اور جنرل ڈائر کا کورٹ مارشل بھی ہوا تھا جب کہ مصری فوج نے اپنے اعلیٰ افسران کے حکم پر ایک سوچی سمجھی سازش اور حکمت عملی کے تحت یہ قتل عام کیا اس پر نادم ہونا تو درکنار وہ الٹے ا سے نہ صرف حق بجانب قرار دے رہی ہے بلکہ مظاہرین کو دہشت گرد بھی قرار دے رہی ہے ۔ یہ بھی اطلاعات ہے کہ سول کپڑوں میں فوجیوں کو اسلحہ لہراتے اور فائرنگ کرتے بھی دکھایا جارہا ہے تاکہ عالمی برادری کو یہ سمجھایا جاسکے کہ مظاہرین بھی تشدد پر آمادہ تھے اور فوجیوں نے اپنی دفاع میں گولی چلائی تھی۔ مصر میں جو کچھ ہو اس کی اگر جدید تاریخ میں کوئی مثال دی جاسکتی ہے تو وہ چین کے تیان من اسکوائر میں ہونے والا قتل عام ہے جہاں چینی فوجیوں نے جمہوری حقوق کا مطالبہ کررہے مظاہرین پر اندھا دھند گولیاں چلاکر جمہوری حقوق کے مطالبہ کی اس تحریک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیا تھا۔ مصر کے فوجی حکمرانوں نے بھی شائد اسی تاریخ کو دوہراکر وہی نتیجہ حاصل کرلینے کی کوشش کی ہے لیکن فی الحال تو ان کا منصوبہ ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ جمہوریت کی بحالی کے لئے مصری عوام کے عزم میں اس قتل عام کے باوجود کوئی کمی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔
ہندوستان کے فرقہ پرست ہوں یا امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کے نو قدامت پسند (Neo-cons) مغربی سامراجیت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ کرنا ان کا شعار بن گیا ہے اب اس کی تقلید عرب ملکوں کے ڈکٹیٹروں اور شہنشاہوں نے بھی شروع کردی ہے ۔ شام کے صدر بشار الاسد نے اپنی آمرانہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا، مصر کے فوجی حکمراں بھی اسی نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ انہوں نے بھی نہ صرف اخوان المسلمون کے کارکنوں کو اور جمہوریت کے لئے سڑکوں پر اترے عوام کو دہشت گرد کہنا شرو ع کردیا بلکہ اب تو ایک بار پھر اخوان المسلمون پر پابندی لگانے کی بات کی جارہی ہے اور کبھی بھی کسی بھی وقت یہ خبر آسکتی ہے کہ اخوان المسلمون کو پھر کالعدم قرار دے دیا گیاہے ۔ سعودی حکمرانوں کو بہار عرب کے ساتھ ہی اپنے پیروں سے زمین نکلتی دکھائی دے رہی تھی، تیونیشیا، یمن اور مصر میں جمہوریت کی بحالی سے ان کی رات کی نیند اڑی ہوئی تھی، مصر میں اخوان المسلمون کی جمہوری اور آئینی حکومت کا تختہ پلٹا جانا سعودی حکمرانوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے اسی لئے فوجی حکومت کے لئے خزانہ کا منہ کھول دیا گیا اور اسے چند عرب حکمرانوں کی طرف سے اب تک اتنی رقم مل گئی ہے جتنی اسے امریکہ سے بطور امداد کئی برسوں میں ملتی۔ امریکہ اور اسرائیل کو تو کبھی بھی اخوان کی حکومت برداشت نہیں تھی حالانکہ دونوں خود کو جمہوریت کا علمبردار کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے ابھی تک مصر کی فوجی بغاوت کو تختہ پلٹ نہیں تسلیم کیا ہے کیونکہ امریکی قانون ایسی حکومتوں کو مالی امداد جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ بہر حال اوبامہ ہوں یا بان کی مون یا دیگر یورپی حکمراں کم از کم زبانی جمع خرچ کی حد تک وہ جمہوریت اور انسانیت کے اس قتل عام کی مذمت تو کررہے ہیں جب کہ سعودی حکمرانوں نے انسانیت دشمنی اور بے شرمی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے مصری فوج کی کارروائی کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی قرار دے کر نہ صرف مصری عوام بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں اور انصاف پسند وجمہوریت نواز عناصر کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے اور اپنی مز ید رسوائی کا سامان کرلیا ہے۔
مصر اس وقت ایک اندھیری سرنگ میں ہے فوج نے اخوان المسلمون کو اسی طرح کچل دینے کا فیصلہ کرلیا ہے جس طرح جمال عبدالناصر کے زمانہ میں کچلی گئی تھی لیکن تب سے اب تک نیل میں بہت پانی بہہ چکا ہے اب دنیا بہت سمٹ چکی ہے جمہوریت کی طاقت کو اب فوجی بوٹوں تلے آسانی سے نہیں روندا جاسکتا حالانکہ شام، بحرین وغیرہ کے حالات کچھ دوسری ہی کہانی کہہ رہے ہیں۔ دراصل فوجی ڈکٹیٹر شپ اور شہنشاہیت کی فتح کا سب سے بڑا سامان عرب ملکوں میں مسلکی تقسیم ہے جسے بڑی ہوشیاری سے مغرب اور اسرائیل نے ہوادی ہے۔ ایران اور عراق کے حکمرانوں کا کردار بھی قطعا قابل تعریف نہیں ہے حزب اللہ جو کبھی ساری دنیا کے مسلمانوں کی آنکھ کا تارا تھی وہ اب شیعہ ملیشیا بن گئی ہے جو امام خمینی کے نظریات اور تعلیمات کے بالکل برخلاف ہے۔ بیروت میں اس کے ہیڈ کوارٹر کو بم سے اڑا دےئے جانے سے سب سے زیادہ خوشی اسرائیل میں منائی گئی ہوگی لیکن شام میں اس کے کردار کے بعد اس طرح کے واقعات کا خطرہ پہلے سے ہی ظاہر کیا جانے لگا تھا۔
عرب ملکوں میں اول تو جمہوریت ہے ہی نہیں جہاں وہ وہاں عوام کے ساتھ دھوکہ بازی ہی کی جارہی ہے مصر میں جمہوریت کا سورج طلوع ہونے سے امید بندھی تھی کہ اب اس کی روشنی دیگر ملکوں تک بھی پہنچے گی کیونکہ وہ اس خطہ کا سب سے بڑااور بااثر ملک ہے لیکن وہاں کی فوج نے پاکستانی فوج کی تاریخ دوہراکر نہ صرف سامراجیوں اور صہیونیوں کو اطمینان بخش دیا ہے بلکہ عرب شہنشاہوں اور ڈکٹیٹروں کو بھی عرصہ تک کے لئے بے فکر کردیا ہے۔ اگر مصری عوام جمہوریت کی یہ لڑائی ہار گئے تو پھر عرب برسوں تک ڈکٹیٹروں اور شہنشاہوں سے نجات نہیں حاصل کرسکیں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ نہ صرف عرب عوام بلکہ دنیا بھر کے جمہوریت نواز عناصر مصری عوام کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں لیکن فی الحال اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا کیونکہ مصر میں جمہوریت سے نہ صرف عرب ڈکٹیٹروں اور شہنشاہوں بلکہ صیہونیوں اور سامراجیوں کا مفاد بھی خطرہ میں پڑرہا تھا ان سب نے مل کر مصر میں جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا ہے لیکن مصری عوام کا خون ناحق رائیگاں نہیں جائے گا ان کے عزم مصمم کو دیکھ کر دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ وہاں جمہوریت کا سورج ضرور طلوع ہوگا فوج بیرکوں میں واپس جائے گی اور قاتلوں کا ٹولہ اپنے کیفرکردار کو پہنچے گا ۔ یہ 21ویں صدی ہے جہاں 19ویں صدی کے اواخر اور 20ویں صدی کے آغاز کے دور کو واپس نہیں لایا جاسکتا۔
جواب دیں