شومئی قسمت یہ کہ یہ سب کچھ اس وقت ہورہا ہے جب پوری دنیا میں مسلم اقوام بالخصوص مختلف بحرانوں کی لپیٹ میں ہے ، البتہ مشرقِ وسطی میں استعماری طاقتوں کے پیداکردہ بحرانوں سے انتہائی تشویشناک صورت حال پیداہوگئی ہے۔ان بحرانوں سے عالمی امن کے لئے مزیدسنگین ترین خطرات پیداہوچکے ہیں مگرتجزیہ کاراوردانشورحضرات مانتے ہیں کہ استعمارکے پرانے گڑھ لندن میں یہ خبربڑی تیزی سے گردش کررہی ہے کہ عرب ممالک میں جمہوری حکومتوں کے قیام کیلئے جدوجہدکی ناکامی کی گونج برطانیہ میں سنائی دے رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ کچھ عرب حکومتوں کی جانب سے اپنے مخالفین کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں کیالندن ایک بارپھر ۱۹۰۰ء کی دہائی کی طرح اپنے عرب منحرفین کامرکزبن سکتاہے جواپنے آبائی ممالک میں حکومتوں کوگرانے میں کوشاں ہیں؟اس زمانے میں فرانسیسی خفیہ اداروں کے حکام برطانوی دارلحکومت کو لندنستان کے نام سے پکارتے تھے اوراس سے ان کااشارہ مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ ممالک کے ان منحرفین کی جانب ہوتاتھاجو مصر،یمن اورالجزائر جیسے ممالک میں سیکولر حکومتیں گرانے کی سازشیں کررہے تھے۔ ان منحرفین میں سے زیادہ ترتوپرامن تھے لیکن بعض کے تعلقات غیرملکی تشدد پسندگروپوں سے بھی تھے ۔ ایک زمانے میں اسامہ بن لادن نے بھی لندن میں عوامی رابطے کیلئے دفترقائم کررکھاتھا۔
سالہاسال تک برطانوی ہوم آفس یاوزارتِ داخلہ میٹروپولٹین پولیس اورخفیہ ادارے ایم آئی فائیو نے اس معاملے کویہ سوچتے ہوئے نظراندازکیاکہ اس طریقے سے وہ خودان کی کارروائیوں سے بچیں رہیں گے لیکن پھرلندن میں بم دہماکوں نے اس خیال کوغلط ثابت کیا۔ایک دہائی آگے چلیں توآج برطانوی ایوانِ اقتدارمیں یہ سوچ بچارجاری ہے کہ عرب حزب مخالف کے یہ کارکن برطانوی سرزمین پرکس سلسلے میں موجودہیں۔یکم اپریل کووزیراعظم ڈیوڈکیمرون نے ان اطلاعات کے بعدمصرکی سیاسی ودینی تنظیم اخوان المسلمون کی سرگرمیوں کا جائزہ کاحکم نامہ جاری کیاکہ یہ دیکھاجائے کہ کیا اس کے کچھ رہنماوں کاتعلق مصرمیں دہشت گردانہ کی کاروائیوں سے ہے۔انتہاپسندی کے معاملات کے ماہررافئیلوچنٹوشی کاکہناہے کہ برطانیہ تاریخی طورپرایسے افرادکاگڑھ رہاہے جوغیرممالک میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں لیکن اب جوچیزبدلی ہے وہ یہ کہ لوگ اب ایسے افراداورگروپوں کوشک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں مگراصل سوال یہ ہے کہ شک کی نگاہ کاموجدکون ہے؟
اس سوال کاایک ہی جواب دیاجاسکتاہے اوروہ یہ کہ امریکی وصہیونی استعمار جس نے دنیائے اسلام کی انتہائی مؤقر،محترم ، معتبر اورمعتدل جماعت اخوان المسلمون کوآمروجابرفوج کے شکنجے میں کسوادیاہے۔مصرمیں فوج ۱۹۵۲ء سے حکومت کررہی ہے ۔ فوج نے بادشاہت ختم کرتے ہوئے عہدکیاتھاکہ وہ ملک کااقتداربہت جلد عوامی نمائندوں کومنتقل کردے گی مگروہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو!حکمران پھر۵۹سال تک اقتدارمیں رہے اوربالآخریہ سلسلہ فروری ۲۰۱۱ء میں ختم ہواجب عوامی انقلاب نے آمرحسنی مبارک کوگھربھیجنے پر مجبور کر دیا ۔ ۵۹ سالہ دورِ حکمرانی میں مقتدرفوج نے بالادست طبقہ کوامیرسے امیرتراورغریب کوغریب تر بنا دیاجس سے مصری عوام مفلسی اورغربت کی چکی میں پستے رہے۔اب بھی ۵۰ فیصدسے زائدمصری باشندے فاقوں کی زندگی گزاررہے ہیں۔معاشی ترقی جوبھی اورجتنی بھی ہوئی ،اس کا دائرہ شہروں تک محدودرہا۔مصرکے دیہات آج بھی پسماندگی کی المناک تصویر بنے ہوئے ہیں۔یہ معاشی ومعاشرتی فرق انقلاب۲۰۱۱ء کااہم سبب تھا۔ابھرتی عوامی طاقتوں سے خوفزدہ ہوکرفوج مجبورہوگئی کہ اواخر ۲۰۱۱ء میں تاریخ کے پہلے منصفانہ پارلیمانی انتخابات کروادئیے جو۶۶سال تک فوج کے عتاب کاہدف بننے والی جلیل القدر جماعت اخوان المسلمون نے جیت لئے ۔اس نے فریڈم اینڈجسٹس پارٹی تشکیل دے کرالیکشن لڑا۔اخوان المسلمون نچلے اورمتوسط طبقوں کی جماعت ہے۔اسے طاقتور ہوتا دیکھ کرطبقہ اشرافیہ پریشان ہوگیا،اسے امیدنہیں تھی کہ اخوان المسلمون اقتدارتک پہنچ جائے گی ۔اس طبقے کواپنی تعیشات کی زندگی خطرے میں نظرآنے لگی، چنانچہ وہ ہرحال میں اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطرسرگرم ہوگیا۔
مئی جون ۲۰۱۲ء کے صدارتی الیکشن میں جب اخوان کے رہنماڈاکٹرمحمدمرسی کی فتح یقینی ہوگئی توحکومت میں موجودہ آمرانہ دورکی باقیات السیات نے پہلے وارکافیصلہ کیا۔۱۴جون کو سپریم کورٹ میں حسنی مبارک کے تعینات کردہ ججوں نے الیکشن ۲۰۱۱ء میں معمولی سقم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے کالعدم قراردے دیا،یوں متوقع اخوانی صدرکی طاقت کم کرنا مقصودتھا کہ پارلیمنٹ میں اخوانیوں کی کثرت تھی مگرصدرمرسی نے عہدہ سنبھالتے ہی اوائل جولائی میں پارلیمنٹ بحال کرڈالی،یہی نہیں اسے نیاآئین بنانے کی ذمہ داری بھی عطا کردی۔اس اقدام نے طبقہ اشرافیہ(مغرب نوازبالادست قوت اور مادر پدر آزاد تہذیب کے دلدادہ افراد )کومزیدپریشان کردیا۔پارلیمنٹ میں اسلام پسندوں کی اکثریت تھی لہذااسے یقین تھاکہ وہ اسلامی شقیں رکھنے والا آئین ہی تشکیل دیں گے۔ چنانچہ طبقہ اشرافیہ نے روزِ اوّل ہی فیصلہ کرلیاکہ صدرمرسی سے تعاون نہ کیاجائے اوران کے خلاف سازشوں کاآغازہو گیا۔افسرشاہی صدرکے احکامات پر عمل کرنے سے کترانے لگی ۔ادھرعدلیہ کھل کرسامنے آئی اورصدرمرسی کے فیصلوں پربے جااعتراضات شروع کردئے۔اسی دوران طبقہ اشرافیہ میں شامل صنعت کاروں وتاجروں نے ملک میں مصنوعی مہنگائی اوربے روزگاری پیداکردی تاکہ نوخیزاخوانی حکومت معاشی مسائل میں پھنس جائے۔بعدازاں صدرمرسی پر ایک بڑاالزام یہی لگاکہ وہ معیشت کو سنبھالا دینے میں بری طرح ناکام ہوگئے ہیں۔
جب بالادست طبقے سے نبردآزماہونے کے لئے صدرمرسی نے آئینی وقانونی طورپرخودکوبااختیاربناناچاہاتومخالف میڈیایہ پروپیگنڈہ کرنے لگاکہ وہ آمربنناچاہتے ہیں۔ان پریہ الزام لگایاگیاکہ وہ کلیدی سرکاری عہدوں پراسلام پسندوں کوبٹھارہے ہیں حالانکہ اس عمل سے صدرمرسی طاقتور آمرکی باقیات سے چھٹکارا چاہتے تھے تاکہ عوام فلاحی منصوبے شروع کئے جاسکیں ۔طبقہ اشرافیہ کی غدا رانہ ’’محنت ‘‘رنگ لائی اورمعاشرے کے مختلف طبقے مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔مظاہرین نے سر عام مرسی کوبرابھلاکہا،انہیں گالیاں دینے سے بھی دریغ نہ کیا، ان کی سرکاری نشست گاہ پر بھی ہلہ بولا مگرکسی ایک بھی مظاہرے کو انہوں نے جبرسے نہیں روکا۔اخوانی پرامن احتجاج کوانسان کابنیادی حق سمجھتے ہیں الاّ یہ کہ اس آڑ میں جان ومال کو کوئی خطرہ پیش آئے۔قاہرہ میں اخوانی حکومت کے خلاف منظم مظاہروں کاسلسلہ نومبر سے سیکولرولبرل پارٹیوں کے رہنماوں وکارکنوں نے شروع کیا۔ان پارٹیوں کادعوی تھا کہ اخوانی اسلامی آئین تشکیل دینا چاہتے ہیں اوریہ امرانہیں منظورنہیں تھا۔یادرہے مصری شہروں(قاہرہ اوراسکندریہ)کی بہ نسبت دیہات میں اخوان المسلمون کی مقبولیت زیادہ ہے، جہاں راسخ العقیدہ ( جنہیں مغرب قدامت پسند کے نام سے پکارتا ہے)مسلمان بستے ہیں۔اس احتجاج کوبڑھاوادینامقصودتھا،سوطبقہ بالاکے سینکڑوں ایجنٹ مظاہرین میں داخل ہوگئے،انہوں نے پھرفائرنگ اوردنگافسادکاسلسلہ چلادیاجو حسب توقع بڑھتاچلاگیا۔واضح رہے۱۹۵۳ء میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے امریکامخالف ایرانی وزیراعظم محمدمصدق کی حکومت بھی زرخریدغنڈوں سے ہنگامے کرواکے ہی گر وائی تھی ۔ مصرمیں رفتہ رفتہ فساداتنابڑھا کہ شہروں میں اخوانی کارکنوں اورمخالفین کے مابین خونی تصادم شروع ہوگیا۔
اس طرح سے مصرکے بالادست طبقے خصوصاً فوج نے اپنے مفادات کے حصول کی خاطرملک وقوم کوآگ وخون کے الاؤ میں جھونک ڈالا،یہی نہیں عوام کونظریاتی بنیادوں پربھی تقسیم کر دیا۔ممکن ہے کہ اخوانی حکومت کاتختہ الٹنے میں امریکی ہاتھ ہو۔مصرمیں اخوانیوں کے برسراقتدارآنے سے اسرائیل کی سلامتی خطرے میں پڑگئی تھی۔اسرائیلی حکمرانوں کی نیندیں حرام ہونے سے بچانے کیلئے اخوانی حکومت کاخاتمہ کردیاگیا۔نئی مصری حکومت نے غزہ کے مجبوروبے کس فلسطینیوں پریوں ظلم ڈھایا کہ ان کی (Life Lines)لائف لائنیں سرنگیں بند کر دیں ۔بعض عرب ممالک بھی مصری ایلیٹ کلاس کے پشت پناہ بن گئے۔انہیں یہ خطرہ لاحق ہوگیاکہ افریقہ کے سب سے بڑے اسلامی ملک میں جنم لینے والا عوامی انقلاب کہیں ان کی غیرجمہوری حکومتیں اور موروثی بادشاہتیں ختم نہ کرڈالے ،لہندامصری طبقہ بالاکی امدادکیلئے ان ممالک نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیئے تاکہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو سکے۔
ایک سوچے سمجھے منصوبے اورزہر ناک سازش کے تحت مصرمیں اخوانی حکومت کے خلاف احتجاج میں شدت پیداکروادی گئی۔یکم جولائی ۲۰۱۳ء کومظاہرین نے قاہرہ میں اخوان المسلمون کا ہیڈکوارٹرجلاکرراکھ کرڈالا۔اب آخرکارفوج کی بلی بھی تھیلے سے باہرآگئی۔جرنیلوں نے مرسی کوالٹی میٹم دیاکہ مصری عوام کی خواہش کے مطابق مستعفی ہوجائیں لیکن مرسی سازش کوجان چکے تھے، اس لئے انہوں نے انکارکردیاجس کے فوری بعدفوج نے اقتدارپرجبراً قبضہ کرکے منتخب صدرکاتختہ الٹ دیا۔یوں صرف ایک ہی سال میں طبقہ بالا نے گہری سازشوں کے بعد منتخبہ حکومت کاتختہ الٹ دیا اورعرب بہاریہ بظاہراپنے اختتام کوپہنچ گئی۔اس کے بعدپورے ملک میں اخوانی کارکنوں اورسیکورٹی فورسزکے درمیان خونی تصادم کاسلسلہ شروع ہوگیاجوباوجودغاصبوں کے ناقابل فراموش ظلم وستم کے اب تک جاری ہے۔اب تک ۳ہزارکے لگ بھگ اخوانی رہنماوں اورکارکنوں کوشہیداورکئی ہزارکو شدید زخمی کردیاگیاہے۔ہزاروں زخمی عمربھرکیلئے معذوراوراپاہج ہوگئے ہیں اوربے شماراخوانی افرادابھی تک لاپتہ ہیں ،ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہاہے جسے روکنے کے لئے اخوان اب بھی پرامن جدوجہدپرہی اپنایقین ظاہرکررہی ہے۔
۲۸/اپریل کوگرفتارشدہ اخوانی رہنماوں اورکارکنوں کوغاصب حکمران کی مقررکردہ ایک خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا۔یہ مقدمہ یوں بھی اہم تھاکہ ملزمان میں تنظیم کے مرشدعام محمدبدیع بھی شامل ہیں۔جج نے روایتی تعصب کامظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بھی سزائے موت کاحکم دیاہے،اس طرح محمد بدیع ایسی خوفناک سزاپانے والے سنیئرترین اخوانی رہنما بن گئے ہیں۔اب تک یہ اعزازسیدقطبؒ شہیدکوحاصل ہے جنہیں ۱۹۶۶ء میں پھانسی ہوئی تھی۔ حال ہی میں مصرکی ایک عدالت نے اخوان المسلمون کے مزیدارکان کوتین تین سال کی سزاسنادی ہے۔ بے قصورملزموں پرالزام تھاکہ انہوں نے محمدمرسی کی حمائت میں مظاہرے کئے ہیں جب کہ ان میں سے پانچ افرادنے ثبوت مہیاکئے کہ وہ ان دنوں عمرہ کی غرض سے سعودی عرب میں تھے لیکن جج نے ان کی درخواست کوردکردیا۔غیرملکی میڈیاکی تحقیق کے مطابق ڈاکٹرمرسی کی حمائت میں ہونے والے مظاہروں کے دوران میں مصری سیکورٹی فورسزکے ہاتھوں اخوان المسلمون کے ۱۴۰۰/کارکنوں سمیت ہزاروں اہالیانِ مصر جیلوں کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔۲۰/اپریل کومصری فوج اورپولیس نے مختلف شہروں سے اخوان کے کارکن حراست میں لئے جوقومی اتحادکی اپیل پرفوجی بغاوت کے خلاف اورملکی آئین کی حمائت کیلئے ان مظاہروں میں شریک تھے جس کاسلوگن یہ تھاکہ’’ مصر ہمارا ہے ‘‘۔
نظریہی آرہاہے کہ سامراج نے مشرقِ وسطی کابحران سنگین کرنے کے لئے مصرمیں بعض بدقسمت فیصلوں پرعملدرآمدطے کرلیاہے جومشرقِ وسطی یاخطے ہی کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا امن تباہ کرنے کی ایک گھناونی سازش ہے۔اب مشرقِ اوسط کے بحران پربھی ایک نظرڈالتے چلئے۔فارن افیئرکی مارچ کی اشاعت میں خلیجی ممالک میں روزافزوں خلیج (Break Up in the Gulf) کے عنوان سے (Bilal Y Saab)بلال وائی ساب نے اپنے تجزیاتی مضمون میں لکھاہے: سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات نے ۵مارچ کویہ کہتے ہوئے اپنے سفیروں کوقطرسے نکال لیاکہ اس نے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کی اجازت نہ دینے سے متعلق خلیجی مجلس تعاون کے منشورکی ایک شق کی خلاف ورزی کی ہے ۔ یہ غیر معمولی اقدام خلیجی مجلس تعاون اورعلاقائی توازن طاقت میں رونماہونے والی اہم تبدیلیوں کی نشاندہی کرتاہے۔خلیجی مجلس تعاون کے ارکان کے درمیان اختلافات ایک زمانے سے پنپ رہے ہیں۔
دسمبرمیں خلیجی مجلس تعاون کاسربراہ اجلاس کویت میں ہواتھا،اس اجلاس میں سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات نے شام اور دیگر ممالک میں دہشت گردوں کی سرپرستی کے معاملے پرقطرکے خلاف آوازاٹھانے کارادہ ظاہرکیاتھا مگر پھر میزبان ملک کوپریشانی سے بچانے کے لئے اس ارادے پرعمل سے گریز کیا تاہم نجی طورپرقطرکو انتباہ کرنے سے اجتناب نہیں برتاگیا۔اس سے قبل ریاض میں سعودی قیادت نے قطر کے نئے امیرشیخ تمیم کی بدلتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے متنبہ کرنے سے گریزنہیں کیاتھا۔اس ملاقات کااہتمام کویت کے امیرشیخ صباح الاحمدنے کیاتھا۔شیخ تمیم سے کہا گیا تھا کہ وہ خارجہ پالیسی میں فوری اہم تبدیلیاں کریں اوربالخصوص شام میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے گروپوں کی حمایت اورامدادسے گریزکریں۔سالہ شیخ تمیم نے ایسا کرنے پررضامندی ظاہرکی تھی، تاہم انہوں نے کچھ وقت مانگاتھاتاکہ معاملات کوبہتراندازمیں درست کیا جاسکے۔
شیخ تمیم نے جوکچھ کہاتھا،اس پرعمل کیامگرانہوں نے جب یہ دیکھاکہ ان کاملک شام کے معاملات میں ہارچکاہے توانہوں نے اخوان المسلمون اورخطے میں اس سے تعلق رکھنے والی تنظیموں سے رابطے بڑھانے پرتوجہ دی،ان میں حماس بھی شامل تھی۔ساتھ ہی قطرنے ایران اورترکی سے تعلقات بہتربنانے پرخاطرخواہ توجہ دی۔یمن میں الحوثی باغیوں اور لبنان میں حزب اللہ ملیشیاسے رابطے بڑھائے گئے۔مشرقِ وسطی کوخاک وخون میں لوٹانے کی سازش کرنے والے امریکابہادراوراس کے استعماری حواریوں کوذہن نشین کر لینا چاہئے کہ وہ جن ملکوں کوآپس میں لڑانے کے لئے کوشاں ہے وہ اب اخوت کے رشتے کی طرف مراجعت کررہے ہیں۔امریکانے مشرقِ وسطی میں بحران کی حکمت عملی جاری رکھی اور صہیونیت کے کھونٹے پرناچتارہاتواس کے واسطے ایک بہت بڑی دشواری پیداہوگی کہ امریکہ کا سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات سے اسٹرٹیجک تعلقات استواررکھنامشکل تر ہو جائے گا۔
آثار وقرائن بتارہے ہیں کہ استعماراورصہیونیت کے علمبرداروں نے مشرقِ وسطی بالخصوص مصرمیں سازش کے جونئے جال بنے تھے وہ خودانہیں میں پھنس رہے ہیں۔ عالم عرب میں سے مصرکے معزول صدرڈاکٹرمرسی کی مخالفت کرنے والے اپنے طرزِفکروعمل پرغورکررہے ہیں۔مصرکے تازہ ترین حقائق چیخ چیخ کربتارہے ہیں کہ غاصب فوج کے کرتوت فوج اوراس کے بیرونی آقاوں کے گلے پڑرہے ہیں۔ڈاکٹرمرسی کے صدائے حق کی اثرپذیری بھی اظہرمن الشمس ہے۔
جواب دیں