مصر فوج کے چنگل میں

اخوان المسلمین نے اس فیصلہ کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے اور اسی بنا پر فوج کی قائم کردہ عبوری حکومت نے اس وقت تک اخوان کو ممنوع قرار دینے کا اقدام اٹھا رکھا ہے جب تک قانونی تنازعات طے نہیں ہو جاتے۔
اخوان کی گزشتہ 85سال کی تاریخ میں یہ پہلا موقع نہیں کہ اسے ممنوع قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے اسے 3بار ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔ سب سے پہلے عرب اسرائیل جنگ میں شکست کے بعد حکومت کا نزلہ اخوان پر گرا تھا اور اسے خلاف قانون قرارد دے دیا گیا تھا۔قبل ازیں 1952کے فوجی انقلاب کے بعد جس کے نتیجہ میں مصر میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا جمال عبدالناصر نے اخوان کو ممنوع قرار دیا تھا حالانکہ اخوان نے ناصر کے فوجی انقلاب کی حمایت کی تھی لیکن بعد میں جب ملک میں سیکولر آئین نافذ کیا گیا تو اخوان نے اس کی شدید مخالفت کی یوں مصر پر فوج اور عرب قوم پرستی کے تسلط کی راہ میں نظریاتی طور پر اخوان سب سے بڑی رکاوٹ تصور کی گی چنانچہ اس پر جمال عبدالناصر کے قتل کی سازش کا الزام لگا کر اسے خلاف قانون قرار د ے دیا گیا۔ 1965میں اخوان المسلمین کو ایک بار پھر خلاف قانون قرار دیا گیا اور اس کے مرشد سید قطب کوحکومت کا تختہ الٹنے اور جمال عبدالناصر کو قتل کرنے کی سازش کے الزام میں 1966میں سزاے موت سنا کر پھانسی دے دی گی اور اخوان کے ہزاروں رہنماں او ر کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا جو کی برسوں تک پابند سلاسل رہے۔
2011کے مصری انقلاب تک اخوان المسلمین کی حیثیت ایک فلاحی تنظیم کی تھی جو ملک کے غریبوں اور ناداروں کی فلاح وبہبود صحت اور نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے کاموں میں مصروف تھی۔اس کے حیثیت ایک تحریک کی تھی اور قانونی طور پر اس کو سیاسی جماعت تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ 2011کے انقلاب میں حسنی مبارک کا تختہ الٹے جانے کے بعد اخوان نے حزب الحریہ و العدالتہ ( فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی )کے نام سے اپنی پہلی سیاسی جماعت منظم کی جس نے عام انتخابات میں 47فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے اور اسی کے بل پر محمد مرسی نے 51.7فیصد ووٹوں سے صدارتی انتخاب جیتاتھا ۔مصر کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل السیسی کے حکم کے تحت برطرفی کے بعد معزول صدر مرسی گرفتار ہیں اور ان کے ساتھ اخوان المسلمین کے مرشد محمد بدیع نائب سربراہ غیث خیرات الشطر اور محمدالبلتجی اور پوری اعلی قیادت نظر بند ہے۔ معزول صدر مرسی پر مسلح شدت پسندی کو شہہ دینے کا الزام لگایا گیا ہے لیکن ابھی تک ان کے خلاف مقدمہ شروع نہیں ہوا ہے ۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ محمد مرسی کے مقدمہ کے فیصلہ سے پہلے اخوان المسلمین کو ممنوع قراردینا حق بجانب نہیں ہے ۔
جنرل عبدالفتاح کی قیادت میں فوج اخوان المسلمین کا قلع قمع کرنے کے لیے بے تاب اور اٹل ہے اور بظاہر کسی قسم کی مصالحت کا قطعی کوی امکان نہیں۔ویسے بھی فوج جسے صدر مرسی کے ایک سالہ دور کے بعد ملک پر دوبارہ گرفت اور تسلط حاصل ہوا ہے کسی صورت میں اخوان المسلمین کو اقتدار میں آنے نہیں دے گی۔ اخوان پر پابندی اس کوشش اور حکمت عملی کا پیش خیمہ ہے۔۔ممکن ہے کہ فوج اخوان کی تنظیم کا ڈھانچہ مسمار کرنے میں کامیاب رہے لیکن اخوان کی تحریک اور اس کی جڑوں کو جو 85سال سے مصر کی زمین میں گڑی ہوئی ہیں اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی اور اہل حق سر  بلند ہوں گے۔
مصر میں 1952کے فوجی انقلاب کے بعد سے 2011کے عوامی انقلاب تک 59برس تک ملک کی حکمرانی فوج کے ہاتھ میں رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مصر کی 4لاکھ 40ہزار نفوس پر مشتمل فوج پر جو کل آبادی کی ایک فی صد ہے ملک کے کل اخراجات کا23فیصد حصہ فوج پر خرچ ہوتا ہے۔جمال عبدالناصر انور سادات اور حسنی مبارک کے دور میں سیاست پر مکمل کنٹرول کے علاوہ ملک کی معیشت میں بھی فوج کو غیر معمولی عمل دخل رہا ہے ۔ فوج کے 30کارخانے ہیں جن میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد کام کرتے ہیں۔ ان کارخانوں کی پیداوار 400ملین ڈالر سالانہ ہے ۔ خوراک و زراعت کے میدان میں بھی فوج چھای ہوئی ہے ملک کی کل خوراک کی 20فیصد پیداوار فوج کے ہاتھ میں ہے اور یہی نہیں بلکہ سڑکوں اور سرکاری عمارتوں کی تعمیر میں فوج کو بہت بڑا حصہ حاصل ہے ۔ معیشت میں فوج کے اس پیمانہ پر عمل دخل کی بنیاد پر فوج کے بڑے بڑے ٹھیکوں سے نو دولتیوں کا ایک بڑا طبقہ ابھرا ہے جو فوج کی حمایت کا مرکز ہے ۔پھر امریکا کی ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ کی مالی امداد بھی فوج کو اپنا اثر و نفوذ برقرار رکھنے میں ممد ثابت ہوتی ہے۔
اس وقت مسلح افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی کی واضح حکمت عملی یہ ہے کہ فوج کا ملک کی معیشت پر تسلط برقرار رکھا جاے اور وہ حکمرانی دوبارہ حاصل کی جاے جو ناصرسادات اور حسنی مبارک کے دور میں اسے حاصل تھی۔اس حکمت عملی کے پہلے مرحلے میں جنرل السیسی صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے میں تو کامیاب رہے ہیں اور اب وہ اخوان المسلمین کو راستہ سے ہٹانے کے جتن کر رہے ہیں۔
اس ضمن میں اب جنرل السیسی کی کوشش نئے آئین میں فوج کو مکمل طور پر سویلین نگرانی اور احتساب سے یکسر آزاد اور خود مختار ادارہ بنانے کی ہے ۔ اس وقت فوج کی قائم کردہ عبوری حکومت نے نیا آئین مرتب کر نے کے لیے 50 ۔ رکنی کمیٹی مقرر کی ہے جو توقع ہے اگلے دو ماہ میں نئے آئین کا مسودہ پیش کرے گی جو ریفرینڈم کے ذریعہ منظور کیا جاے گا۔ ہوگا در ایں اثنا دس ججوں اور قانونی ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی نے 2012 کے آئین میں اہم ترمیمات تیار کی ہیں جنکے نتیجہ میں فوج مکمل طور پر سویلین کنٹرول سے آزاد خودمختار ادارہ بن جاے گی۔ وزیر دفاع کا تقرر فوج سے ہوگا اور اس تقرری کے لیے مسلح افواج کی سپریم کاونسل کی منظوری درکار ہوگی۔ فوج کے بجٹ کی یک مشت رقم پارلیمنٹ منظور کرے گی لیکن فوج کے بجٹ پر بحث کرنے اور اس کی نگرانی اور اس کے احتساب کے بارے میں پارلیمنٹ کو قطعی کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ البتہ دفاعی بجٹ کے معاملات پر غور کا اختیار قومی دفاعی کاونسل کو ہوگا لیکن اس کاونسل میں اکثریت فوج کے نمائندوں کی ہوگی۔ایک اور اہم ترمیم یہ تجویز کی گئی ہے کہ فوجی عدالتیں شہریوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کر سکیں گی۔ دس رکنی کمیٹی نے جو آینی ترمیمات تجویز کی ہیں ان میں ایوان بالا شور ی کاونسل کو ختم کر دیا گیا ہے سابقہ آین میں کہا گیا تھا کہ پارلیمنٹ میں پچاس فی صد اراکین مزدور اور کسان ہوں گے ۔ نئے آئین کے مسودہ میں اس شق کو حذف کردیا گیا ہے مجوزہ ترمیم میں یہ شق بھی حذف کر دی گی ہے کہ شرعی قوانین کے بارے میں جامعہ الازہر سے مشورہ کیا جاے گا آینی ماہرین کی راے ہے کہ نیا آئین بنیادی طور پر سیکولر انداز کا ہے اور اس کے ذریعہ فوج کو مکمل خود مختاری دی گی ہے اور بڑی حد تک فوج کودوبارہ اسی انداز کی حکمرانی اور ملک کی سیاست پر تسلط حاصل ہو جاے گا جو گزشتہ 59برس سے فوج کو حاصل رہا ہے ۔غرض مصر ایک بار پھر فوج کے مکمل چنگل میں جکڑ رہا ہے ۔گو نئے صدر کے انتخاب میں ابھی کئی ماہ ہیں لیکن ابھی سے ممکنہ امیدواروں کے نام سامنے آرہے ہیں جن میں مسلح افواج کی سپریم کاونسل کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی کا نام سر فہرست ہے جن پر محمد مرسی کو صدر کے عہدہ سے برطرف کرنے اور اخوان المسلمین کو اقتدار سے ہٹانے کے سلسلہ میں تعریفوں کے ڈونگرے برساے جارہے ہیں اور ان میں اپنے آپ کو آزاد خیال کہلانے والے سیکولر عناصر پیش پیش ہیں جنہوں نے 2011میں فوجی حکمران حسنی مبارک کے دور سے چھٹکارا حاصل کرنے اور ملک پر فوج کے تسلط کے خاتمہ کے لیے انقلاب برپا کیا تھا۔ یہی عناصر اب یہ کہہ رہے ہیں کہ جنرل السیسی سے زیادہ آیندہ صدر کے عہدہ کے لیے اور کوی شخص مناسب نظر نہیں آتا۔

«
»

شام پر امریکہ کا حملہ اس وقت ہی کیوں۔۔۔اصول مقصود یا اپنے مفادات؟

گوپال گڑھ کی صبح امن کب آئے گی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے