یہاں غور کر نے کے لائق یہ امر ہے کہ رب ذوالجلال نے وقت کی قسم اسی لئے کھائی ہے تاکہ انسان اس وقت میں پنہاں اسباق سے عبرت حاصل کرسکے اوراسی قرآنِ مبین پر تدبر اورغوروفکرکی دعوت بھی دی گئی ہے لیکن اس کے باوجود غافل و مدہوش حضرتِ انسان انقلاباتِ زمانہ سے کچھ نہیں سیکھتا۔صدیوں پہلے مصرمیں نیلامی کا بازارسجاتواس خطہ ارضی کو حضرت یوسف علیہ السلام جیساجلیل القدرپیغمبرودیعت ہوا۔اسی خطے میں کئی فرعون بھی غرق ہوا لیکن اس واقعے سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے عصر رواں کے نئے فرعون جنرل السیسی نے یہاں ظلم وستم کاایسابازارگرم کررکھاہے کہ یہاں کے مظلوم عوام اپنے رب سے السیسی جیسیگناہِ کبیرہ سے چھٹکارے کی دعامانگ رہے ہیں۔ مصری افواج کے سابق سربراہ خودساختہ فیلڈمارشل الفتاح السیسی اپنے دعوے کے مطابق انتخابات میں بھاری اکثریت تونہ لے سکے تاہم ملک کی ساری سرکاری مشینری کی کرامات سے وہ انتخابات میں کامیاب قرارپائے۔السیسی نے تین روزتک ووٹ ڈلوائے تاکہ حسبِ خواہش نتائج حاصل کرسکیں مگرپھربھی فیصدہی ووٹ کاسٹ کروائے جاسکے جس میں السیسی نے فیصدحاصل کرکے تاریخی انتخابات کی شرمناک ترین فتح اپنے نام کروالی۔اہل مصرکواس وقت تک وو ٹ ڈالتے رہے جب تک مناسب ٹرن آوٹ اورحسبِ خواہش نتیجہ سامنے نہیں آسکااور اب اس کے نتیجے میں بالآخر سابق فوجی سربراہ عبدالفتح السیسی نے اتوار کے روز ملک کے نئے صدر کے طور پر حلف اٹھا لیا ہے۔اس سے قبل انہوں نے مئی میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں یک طرفہ کامیابی حاصل کی تھی۔
ڈی ڈبلیوکے تجزیہ کاررائٹرولش کے مطابق یہ صورتحال حسنی مبارک کے دورکی طرف واپسی کے ایک اورقدم کی نشاندہی ہے ۔اسکرپٹ ہرلحاظ سے مکمل لگ رہا تھا ، دنیا کو دکھایا جاتا تھاکہ شکریہ کے طورپرمصری عوام کی بہت بڑی تعداداس شخص کومنتخب کرنے نکلی ہے جس نے قریباًایک سال قبل اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے محمدمرسی کوصدارتی دفترسے نکال باہرکیاتھا۔دنیاپریہ تاثرچھوڑناتھاکہ انقلاب لانے والی قوم دوبارہ اپنی قسمت طاقتورفوج کے ہاتھ میں دیکر کسی حدتک سکون میں آگئی ہے۔ساری دنیا کو یہ سمجھانامقصودتھا کہ مصری قوم مشکل حالات میں اپنے ملک کے استحکام اوراخوان المسلمون کواقتدارسے باہررکھنے کیلئے اپنے چندبنیادی حقوق تک سے دستبردارہونے کیلئے تیارہے۔
یہ پلان بہت ہی عمدہ تھالیکن توقع کے برعکس ووٹروں نے اسکرپٹ کاساتھ نہیں دیا۔جنرل الفتاح السیسی ظاہری طورپراورتوقع کے مطابق اپنے واحدحریف محمدبن صباحی سے بہت زیادہ ووٹ لیکر جیت چکے ہیں لیکن تمام ترسرکاری مشینری استعمال کرکے اورایک بہت بڑی مہم چلانے کے باوجودابتدائی ٹرن آؤٹ شرمناک حدتک کم رہااورووٹنگ کی انتہائی کم شرح کے بعداس میں ایک روزکااضافہ کردیاگیا،تمام سرکاری ملازمین کوایک روزکی چھٹی دی گئی تاکہ ووٹ ڈال سکیں ۔ووٹنگ سے پہلے ذرائع ابلاغ اور’’اعلیٰ سطح‘‘ کے مذہبی رہنماء شہریوں سے ’’اپناقومی فریضہ‘‘اداکرنے کی اپیل کرتے رہے۔بچوں کوٹافیاں چاکلیٹ دینے کااعلان بھی کیاگیااورریڈیوپرووٹ نہ ڈالنے والوں کوجرمانہ کی سز کی دہمکی بھی دی گئی۔مصری شہریوں کواس وقت تک ووٹ ڈالنے پرمجبورکیاگیاجب تک مطلوبہ نتائج یاپھرمطلوبہ ٹرن آؤٹ مکمل نہیں ہوگیا۔
یہی وجہ ہے کہ السیسی کی واضح جیت کے باوجودیہ انتخابات مصری فوج کیلئے ذلت کی علامت بن کررہ گئے۔یہاں پر اس انتخابات کی قانونی حیثیت پربھی سوال اٹھتاہے ۔مصری یہ بات نہیں بھولیں گے کہ السیسی کاانتخاب صرف چالبازیوں اورہیراپھیری کی ایک بدترین مثال ہے۔جنرل السیسی نے بھی بہت زیادہ توقعات وابستہ کررکھی تھیں ،اس کاخیال تھا کہ ٹرن آؤٹ ۸۰فیصد سے تجاوزکرجائے گااوراس خیال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اپنی سب سے بڑی مخالف جماعت الاخوان المسلمون پرپابندی عائدکرچکاتھا اوردیگرجماعتوں کے رہنماؤں کوبھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اخوان المسلمون کایہ مؤقف کہ انتخابات میں کم ٹرن آؤٹ فوجی بغاوت کیلئے موت کا سرٹیفکیٹ منطقی بھی ہے۔اخوان نے انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی اورعوام نے اس پرمہر تصدیق بھی ثبت کردی بہرحال یہ سوال اب بھی بہت سے اذہان میں اٹھ رہاہے کہ عوام کی عظیم اکثریت انتخابات سے دوررہی ہے توکیاصہیونی سامراج کے پروردگاراس حقیقت کواپنی ریشہ دوانیوں کے جلومیں کوئی اہمیت دیں گے یانہیں؟
’’الجزیرہ ‘‘کے معروف تجزیہ کارعباداللہ الارائیں نے ’’مصرکاسیاسی ناٹک‘‘کے عنوان سے لکھاہے:’’مارکس کاایک بہت ہی مشہورقول ہے ’’تاریخ خودکودہراتی ہے،پہلے ایک المیہ کے طورپرپھرایک ناٹک کے طورپر‘‘لیکن مصری اس معاملے میں بہت ہی ہوشیارثابت ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے ان دونوں عناصرکویکجاکردیاہے جس کے باعث ملک مطلق العنانی کے راستے پرگامزن ہوچکاہے ۔ان لوگوں کیلئے جنہوں نے مصرمیں گزشتہ فوجی انقلاب کی حمائت کی ،جس نے ملک کی منتخب جمہوری حکومت کاتختہ الٹ دیااورپھراس کے بعد السیسی متوقع طورپرمصرکاصدرمنتخب ہوجائیں،نہائت ہی خوشی کاموقع ہے۔انتخابی جلسوں کی تکلیف دہ کوریج ،ٹیلیویژن کے انٹرویو اورانتخابی مراحل ،ان میں کوئی بھی چیزایسی نہیں جن سے یہ معلوم ہوتاہوکہ موجودہ انتخابات نسبتاًکھلے سیاسی موحول میں منعقدہورہے ہیں اورلاکھوں مصریوں کواپنی مرضی کے مطابق ووٹ دینے کاحق حاصل ہوگاجوانہوں نے اس سے قبل صدرمرسی کومنتخب کرتے استعمال کیاتھا ۔
السیسی کے حامیوں کاکہناہے کہ فوجی عدالت ملکی تاریخ کیلئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔اپنی پہلی آزمائش میں عبوری حکومت نے جوخودکوجمہوری اقدارکی پاسدارکہتی ہے ، جنوری میں ان سیاسی کارکنوں کوگرفتارکرلیاجنہوں نے فوج کی طرف سے نیاآئین نافذکرنے کے ضمن میں ریفرنڈم کی حمائت کرنے سے انکارکردیاتھا۔مزیدبرآں فوج،ملک میں خوف وہراس کی ایسی فضاقائم کرنے میں کامیاب ہوگئی کہ عوام اپنی امنگوں کے اظہارکے عکاس سیاسی نظریات کااظہارنہ کرسکیں۔گزشتہ جولائی سے مصرکی سڑکوں پرہزاروں مصری شہیدکئے جاچکے ہیں اوراس کے بعدعدالتی احکام کے ذریعے سے بھی بے شمارافرادکوقتل وہلاکت کاسامناکرناپڑا۔ایک سال سے بھی کم عرسے میں اخوان کے ۲۳ہزارمردو زن کو گرفتارکیاجاچکاہے جن پرسنگین سیاسی الزامات عائدکئے گئے ہیں۔
گرفتارشدگان نے اذیت رسانی اورجنسی زیادتیوں کی شکائت کی ہے۔مزیدبرآں اس وقت مصرصحافیوں کیلئے انتہائی خطرناک قراردیاجاچکاہے ۔ان انتخابات کے درمیان جمہوری اقدار کی پامالی،محض میڈیاکاقصورنہیں بلکہ گزشتہ برس سے شروع ہونے والے سیاسی ناٹک میں بہت سے دیگراداکاربھی شامل ہیں اوروہ نہائت ذمہ دارانہ اندازمیں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔بے شمارانقلابی نوجوان کارکنوں کی سرگرمیوں پرمصری خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے بہیمانہ ظلم وستم کاسلسلہ بھی جاری ہے لیکن کچھ افراد ایسے بھی ہیں جنہوں نے مرسی کواقتدارسے ہٹانے کیلئے ریاستی کوششوں کی حمائت کی۔محمدالبرادعی نے بھی فوج کی ان کوششوں سے بھرپورتعاون کیاجن کے ذریعے مرسی کی حکومت کاتختہ الٹ دیاگیا۔
مصرمیں حالیہ فوجی بغاوت کے بعدالبرادعی نے انتہائی خودغرضانہ اندازمیں فوجی حکومت کے نائب صدرکاعہدہ قبول کرنے پررضامندی ظاہرکی جس سے مرادیہ تھی کہ فوجی بغاوت کے رہنماء اپنے اس منافقانہ اورغیرقانونی عمل کاسیاسی چہرہ دنیاکے سامنے پیش کریں۔نورپارٹی کی سرکردگی میں مصری سلفیوں نے انقلاب مخالف سیاسی کارکنوں کی مخالفت میں انتہائی گرمجوشی کامظاہرہ کیا۔اخوان المسلمون کوغیرقانونی قراردینے اوراس پرظلم وستم ڈھانے میں مصری سلفی بھی برابرکے شریک ہیں۔نورپارٹی نے مصری فوجیوں کی طرف سے سیاسی کارکنوں کوکچلنے کی کوششوں میں بھی پوری مددفراہم کی۔
مصرکی حالیہ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ بہت سے نوجوان ،جنہوں نے مصری فوجی انقلاب کی مخالفت کی ،اس وقت جیلوں میں بدترین تشددکاشکارہیں۔جب مصری فوجی حکومت نے البرادعی کی شکل میں دنیاکواپناچہرہ دکھانے کیلئے اپنامقصدحاصل کرلیاتوانہیں فوری طورپرحکومت سے الگ کردیاگیااورانہیں واپس یورپ بھجوادیاگیا۔اسی طرح جب السیسی کے انتخابات میں نورپارٹی اورسبائی اپنااپناکرداراداکرلیں گے توانہیں بھی بیکارسمجھ کر’’دودھ سے مکھی‘‘کی طرح نکال باہرپھینک دیاجائے گا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ مصرمیں باربارآنے والے انقلابات نے مصری عوام کے حقوق بری طرح غصب کرلئے ہیں۔اس وقت مصری عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ السیسی کے انتخاب کے باعث وہ سیاسی استحکام اورمعاشی بحالی کی طرف گامزن ہوجائیں گے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ فوجی حکمرانوں نے ہمیشہ عوام کے حقوق غصب کئے اوران کی امنگوں پرڈاکہ ڈ الا اوریہ حقیقت اب پایہ ثبوت کوپہنچ رہی ہے‘‘۔
رابرٹ فسک نے ’’انڈی پنڈنٹ‘‘کی ۳۱مئی کی اشاعت میں السیسی اوران کی’’جیت‘‘ کا مضحکہ اڑاتے ہوئے لکھاہے :جنرل السیسی کی’’شکست فاتحانہ‘‘نے انہیں دنیاکیلئے خند�ۂ استہزابناکررکھ دیاہے،’’۹۳فیصد!مجھے دوبارہ لکھنے دیجئے…..۹۳فیصد!!!اگرآپ بالکل درست تعدادچاہتے ہیں تو۳.۹۳فیصد!…….یہ شانداراورحیران کن اعدادوشمار مصرکے صدارتی انتخابات میں سابق فیلڈمارشل عبدالفتاح السیسی کے حاصل کردہ ووٹوں کے ہیں۔وہ اتنی بھاری تعدادمیں ووٹ حاصل کرکے جدیدعرب تاریخ کے ناقابل فراموش رہنماؤں،ناصر،سادات،حافظ الاسد کی صف میں شامل ہوگئے ہیں۔جنرل السیسی کے ووٹ عراق پرحکمرانی کے دوران ناقابل شکست سمجھے جانے والے سابق صدر صدام حسین کی طرف سے ۲۰۰۲ء کے ریفرنڈم میں حاصل کردہ سوفیصدووٹوں سے صرف سات فیصدہی کم ہیں،بلاشبہ یہ السیسی کی ’’شاندارفتح‘‘ہے۔
اگرچہ وہ شہنشاہ بغدادکاریکارڈبرابرنہیں کرسکے ،اس کے باوجودوہ ہرطرح کی تحسین وتہنیت کے مستحق سمجھے جارہے ہیں۔آخرہم ان کے اعدادوشمارپربات کرنے اوران پر اظہار حیرت کرنے والے کون ہیں؟اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف ۹۳برس قبل برطانیہ عظمیٰ نے میسوپوٹیمیامیں استصواب رائے (ریفرنڈم)کااہتمام کیاتھاجس میں عراق کے بادشاہ فیصل کو۹۶فیصدووٹ ملے تھے،اس کے بعدبھاری ووٹوں سے منتخب ہوناعرب لیڈروں کی روایت بن گئی ۔۲۱سال قبل حسنی مبارک ۳.۹۳فیصدووٹ لیکرصدرمنتخب ہوئے تھے ۔اس سے پہلے سابق صدرسادات نے اپنے اصلاحاتی ایجنڈے پرعملدرآمدکرنے کیلئے ۹۵.۹۹فیصدووٹ حاصل کئے تھے۔صدام نے ۲۰۰۲ء کے ریفرنڈم میں ۱۰۰فیصد ووٹ حاصل کرنے سے پہلے ۱۹۹۳ء میں ۹۶.۹۹فیصدووٹوں سے اپنی صدارت کی اگلی ٹرم پکی کی تھی۔اس کے بعد۱۹۹۹ء میں حافظ الاسد نے اپنی صدارت کی آئندہ مدت کیلئے ۹۸.۹۹فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔
مصری حکام کے اس اعتراف سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتاکہ السیسی کے صدارتی انتخابات میں رائے دہندگان کاٹرن آؤٹ ۴۶فیصدرہاجواس عظیم شخصیت کی توقع (۸۰فیصد) کے نصف سے بھی کم تھا،دوسرے الفاظ میں انہیں آٹھ کروڑ رائے دہندگان کے ووٹ حاصل کرنے کی امیدتھی لیکن صرف دوکروڑ ۳۳لاکھ ووٹروں نے ان کی خواہش کااحترام کیا ۔ ان کے حریف امیدوارحمدبن صباحی جونصیری مذہب کے پیروکارہیں،صرف تین فیصدووٹ حاصل کرسکے۔انہوں نے انتخابی نتائج کو’’مصری دانش کی توہین‘‘قراردیاہے۔وہ ایک جرأت مندشخص ہیں،جن پرتشددکیاگیااورجنہیں(مخابرات)انٹیلی جنس اہلکاروں نے جیل میں ڈلوایاتھا۔میں یہ سمجھنے سے قاصرہوں کہ آخرانہوں نے الیکشن میں حصہ ہی کیوں لیا؟
اوراب محمدمرسی کاکیابنے گا؟اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے صدرمرسی ۲۰۱۲ء کے حقیقی انتخابات میں۵۱فیصدووٹ حاصل کرکے عہدۂ صدارت پرفائزہوئے تھے۔کچھ ہی عرصے بعدانہیں اپنے فیلڈمارشل جنرل عبدالفتاح نے برطرف کردیاتھا،وہی السیسی جوآج ’’بھاری مینڈیٹ‘‘لیکرمصرکے ’’سلطانِ معظم ‘‘بن چکے ہیں۔برسوں کی جیل مرسی کامقدرہے یاتختۂ دار(خدانخواستہ)اگرالسیسی کے بیان کردہ ’’حقائق‘‘کے مطابق اخوان المسلمون واقعتاًایک ’’دہشتگرد‘‘جماعت ہے تومغرب کے لوگ مرسی کی موت پرمگرمچھ کے آنسوبہانے کے سواکچھ نہیں کرسکیں گے۔جب ناصرنے اپنے مخالفین کوتہس نہس کیاتھاتوکسی نے اس پرآوازنہیں اٹھائی تھی۔ان سے کم رتبے کاصدرکچھ نرمی برت سکتاہے لیکن کتناکم مرتبہ؟السیسی بھی ۳.۹۳فیصدووٹوں سے کامیاب ہونے والاصدرہے۔‘‘
یادرہے کہ برطانوی جریدے ’’ڈیلی میل آن لائن‘‘نے حال ہی میں ا نکشاف کیاہے کہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئرنے مصرکی فوجی بغاوت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ۔ انہوں نے نہ صرف جنرل السیسی کواخوان المسلمون کی حکومت کاتختہ الٹنے ،صدرمرسی کوفارغ کرنے اورعوامی احتجاج سے بہیمانہ طورپرنمٹنے کامشورہ دیابلکہ اس مقصد کیلئے ایک مفصل پلان بھی بناکردیا ۔برطانوی وزیراعظم کے مشیرخاص اورصحافی الیسٹرکیمبل نے ایک خصوصی دورے میں تمام ’’پینترے‘‘لکھ کرکرپلان کی شکل میں السیسی کوفراہم کئے تھے ۔ معروف برطانوی محقق اورصحافی رابرٹ فسک نے بھی ایک آرٹیکل میں ٹونی بلیئرکومصری بحران کاذمہ دارقراردیتے ہوئے لکھاہے کہ مصرکے بحران ،مرسی کی برطرفی اورفوج کی پیش قدمی میں ٹونی بلیئرکاایک کردارہے جنہوں نے جنرل السیسی سے ملاقاتیں کرکے انہیں ایک منتخب جمہوری حکومت کاتختہ الٹنے پررضامندکیا اورپورا’’بلیوپرنٹ‘‘بناکرالسیسی کے حوالے کیا۔رابرٹ فسک نے السیسی کی جانب سے ہزاروں مصری مظاہرین کے قتل میں بلیئرکوبھی موردِ الزام ٹھہرایاہے جوبظاہر’’امن کے سفیر‘‘بن کرمصرکے دورے پرپہنچے تھے لیکن اخوان کی حکومت کوفارغ کرنے کی پلاننگ دیکرہی گھرواپس لوٹے۔رابرٹ فسک نے اپنے اسی مضمون میں ٹونی بلیئراوران کے مشیرخاص کاعراق میں بھی ایسے ہی کردارکاذکرکیاہے۔ بظاہرصحافی دکھائی دینے والے الیسٹرکیمبل کاتعلق برطانوی انٹیلی جنس اورعسکری ایوانوں سے بھی ہے اوروہ ایسے اسٹرٹیجک پلان بنانے اوراس پرعملدرآمد کرنے کے حوالے سے مشہورہیں جن میں عوامی تشدداورسیکورٹی فورسزکی بربریت کاعنصرہمیشہ نمایاں ہوتا ہے۔برطانوی جریدے نے اخوان المسلمون پرتشدداورمنتخب حکومت کے خلاف کریک ڈاؤن کاماسٹرمائنڈبلیئراورالیسٹرکیمبل کوقراردیاہے۔
یہ پہلوبھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ السیسی کوسب سے پہلے مبارک بادکاپیغام کون دے گا؟یقیناًسعودی عرب کے بادشاہ؟ السیسی بھی سعودی فرمانرواکے بے حدمداح ہیں اورانہیں مصری معیشت کی ترقی کیلئے سعودی عرب سے اربوں ڈالرکی ملنے کی توقع ہے۔خلیجی ریاستوں کے امیربھی سعودی خاندان کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے انہیں تہنیتی پیغامات سے نوازیں گے البتہ قطران میں شامل نہیں ہوگاکیونکہ وہ اب بھی برطرف محمدمرسی کاحامی ہے۔السیسی کاسب سے بڑامغربی قدردان ٹونی بلیئرکسی سے پیچھے نہیں رہے گااوران کی تعریف وتوصیف کرنے میں بخل سے کام نہیں لے گالیکن امریکی صدراوباماالسیسی کاخیرمقدم کرنے میں سب سے زیادہ ممتازدکھائی دیں گے۔انہوں نے حامدکرزئی کوبھی اپنے آخری صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے پرمبارکبادسے نوازاتھاحالانکہ پوری دنیانے اس انتخاب کوغیرشفاف قراردیاتھااب انہیں مصرکااقتدارسنبھالنے پرمسرت کااظہار کرنامشکل محسوس نہیں ہوگا۔جبکہ السیسی پہلے ہی اعلان کرچکاہے کہ وہ اخوان کونیست ونابودکردے گااورمصریوں کوجمہوریت کیلئے مزیداگلے بیس برس انتظارکرناہوگالیکن اس کے باوجودامریکااوراس کے اتحادیوں میں رسمِ مبارکباداداکرنے کے بارے میں سرگرمی سے غوروخوض جاری ہے کیونکہ مصرمیں جمہوریت کے نام پرانتہائی مضحکہ خیزمذاق انتخابات اپنے انجام کوپہنچ گئے ہیں۔
جواب دیں