منٰی حادثہ : الٰہی ماجرا کیا ہے ؟


اس وقت تقریباً30لاکھ ضیوف الرحمان بلد حرام مکۃ المکرمہ میں فریضۂ حج ادا کرنے کے لئے جمع ہیں ،کسی بھی مذہبی فریضہ کی ادائیگی کے لئے اتنی بڑی تعداد شایددنیا نے نہ دیکھی ہو ،کفن نما احرام باندھے محبت میں سرشار حجاج کرام کے ٹھاٹھیں مارتا سمندر پر جب دنیا کی نظر پڑتی ہے تو اس کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں ،دل حیران ہو جاتا ہے ،دماغ ماؤف ہو جاتا ہے اور زبان حال و قال عش عش کرتی ہے ۔ اتنے بڑے ہجوم کو کنٹرول کرنا ،نظم و ضبط سے سارے ارکان حج وعمرہ کی تکمیل کراناکسی بھی بڑےسے بڑا ملک کے لئے چیلنج ہے لیکن اللہ رحم فرمائے خادم الحرمین شریفین پر جو ہمیشہ ضیوف الرحمان کی سہولت و آرام کے لئے کوشاں رہتے ہیں ،تاہم مرضیٔ مولیٰ اور مصلحت خداوندی کے آگے کبھی کبھی ان کی تدبیریں بھی دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور بظاہرحادثہ پیش آجاتا ہے ۔
حج 2015ء شاید اسی ناگہانی حادثات کے لئے جانا جائے گا ،12؍ستمبر کو ارکان حج شروع ہونے سے قبل مسجد حرام کے صحن میں کرین گری 107 افراد جام شہادت نوش فرما گئے اور 200سے زائد زخمی ہو گئے ،بظاہر اور ابتدائی رپورٹ کے مطابق شدت کی آندھی اور طوفان کی وجہ سے کرین گری تھی ،پھر بھی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سخت نوٹس لیتے ہوئے بن لادن کمپنی کو بین کرکے نئے ٹھیکے دینے سے روک دیا اور اس کے ذمہ داران کوحقائق سے پردہ اٹھنے تک سفر کرنے پر پابندی عائد کردی ،مرحومین اور معوقین کے لئے ایک ایک ملیون ریال اور مجروحین کے لئے نصف ملیون ریال دینے کا اعلان کر کے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ،مجروحین کی بنفس نفیس اسپتالوں میں جا کرعیادت کر کے اور شہداءکرام کے جنازے کو خود کاندھا دے کرسب کو حیران کر دیا ۔ابھی اس حادثہ کا زخم بھرابھی نہیں تھا کہ آج منیٰ میں رمی جمرات کے لئے جاتے ہوئے حرم سے بھی بڑا حادثہ پیش آ گیا ،سعودی ڈیفنس کے مطابق حادثہ اس وقت ہوا جب جمرات پر کنکر پھینکنے کے لئے اسٹریٹ نمبر204اور 223کے سنگم پرحجاج کی بڑی تعداد اکٹھا ہو گئی تھی جس کی وجہ سے مکتب نمبر93پر بھگدڑمچ گئی،ایک رپورٹ کے مطابق رمی جمرات کے لئے ایک راستہ دخول کے لئے مخصوص تھا اس سے کچھ حجاج واپس نکلنے کی بے جا کوشش کر رہے تھے اسی لئے یہ حادثہ ہوا اور یوں 717حجاج اللہ کے پیارے ہو گئے اور 863سے زائد زخمی ہو گئے ،زیادہ تر ہلاکتیں دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ سعودی ڈیفنس کا کہنا ہے کہ اکثر شہداء اور زخمیوں کا تعلق الجزائر سے ہے ،بی بی سی نامہ نگار کا کہنا ہے کہ نائجیریا ،چاڈاور سنیگال کے زیادہ تر شہری ہیں۔واقعہ کے فوراً بعد سعودی ہلال احمر ،سیکورٹی ٹیمیں،220ایمبولینس اور4000امدادی کارکن جائے حادثہ پر پہونچ گئے ،اس حادثہ کی خبر جیسے ہی سعودی فرمانرواں تک پہنچی وہ سوگ میں ڈوب گئے ، ضعف و نقاہت کے باوجود جائے حادثہ منیٰ پہونچ گئے اور نگرانی پر مامور اعلیٰ عہدیدار کو خود ہدایات جاری کرنے لگے۔ولی عہد اور وزیر داخلہ شہزادہ محمد بن نایف نے بھی بلا تاخیر اہلکاروں کا ہنگامی اجلاس طلب کر کے حادثہ کی وجوہات جاننے کی کوشش کی ،یہ خبر سوشل میڈیا اور الیکٹرنک میڈیا کے حوالے سے جب پوری دنیا میں آگ کی طرح پھیل گئی تو ہر ملک ،ہر شخص رنج و غم میں ڈوب گئے ،شہیدان حرم کے لئے ہر ایک کے د ل سے آہیں اور دعائیں نکلیں لیکن ان آہوں ،دعاؤں اور دکھ درد کے درمیان ایک قوم کے انسان نما کچھ اولادشیطان جشن منا رہی تھی اور سوشل میڈیا پر خوشی کا اظہار کر رہی تھی تو ایک ملک اپنی غلیظ سیاست پر اتارو تھا ،سانحۂ منیٰ پر ایران نے سعودی حکومت کی کڑی تنقیدکرتے ہوئے سنگین الزامات لگا دیئے کہ مناسب سیکورٹی کے انتظامات نہ ہونے کے باعث یہ حادثہ ہوا ،ایرانی حج آرگنائزیشن کے سربراہ کا کہنا ہے کہ :رمی جمرات کے قریب نا معلوم وجوہات کے بنا پر دو راستوں کو بند کر دیا گیا تھا جس کے نتیجہ میں یہ بڑا سانحہ رونما ہوا ،ایران نے خود احتجاج کرتے ہوئے عالم اسلام سے کہا ہے کہ سعودی حکومت کی بد انتظامی پر سعودی حکام سے کڑا احتساب کیا جا ئے ۔
سوال یہ ہے کہ آخراس اجتماعی دکھ کی گھڑی میں ایران گھٹیا سیاست کیوں کر رہاہے ؟عالم اسلام کو اپنے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش کیوں کر رہا ہے ؟ کہیں ایسا تو کہ یمن میں حوثیوں کی پسپائی اور اپنی ذلت و رسوائی کا انتقام لینے کا سعودی عرب سے بہترین موقع سمجھ رہا ہو ۔ ؟ایران کا یہ کہنا کہ دو راستوں کو بے سبب بند کر دیا تھا سراسر جھوٹ پر مبنی ہے ،حادثے کے عینی شاہد الا اسوفو کے مطابق لوگ رمی کے لئے جا رہے تھے کہ ان کے سامنے کنکریاں مار کر آنے والے بعض حجا ج آ گئے(غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق یہ ایرانی لوگ تھے اور یا حسین یا حسین نعرےلگا رہے تھے ) پھر افراتفری کا سماں بن گیا اور اچانک بھگدڑمچ گئی ، لوگ محفوظ جگہ کی تلاش میں ایک دوسرے پر گرتے چلے گئے ۔ایران کے جذبۂ اظہار اور رویے سےتو یہی مترشح ہو رہا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ؟یوں تو اس سے قبل بھی دوران حج حادثے ہوئے ہیںاور اکثر و بیشتر رمی جمار کے وقت ہی بھگدڑکی شکل میں ہوئےہیں ،2006ءمیں رمی کے دوران بھگدڑہوئی 364فراد ہلاک ہوگئے ،۱؍فروری2004 ءمیں پھر بھگدڑ مچی251 حجاج رب حقیقی سے جا ملے،۹؍اپریل 1998ءکوکنکریاں مارتے وقت ایک بار پھر افراتفری ہوئی 118 زائرین ابدی نیند سو گئے اس میںزیادہ تر انڈونیشیا اور ملیشیا کے تھے ،۲؍جولائی 1990ءمکہ کے قریب ایک سرنگ میں دم گھٹنے کے باعث1428 افرادرب سے جا ملے تھے اور یہ سب سے بد ترین واقعہ تھا،لیکن اس وقت حالات مختلف تھے اور اب مختلف ہیں ۔ موجودہ وقت میںجس طرح سعودی کے خلاف بعض تخریب کاری تنظیمیں محاذآراء ہیں اس سے بہت ممکن ہے کہ یہی تخریب کاری طاقتیں اس میںملوث ہیں اور ان ہی طاقتوں نےشیطان کو کنکری مارنے کے لئے جاتے ہوئے حجاج کے درمیان شیطان بن کر بھگدڑ مچائی ہوں ۔ ایک پاکستانی عینی شاہد زاہد علی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ جب بھگدڑمچی ٹھیک اسی وقت بعض خیمے میں آگ بھی لگی تھی تاہم فائر بریگیڈ والوں نے فوراً اس پر قابو پا لیا ،یعنی اِدھر بھگدڑاور اْدھر آگ چہ معنٰی دارد ؟یہ تو سعودی حکام کی جانب سے سخت حفاظتی اقدامات و انتظامات ہی کا ثمرہ ہے کہ پچھلے نو سالوں میں دوران حج کوئی بڑا سانحہ پیش نہیں آیاتھا ۔لیکن اس سال ایک نہیں دو دو حادثے پیش آ گئے آخر کیسے؟ 
بہر حال کچھ بھی ہو یہ وقت سیاسی بیان بازیوں کانہیں ہے ،میں اور تو کی جنگ کانہیں ہے بلکہ یہ وقت ہے وطنیت و قومیت سے بالاتر ہو کرتمام ممالک اور مسلک و مشرب سے اوپر اٹھ کر تمام مسلمانوںکوکلمۂ واحدہ کی بنیاد پر یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کا ،رب سے امن و سلامتی کی بھیگ مانگنے کا ، جنہیں شہادت عظمیٰ ملی ہیں انکے لئے رفع درجات اور جو زخمی ہوئے ہیں ان کے لئے شفاء کاملہ عاجلہ مستمرہ کی دعا ئیں کرنے کا ۔یاد رکھیں !اسی میں امت مسلمہ کی بھلائی مضمر ہے ۔

«
»

مسلمانوں کے نام ،قربان شدہ بکرے کا ای میل

الٰہی یہ تیرے مولوی بندے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے