھی ملتے ہیں، جن سے اس بغاوت میں صہیونی سازش کا پتا چلتا ہے۔
(۳) سب سے پہلے خود صہیونیت کی گھناونی تاریخ چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ یہ سارا فتنہ اسی کا کھڑا کیا ہوا ہے۔کیوں کہ پراسرار سازشیں اور بدترین شیطانی چالیں صہیونیت کا مزاج رہی ہیں۔ اس طرح کی سازشوں سے صہیونیت کی تاریخ بھری پڑی ہے اوریہ پوری تاریخ حالیہ بغاوت میں اسرائیلی ہاتھ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
(۴) مشرق وسطیٰ میں ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے علاوہ کوئی اور ملک ایسا نہیں ہے، جس کو اخوانی حکومت سے نہ صرف یہ کہ اپنے مفادات کے عدم تحفظ کا خطرہ ہو بل کہ اخوانی حکومت کے بقاء اور دوام سے اس کا وجود بھی خطرے میں پڑ رہاہو۔
(۵) اسرائیل کا وجود صہیونیت کے شیطانی نظریے کے تحت ہوا ہے اور صہیونیت کا مقصد پوری دنیا پر ہر لحاظ سے صہیونی عزائم کا تسلط ہے۔ اس نے ہمیشہ عالم اسلام کے اتحاد کو اپنی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا ہے۔ اسی لیے خلافت کا خاتمہ کیا گیا اور اسی لیے دو عالمی جنگیں کرائی گئیں۔۱۸۹۸م سے آج تک صہیونیت نے دنیا پر اپنے تسلط اور عظیم تر اسرائیل کے وجود کے لیے کیا کیا نہیں کرایا؟ لاکھوں انسانوں کا قتل،کروڑوں کی بربادی، ملکوں میں بغاوتیں، خانہ جنگیاں اور پھر ان کے ٹکڑے، سیکڑوں قومی رہ نماؤں اور اہم سخصیات کے خلاف قتل کی سازشیں، عالمی میڈیا پر تسلط کرکے پوری دنیا کو گم راہ کرنا، سودی نظام کے فروغ اوردنیا کے معاشی نظام پر قبضہ اور اس پر قبضے کے بعد دنیا کے لاکھوں کروڑوں افراد کو خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کردینا، اپنے حق میں رائے عامہ ہم وارکرنے کے لیے بے شمار نام نہاد مذہبی و قومی رہ نماؤں کو خریدنے کے لیے کروڑوں اربوں ڈالر خرچ کرنا، مختلف ممالک میں اپنے ٹکڑوں پر پلنے والی تنظیموں کا قیام اور ان کو مسلسل مالی، سفارتی اور نظریاتی تعاون فراہم کرنا اور اس طرح کے نہ جانے کتنے اقدامات ہیں، جو صہیونیوں نے اپنے مفادات اور عالم اسلام کی فکری و سیاسی بربادی کے لیے دنیا بھر میں انجام دیے اور آج بھی دے رہے ہیں۔ انہیں کس طرح برداشت ہوسکتا ہے کہ خطے میں کوئی مضبوط اسلامی حکومت قائم ہو؟ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو اس کی ایک صدی سے زیادہ عرصے پر محیط سازشوں اور دسیسہ کاریوں کا کیا ہوگا؟ وہ سب تو اکارت چلی جائیں گی۔ مصری صدر ڈاکٹر محمد مرسی (حفظہ اللہ و رعاہ) نے بھی وہی کیا جس کے تصور سے صہیونیوں کی نیند اڑ گئی تھی۔ یعنی ایک نئے آئین کی تشکیل اور اس آئین کی عوامی و پارلیمانی منظوری ۔
(۶)اگر صہیونیت کی سازشوں کا میدان پوری دنیا ہے تو ان سازشوں کااصل مرکز فلسطین ہے۔ فلسطین میں اسرائیل کی راہ کا واحد روڑا حماس ہے اور حماس، اخوان کی فلسطینی شاخ ہے۔ حماس نے بغیر کسی مضبوط سہارے کے اسرائیل کی نیند حرام کررکھی ہے۔ اگر اسے پڑوسی ممالک میں سے کسی کی مضبوط سرکاری حمایت مل جائے، تو اسرائیل کا کیا ہوگا؟ مصر کی اخوانی حکومت سے حماس کو صرف ایک سرکاری سہارا نہیں ملا بل کہ اپنے ہی نظریات اور فکر کی حامل حکومت کا سہارا مل گیا۔ہوا بھی وہی ، جس کا اسرائیل کو ڈر تھا۔مصر فلسطین سرحد کھول دی گئی، جس سے چند ماہ کے اندر قطر، ملیشیا، انڈونیشیا کے اہم سرکاری وفود اور متعدد اہم شخصیات غزہ پہنچیں اور اسرائیل کے ذریعے کیے گئے غزہ کے ظالمانہ حصار کا سارا اثر ختم کردیا۔ اس طرح اسرائیل کو دیکھتے ہی دیکھتے اپنی سازشوں کے اصل مرکز میں بھی شکست نظر آنے لگی۔
یہ وہ چند نکات ہیں، جن کی روشنی میں مصر کی فوجی بغاوت کے پیچھے اسرائیل کھڑا دکھائی دیتا ہے۔
اسرائیل نے کیا کیا؟
اپنے شیطانی عزائم پر ناکامی کے بادل منڈلاتے دیکھ کر پوری صہیونی لابی حرکت میں آگئی اور اس نے تقریباً ایک سال تک مختلف انداز سے جالے بن کر فوجی بغاوت کرادی۔
(۱) پہلا کام یہ کیا کہ مرسی حکومت کی تشکیل کے دن ہی سے ملک میں کرائے کے لوگوں کے ذریعے مسلسل احتجاج کرانے شروع کردیے۔ کسی فیصلے پر عدلیہ سے وابستہ لوگوں کو ناراضی ظاہر کرنے کو کہا اور کسی فیصلے پر فوج کو۔ کسی فیصلے پرمصر کے عیسائی باشندوں سے احتجاج کرایا اور کسی پر دوسری عوام سے۔ غرض یہ کہ احتجاجات کا ایک سلسلہ قائم رکھااور عالمی میڈیا میں ان احتجاجات کو خوب ہوا بھی دی۔ تاکہ مرسی حکومت کو ناکام اور نااہل باور کرایا جاسکے۔ لیکن اللہ کی رحمتیں ہوں صدر ڈاکٹر محمد مرسی پر کہ انہوں نے ہرموقعے پر انتہائی دانش مندی کا ثبوت دیا اور ہر مخالفت کا سامنا کیا۔
(۲) پورے عالم عرب کے رہ نماؤں کو اس بات سے ڈرایا کہ دیکھو مصر میں اخوان اقتدار پر قابض ہوگئے ہیں۔ اب وہ آگے بڑھیں گے اور تم سب سے بھی کرسی چھین لیں گے۔ اگر تم نے ان کے خلاف ہمارا ساتھ نہ دیا تو تمہارا حال بھی حسنی مبارک جیسا ہوگا۔ حالاں کہ ڈاکٹر مرسی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلا سرکاری دورہ سعودی عرب کا کیا اور دوسرے خلیجی ممالک سے بھی اچھے مراسم رکھے۔ اس کے باوجود صہیونی کویت، بحرین، دبئی اور
سعودی عرب کو ان کے خلاف کھڑا کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ رپورٹوں سے اشارہ ملتا ہے کہ سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز اور ان کے نائب پرنس سلمان بن عبدالعزیز اس کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ لیکن شوریٰ کے رکن اور مشہور ارب پتی طلال بن عبدالعزیز اور سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ بندر بن سلطان کے سخت دباؤ کی وجہ سے انہیں آمادہ ہونا پڑا۔ یہی معاملہ دوسرے حکم رانوں کے ساتھ بھی کیا گیا۔ ہر حکومت میں سے ڈھونڈ کر سب سے بے ضمیر اور بے دین شخص کو خرید کر پوری حکو مت کی رضامندی لی گئی اور عربوں کے خزانوں کو اسلام پسندوں کی حکومت کے خاتمے کے لیے استعمال کیا گیا۔
(۳) غزہ کی حماس حکومت کے ساتھ مصر کے تعاون کو ’’دہشت گردی کے فروغ‘‘ کا نام دیا گیا اور دنیا بھر میں اس کا خوب پروپیگنڈہ کیا گیا، تاکہ عالمی برادری کے درمیان مرسی حکومت کے خلاف ماحول بنایا جائے۔ پھر جب فوجی بغاوت کرادی گئی تو فوراً مصر فلسطین سرحد کو دوبارہ بند کردیا گیا۔مصر و فلسطین کے درمیان واقع سرنگوں کو بے کار کرکے حماس کی حکومت پر عرصۂ حیات تنگ کردیاگیا۔ اسی طرح ہفت روزہ المجتمع، کویت کی رپورٹ کے مطابق فوجی غاصب حکومت نے ڈھائی ہزار فلسطینیوں کو عمرے کے لیے جانے سے روک دیا۔
(۴) مصر کے اندر بھی اخوان کے خلاف کئی محاذ قائم کیے گئے۔ عیسائیوں کو بھڑکایا کہ اب اسلامی حکومت آجانے کے بعد تم مصر میں اپنی قدیم روایات سے محروم کردیے جاؤ گے اور اپنے ہی وطن میں اجنبی بن جاؤ گے۔ دین بے زار نام کے مسلمانوں کو ورغلایا کہ اب تمہاری آزادی ختم ہوجائے گی اور تمہیں اسلام کے ’’ظالمانہ نظام‘‘ کے تحت رہنا پڑے گا۔ چناں چہ بغاوت کے بعد سب سے پہلے عوامی و کابینی منظور شدہ آئین کو کالعدم قرار دیاگیا۔
(۵) ہمیشہ کی طرح کچھ ایسے لوگوں کو بھی اپنا حامی بنایا گیا جن کو قوم اپنا رہ نما سمجھتی ہے اور مذہبی مسائل میں ان کو سند کا درجہ دیتی ہے۔یعنی اصحاب علم و افتاء۔ ان میں سب سے پیش پیش مفتی مصر شیخ جمعہ علی جمعہ ہیں، جن کا نام نامی نتن یاہو اور عبدالفتاح سیسی کے ساتھ لکھا جارہا ہے، اور ان شاء اللہ تاریخ بھی انہیں اسی فہرست میں رکھے گی۔ ساتھ ہی اسلام پسندوں میں سے اخوان کے بعد دوسری بڑی اسلامی پارٹی النور (جو سلفی حضرات پر مشتمل ہے) کو بھی اخوانی حکومت کے خلاف تیار کیا گیااور انہوں نے بھی ’’فاسدالعقیدہ ‘‘ اخوانیوں کے مقابلے میں ’’صحیح العقیدہ‘‘ صہیونیوں کو ترجیح دی۔ العیاذ باللہ، یہ بات کسی تعصب کی بنیاد پر نہیں بل کہ دلائل و شواہد کی بنیاد پر کہی جارہی ہے۔ مرسی حکومت کے دور میں ہندستانی اخبارات میں بھی یہ خبریں شائع ہوئی تھیں کہ اسرائیلی نمائندے النور پارٹی سے رابطے میں ہیں۔ فوجی بغاوت کے بعد یہ تمام اہل دین اپنے اپنے فتووں اور قرآنی و حدیثی دلائل پر مشتمل بیانات کے ساتھ میدان میں کود پڑے ۔ ہزاروں دین پسندوں کی ہلاکت کو جائز اور صہیو نی سازش کے خلاف احتجاج کو ناجائز اور تشدد سے تعبیر کیا گیا۔ فوجی بغاوت کی پرزور تائید کی گئی اور اسلام پسندوں کی حکومت کی مخالفت کی گئی۔ گویا:
سربکف ہم جو بڑھے دین کی نصرت کو حفیظ
کفرکا فتویٰ لگا شیخِ حرم کے ہا تھوں
(۶) مصری فوج کے سربراہان کو عہدے، دولت اور نہ جانے کس کس چیز کا لالچ دے کر بڑی خاموشی سے بغاوت کے لیے آمادہ کیا گیا۔ بغاوت کے بعد فوجی سربراہوں کے ساتھ اسرائیلی نمائندوں کے مذاکرات کی خبریں عام ہوچکی ہیں اور یہ واضح کر چکی ہیں کہ :
وہی بیٹھا بیٹھا شرارت کرے ہے
(۷) مرسی حکومت کی ناکامی ظاہر کرنے کے لیے ایسے متعدد اقدامات کیے گئے ، جن سے عوام کی نظر میں وہ ناکام ثابت ہوجائے۔ مثلاً بار بار گھنٹوں گھنٹوں کے لیے بجلی کی کٹوتی کرائی گئی اور پوچھنے پر بجلی کی قلت کا رونا رلوایا گیا۔ لیکن بغاوت کے بعد یہ ڈراما ختم کروا کے پوری طرح بجلی بحال کرادی گئی۔ اسی طرح مصری معیشت کی بدحالی کا ہنگامہ کیا گیا۔ جب کہ معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر حسین شحاتہ نے ہفت روزہ المجتمع، کویت کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ٹھوس دلائل کے ساتھ یہ بات ثابت کی ہے کہ مصر میں معاشی بحران کبھی تھاہی نہیں۔
(۸)کرائے کے فسادیوں کو مصر میں داخل کرکے عیسائی گرجا گھروں میں آگ لگوائی گئی، تاکہ مصر کے عیسائی باشندے اور پوری عیسائی دنیا مرسی حکومت کے خلاف ہوجائے۔اسی طرح ان ہی کرائے کے غنڈوں سے احتجاجات کو پرتشدد بنانے کا کام لیا گیا۔ متعدد چشم دیدوں کا بیان ہے کہ کئی لوگ شکل سے یورپی معلوم ہوتے تھے لیکن فصیح عربی بول رہے تھے۔ ان میں سے کچھ چہرہ ڈھکے ہوتے تھے اور کچھ کھولے رکھتے تھے۔
(۹) میڈیا کے ذریعے بغاوت سے پہلے ہونے والے حکومت مخالف چھوٹے چھوٹے احتجاجات کو بہت بڑا بناکر پیش کیا گیا اور حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے لیے ہونے والے بڑے بڑے احتجاجات کی تصاویر کو ان چھوٹے احتجاجات کی تصاویر کے طور پر پیش کیا گیا۔ اسی طرح بغاوت کے بعد حکومت کی حمایت میں ہونے والے عظیم الشان احتجاجات کو پھسپھسا اور ناکام بناکر پیش کیا گیا۔ چند لوگوں کو احتجاج کرتے ہوئے اور بازاروں کو پوری طرح کھلا ہوا دکھایا گیا۔
اسرائیل کو کیا ملا؟
فوج کے ذریعے حکومت کا تختہ پلٹوا کر اسرائیل نے آئین کو کالعدم قرار دلوایا، اپنے دیرینہ رفیق حسنی مبارک کو باعزت بری کروایا، فلسطین میں غزہ کے محاصرے کو دوبارہ پراثر بنوایا، کئی ہزار اسلام پسندوں کو رابعہ عدویہ اسکوائر پر چند منٹوں میں شہید کروایا، پوری اخوانی قیادت کو جیلوں میں بند کروایا، ہزاروں علماء اور مقررین و واعظین کو جیلوں یا گھروں میں محصور کروایا، مسجدوں میں تالے ڈلوائے، اخوان کے مرکز کو آگ لگوائی، عرب حکومتوں کے اربوں روپے ضائع کرائے، سلفیت اور غیر سلفیت کے فروعی اختلاف کو ہوا دے کر امت میں اختلاف پیدا کروایا، کئی محترم علماء کو عوام کی نظروں میں بکاؤ مال بنادیا اور اس طرح کے نہ جانے کتنے فائدے حاصل کیے۔ ایک تیر سے دو نہیں پچاسوں شکار کیے۔ سب سے بڑا فائدہ اسے یہ ہوا کہ مشرق وسطیٰ میں اسلام کینشأۃ ثانیہ کی ایک روشن امید کو ختم کردیا۔ یعنی دولت بھی مسلمانوں کی خرچ ہوئی، جانیں بھی مسلمانوں کی گئیں، حکومت بھی مسلمانوں کی گری، کئی اہم مذہبی علماء بھی مسلمانوں ہی کے بدنام ہوئے، آپسی اختلاف بھی مسلمانوں میں پیدا ہوا اور یہ سب کرایا بھی مسلمانوں ہی سے گیا۔ سب کچھ مسلمانوں کا خرچ ہوا، لیکن نفع صرف اسرائیل کو ہوا۔
باطل کو بھی اس بات کا خوب اندازہ ہے کہ اہل حق دبنے والے نہیں ہیں۔ بالخصوص اخوان کو طاغوت کا مقابلہ کرنے کا بھرپور تجربہ ہے۔اسی لیے مفکراسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ نے فرمایا تھا کہ’’لا یحبھم الا مؤمن ولا یبغضھم الا منافق‘‘(ان سے مومن ہی محبت کرسکتا ہے اور منافق ہی نفرت کرسکتا ہے) اس لیے اب ماحول تیار کیا جا رہاہے کہ اخوان اور اس کی سیاسی شاخ ’’پیس اینڈ جسٹس پارٹی‘‘ کو غیر قانونی قرار دے دیا جائے تاکہ جب انتخابات کرائے جائیں تو اخوان نہ آسکیں۔ لیکن کب تک؟ حق کا مقدر فتح و کام رانی ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا حق اور اہل حق کو دنیا میں پھر سربلند کردے گا۔ آخرت کی سربلندی تو ان کا مقدر ہوہی چکی ہے۔
جواب دیں