ہزاروں ہی کی تعداد میں زخمی موجود ہیں۔ ان زخمیوں میں شدید جھلسنے والے بھی ہیں جو احتجاجی کیمپوں کو آتش گیر مادے سے جلانے کے نتیجے میں جھلس گئے۔ ان میں گولیوں کے زخمی بھی موجود ہیں جو خون زیادہ بہہ جانے کے نتیجے میں زندگی سے زیادہ موت کے قریب ہیں۔ ان زخمیوں کو طبی امداد جس طرح فراہم کی جارہی ہے، اس سے اندیشہ ہے کہ مرنے والوں کی تعداد میں کہیں زیادہ اضافہ ہوسکتا ہے۔
آخر السیسی نے ایسا کیوں کیا؟ اگر اس احتجاج کو جاری رہنے دیا جاتا تو کیا ہوجاتا؟ کیا اس کی حکومت گرجاتی؟ یہ احتجاج کرنے والے آخر کب تک احتجاج کرتے؟ جب پوری دنیا السیسی کے ساتھ تھی، تو یہ احتجاج کرنے والے کسی کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟ یہ اور ان جیسے ان گنت سوالات ہیں جو اس بھیانک کارروائی کو دیکھنے کے بعد سر اٹھارہے ہیں۔
میں اس سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ مرسی کو ہٹانے کا کوئی جواز کہیں سے موجود نہیں تھا۔ مرسی نے نہ تو ملک میں اور نہ ہی بیرون ملک ایسا کچھ کیا تھا جس سے لگتا کہ مصر میں انقلاب آچکا ہے۔ چند نمائشی اقدامات کے علاوہ مرسی نے آخر کیا کیا تھا؟ مرسی کی شام کے بارے میں وہی پالیسی تھی جو حسنی مبارک کی تھی، جو ترکی کی ہے اور جو امریکا و سعودی عرب وغیرہ کو مطلوب ہے۔ فلسطین کے بارے میں بھی زبانی ہمدردی کے علاوہ انہوں نے کچھ نہیں کیا تھا۔ حتی کہ رفح کی سرحد بھی نہیں کھولی تھی جس کی وجہ سے اہلِ فلسطین غزہ کی پٹی میں محصور زندگی گزار رہے ہیں۔ سینائی کی پٹی میں وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف برسرپیکار جنگجووں کا صفایا کررہے تھے۔ اسی طرح ان کی علاقے میں ایسی کوئی پالیسی نہیں تھی جو امریکا، اسرائیل، ترکی، سعودی عرب، قطر یا کسی اور کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی۔ کچھ بھی ہو، مرسی ایک منتخب صدر تھے۔ ان کو لانے اور ہٹانے کا اختیار صرف اور صرف مصری عوام کو تھا۔ ان کو ابھی منتخب ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور ان کی مقبولیت کا گراف ابھی تک بلند تھا۔ یہ مقبولیت ہی مرسی کو ہٹانے کا سبب بنی۔
اس خطہ میں جو گریٹ گیم کھیلا جارہا ہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس خطہ کے تمام اسلام پسندوں کو جو کسی بھی طرح سے کسی بھی وقت اس گریٹ گیم میں وائلڈ کارڈ کے ذریعے داخل ہوسکتے ہیں، مصروف کردیا جائے۔ اب قاہرہ میں فوجی کریک ڈاون کا نتیجہ تو دیکھیے۔ پوری اخوان قیادت اور کارکنان زیرزمین چلے گئے ہیں اور انہوں نے السیسی کی فوجی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا فیصلہ کرلیاہے۔ بین الاقوامی سطح پر جو بھی زبانی جمع خرچ کیا جائے سعودی عرب، امریکا، قطر، برطانیہ، فرانس، روس ، چین کسی نے بھی عملا السیسی کے خلاف عملی کارروائی سے گریز کیا ہے۔ ان سب کا رویہ ایک پرشفقت ماں کا اپنے لاڈلے بدتمیز بچے کے لیے محبت آمیز تنبیہ جیسا ہی ہے۔
مصر کے اخوان اور اس علاقے میں ان کے اتحادیوں کو مصروف کرنے کے لیے اس سے زیادہ بہترین منصوبہ کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک طرف یہ السیسی کو تنبیہ کرتے رہیں گے مگر اس کو ہٹائیں گے نہیں، اور امداد بھی دیتے رہیں گے۔ دوسری طرف دوسرے ہاتھ سے اخوان کے جنگجووں کو بھی مطلوبہ مقدار میں فنڈز، ایمونیشن اور ضروری جنگی سامان ملتا رہے گا۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے مصر اب ایک نئے شام میں تبدیل ہوجائے گا۔ اب یہ عالمی سازش کار انتہائی اطمینان کے ساتھ اپنے ہمہ جہتی مقاصد بآسانی حاصل کرسکیں گے۔
سب سے پہلے تو خطے میں جو رہا سہا استحکام تھا، رخصت ہوگیا۔ اب جو چاہے جغرافیائی تبدیلی آئے، ہلکی سی مزاحمت کا بھی اندیشہ نہیں رہا۔ دوسرے، ایک اللہ کے ماننے والوں کا ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل عام جو شیطان کی اولین خواہش ہے۔ تیسرے، ان سازش کاروں کی ملکیت میں واقع جنگی سامان بنانے والی فیکٹریوں میں دن رات کام اور اس کی فروخت میں کئی گنا اضافہ۔ اب بینکوں کو بھی نیا کام مل گیا اور ان جنگی سامان بنانے والی فیکٹریوں، ادویہ ساز کمپنیوں وغیرہ وغیرہ کو بھی نئے کنٹریکٹ مل گئے۔ ان کا تنخواہ دار میڈیا پوری دنیا کو احمقانہ خبروں میں الجھائے رکھے گا، بالکل اسی طرح جس طرح ورلڈ ریسلنگ چیمپئن شپ میں ہوتا ہے۔ رننگ کمنٹری جاری رہے گی اور لوگ اس کے سحر میں ڈوبے رہیں گے۔ اخوان کی حمایت میں دنیا بھر میں آرٹیکل چھپیں گے، مظاہرے ہوں گے، مگر حاصل کیا ہوگا! محض ایک خانہ جنگی۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت اہلِ مصر کو ان کی مرضی کے حکمراں منتخب نہیں کرنے دے گی۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت ون ورلڈ گورنمنٹ کے قیام کا کھیل پوری خوں ریزی کے ساتھ جاری ہے۔ اس سازش کو پہچانیے۔اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔
جواب دیں